• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار زمینوں کی حکومتی اصطلاح اور تاریخی حقیقت۔۔شیر علی انجم

خالصہ سرکار کی تشریح گلگت بلتستان میں ایک قومی مسئلہ ہے۔ لیکن اس اہم مسئلے کی طرف آج تک کسی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیم نے توجہ نہیں دی۔ ہمارے ہاں خالصہ سرکار سے مراد وہ اراضی ہے جو بنجر ہے یا قابل کاشت، کسی کے زیر استعمال ہے یا خالی پڑی ہے لیکن کسی فرد واحدکی ملکیت میں نہیں بلکہ خالصہ سرکار کے نام سے قدیم بندوبستی کاغذات محکمہ مال میں رجسٹرڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ہمارے خطے میں ایسی زمینوں کو سرکاری ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر عوامی ملکیتی اراضیوں کو بغیر کسی معاوضے کے حکومت اپنی تحویل میں لے کر ضرورت کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ہمارے عوام کے ذہنوں میں شروع دن سے ایک ہی بات ڈالی گئی ہے کہ خالصہ سرکار سے مراد سرکاری زمین ہے جس پر صرف سرکار کو حق ملکیت اور تصرف کا حق حاصل ہے یوں اس جھوٹی اور من گھڑت تعریف اور تشریح کی وجہ سے ہمارے عوام کو اکثر اوقات اپنے زیر استعمال زمینوں سے بغیر کسی معاوضے کے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عوام نے کچھ نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اس وجہ سے ہم آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان سابق ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ریاست کا تیسرا بڑا صوبہ تھا جسے صوبہ گلگت لداخ کہا جاتا تھا اور آج بھی سرکاری دستاویزات اور اقوام متحدہ کی  قرارداد میں گلگت لداخ صوبہ ہی درج ہے اور پاکستان ہندوستان اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید بحث کرنے سے پہلے یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹیں توپتا چلتا ہے کہ ڈوگروں سے پہلے سکھ سلطنت برصغیر میں ایک اہم طاقت تھی جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں اُبھری۔ سکھوں نے 1799ء میں لاہور پر قبضہ کیا اور پنجاب کے ارد گرد کے علاقوں پر سلطنت قائم کی اور یہ سلطنت 1799ء سے 1849ء تک قائم رہی۔ اس وقت ہندوستان میں کئی سکھ سیاسی تنظیمیں خالصہ ریاست کی بحالی کے لئے باقاعدہ سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس ریاست کا نام خالصہ سرکاریا سکھ پنجابی بادشاہت تھا جو امرتسر اور لاہور سے اُبھر کر پنجاب و گرد و نواح پر قابض ہوئی۔ یہ ریاست ایک وقت میں برصغیر ہند وپاک کی ایک اہم طاقت تھی، جس کے اثرات اس وقت گلگت بلتستان اور گردو نواح تک بھی پہنچے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خالصہ سرکار حکومت 1799 سے 1849 تک رہی اور اس کے بعد پنجاب میں لڑی جانے والی انگریز سکھ جنگوں میں یہ سلطنت تباہ و برباد ہو گئی۔

تاریخ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں پھیلی نیم خود مختار سکھ مسلوں یا راجدھانیوں کو منظم کر کے خالصہ سرکار یا سکھ  شاہی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اپنے عروج پر یہ سلطنت خیبر پاس سے لے کر تبت کے وسط تک اور مٹھی کوٹ کشمیر تک پھیل چکی تھی۔ زور آور سنگھ کشمیر میں سکھوں کے گورنر جموں، گلاب سنگھ کا وزیر تھا جو وہاں سے آگے سکھا شاہی کے قیام کے لئے بڑھا۔ اس نے لداخ مقامی راجاؤں کی ملی بھگت سے 1840 میں فتح کرلیا۔ اُنہوں نے اسی سال سکردو کو بھی فتح کیا۔ فتح کے بعد  بلتی سپاہ کو اپنی فوج میں شامل کرکے تبت پر بھی حملہ آور ہوئے۔ دوسری طرف سکھ فوج کا ہی کرنل نتھو شاہ، گلگت پر حملہ آور ہوا اور پہلی مرتبہ راجہ گوہر امان کو شکست دے کر اس نے گلگت میں قدم جما لئے۔ وہ 1848 میں، نو مل کے قریب جنگ میں ہلاک ہوگیا۔

تاریخ خالصتان سے معلوم ہوتا ہے کہ خالصہ سرکار کے وقت میں ان کے چار صوبے تھے۔ لاہور، ملتان، پشاور اور کشمیر۔ کرنل زور آور سنگھ گلگت پر سرینگر کی جانب سے حملہ آور ہوا تھا اور سرینگر کے حکمران کو ہی جواب دہ تھا۔ 16 مارچ 1840 کو معاہدہ امرتسر کے تحت انگریزوں نے گلگت اور لداخ بشمول بلتستان کی وزارتیں، جموں کے ڈوگرہ راجے کے حوالے کیں۔ کرنل نتھو شاہ، حکمران تبدیل ہونے پر پریشان ہو کر سرینگر پہنچ گئے تاکہ معلوم کرسکیں  کہ اُنہیں اب تنخواہ اور مراعات کون دے گا۔ ڈوگرہ نے اسے اپنی گلگت عملداری جاری رکھنے کو کہا۔ بالآخر 1860 میں کرنل نرائن سنگھ گلگت پر پوری طرح سے قابض ہو گیا۔ یوں بلتستان کی  زیادہ تر اراضی سکھوں کے دور میں ہی خالصہ ریاست کی ملکیت ہوگئی اور اُنہوں نے لینڈ ریفارمز کے ذریعے زمینوں کی قانونی حیثیت مرتب کی ۔

یوں اگر ہم سکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کو سامنے رکھتے ہوئے اگر چھبیس اکتوبر1947 کو مہاراجہ کی طرف سے ہندوستان سے الحاق کی داستان کا مطالعہ کریں تو مقامی لوگوں کے حقوق غصب کیے جانے کا ایک نیا دور شروع ہوتاہوا نظر آتا ہے۔ ڈوگرہ دور سے نکل کر ہندوستان کا حصہ بننے سے انکار اور یکم نومبر کو مقامی جدوجہد کے ذریعے گلگت بلتستان کو ہندوستان کی جھولی میں جانے سے بچانا اور اُس کے بعد کے واقعات بھی دل سوز ہیں۔ تمام تر تاریخی تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی یہاں کے باشندے آئینی اور قانونی طور پر مملکت پاکستان کے شہری قرار نہیں دیے جا سکے اور نہ ہی ریاست جموں کشمیر کی قانونی اور آئینی شہریت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن جب یہاں کے وسائل کی بات آتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگ پاکستان کا اثاثہ  ہیں ،ماتھے کا جھومر ہیں ، سردھڑ کا رشتہ ہے ،پاکستان کی پہچان ہے وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان آج بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا قانونی حصہ سمجھتی  ہے  اور یہاں کے عوام کو ووٹ کا حق حاصل ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ تک رسائی حاصل ہے۔

دوسری طرف اگر عوامی حلقوں کی جانب سے اُسی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کریں تو غداری جیسے الزامات لگا کر خاموش کرنے کی کوشش کرنا معمول کی بات ہے اس حوالے سے بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی  تنظیموں کی   رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انقلاب گلگت کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کی  قرارداد 13 اگست 1948 کے ہوتے ہوئے پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے مل کر معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے ساتھ اس خطے کو باندھ کر ایک طرح سے لیز پرلیا اُس وقت سے لیکر آج تک گلگت بلتستان میں اجتماعی طور پر حقوق سلب ہورہے ہیں ۔جس پر کوئی پوچھنے والا نہیں اور خالصہ زمینوں کو (وہ سرکار جو خود کہتی ہے کہ یہ خطہ متنازعہ ہے) بغیر کسی معاوضے کے جب چاہے جہاں سے چاہے   قبضہ کر لیتی  ہے۔

یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گلگت بلتستان قدرتی وسائل اور آبی ذخائر اور دفاعی حوالے سے اہم ہونے کی وجہ سے پاکستانی کہلاتے ہیں مگر یہاں قانون کی عملداری اسلام آباد کے مزاج پر منحصر ہے۔ یہاں تب بھی احتجاج نہیں ہوا جب 1927 کا سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کیا گیا اور جن لوگوں نے سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کے خلاف محددو پیمانے پر احتجاج کیا اور آج بھی اُس احتجاج کو  جاری  رکھے ہوئے ہیں اور اُن کے ساتھ کیا کچھ ہوا اور ہورہا ہے یہ بھی انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی  تنظیموں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔موجودہ حالات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں کو روکنا یہاں کے پچیس لاکھ عوام کا قانونی حق ہے۔

تاریخ کے آئینے میں اگر دیکھیں تو اس وقت گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار کے حوالے سے جو حکومتی اصطلاحی تعریف ہے وہ پانچویں صوبے کے نعرے سے مماثل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ الحاق بھارت سے بغاوت کرکے ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے لے کر اب تک یہ خطہ آئینی اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں بلکہ قانونی طور پر اُسی ریاست کا حصہ ہے۔ لہٰذا جب تک مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی پیش رفت نہیں ہوتی  یہاں کی تمام زمینیں قانونی طور پر عوامی ملیکت ہیں اور غیر ریاستی عناصر یا اداروں کو اس خطے کی زمینوں کو الاٹ کرنے کا مقامی حکومت کو کوئی اختیار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی بیانیہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا بھی ہے اور اُنہوں نے اس حوالے سے اسمبلی سے بل پاس کرانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن حکمران جماعت نے اُس بل کو غداری قرار دیکر مسترد کر دیا تھا۔ لہذا اسلام آباد سرکار کو چاہیے  گلگت بلتستان کے حوالے سے ہندوستان اور امریکہ کی ملی بھگت اور چین کے خاموش نظارے کے عزائم کو سمجھیں اور ہندوستان گلگت بلتستان کے حوالے سے کس قسم کا عزائم رکھتے ہیں یہ بھی 5 اگست کے بعد دنیا کے سامنے عیاں ہو چُکا  ہے اور لداخ وزارت میں چلاس تک کے علاقے کو شامل کرکے پولیٹیکل میپ جاری کرنا اُن عزائم کی نشاندہی کو مزید واضح کرتا  ہے۔لہذا گلگت بلتستان کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر جاری گریٹ گیم کو سمجھنا ہوگا اور گلگت بلتستان کے عوام کو وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ میں کی   گئی تقریر کی بنیاد پر حقوق دینے ہوں گے  اور گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت اور پاکستان کے ساتھ رشتے کو مزید مضبوط کرنے کیلئے اس خطے اقوام متحدہ کی  قراردادوں کے مطابق حقوق دینے  ہوں گے۔ خاص طور پر  گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں کو روکنا اور خالصہ سرکار زمینوں کی غلط تشریح کرکے عوامی ملیکتی اراضیوں پر قبضے کو روکنا ہوگا کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کی نئی نسل کے اندر مایوسی اور احساس محرومی کا لاوا  خطرناک طریقے سے پک رہا ہے جو پھٹ جانے کی صورت میں معاملہ مزید پیچیدہ  کرسکتا ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply