کٹ پیس۔۔ذیشان نور خلجی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ” اپوزیشن جماعتیں پُر یقین تھیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت چند روز سے زیادہ نہیں چلے گی۔” لیکن اللہ کا شکر ہے ہم چلنے کی بجائے دوڑ رہے ہیں، بلکہ سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک نہیں چل رہا اور اس میں ہمارا قصور نہیں۔ قصور کس کا ہے؟
یہ بحث تو بہت پرانی چلی آ رہی ہے۔ جس کا حل میں نے تلاش کر لیا ہے۔ قصور صرف بابا بلھے شاہ کا ہی نہیں، تھوڑا بہت میڈم نور جہاں کا بھی ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ” اچھا وقت قریب ہے۔” اور یہ اتنا ہی قریب ہے جتنا کہ دِلّی دور ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔اس ضمن میں، میری مثال آپ سب کے سامنے ہے،کہ امید اور ایمپائر کی کرم نوازیوں کے بل بوتے پر، آخر مجھے وزارت عظمیٰ کی سیٹ مل ہی گئی۔اس لئے آپ بھی پانچ سال بعد کی امید رکھیں یا پھر ایمپائر کا انتظار کریں۔ مجھ سے جان چھوٹ ہی جائے گی۔

جمیعت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے ” آج حکمرانوں کی کشتی ڈانوا ڈول ہے۔” جب کہ ہماری کشتی تو پہلے ہی ڈوب چکی ہے۔ اس لئے ہماری خواہش ہے کہ حکومت کی کشتی بھی ڈوب جائے۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔۔
اس ضمن میں ہم نے کافی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور جب سے آزادی دھرنا بھی ناکام ہوا ہے تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ملک کے طول و عرض میں کھمبوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ آپ اگلے روز پشاور رنگ روڈ کے کھمبے تلے، بیان داغ رہے تھے۔

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے “ہم نے حکومت حاصل کر لی ہے، لیکن نظام نہیں بدل سکے۔” اور ماضی کی روایات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہماری تو پوری کوشش ہے کہ دورِ آمریت کی یاد تازہ کی جائے۔ جیسا کہ تمام حکومت مخالف سیاستدان “اندر” ہیں۔اور جو کوئی “باہر” بھی ہے تو وہ ملک سے ہی باہر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ” عمران خان کے بطور وزیراعظم ہی گزارا کرنا پڑے گا۔” کیا کریں؟ مجبوری ہے۔ ان سے جان چھڑانے کو ہم نے بہت ہاتھ پاؤں مارے تھے۔عالمی ادارے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا،کہ شوکت عزیز کی طرز پہ کوئی وزیراعظم مستعار لے لیا جائے۔ لیکن ہماری درخواست پہ کسی نے کان نہ دھرے۔ اور “ڈنگ ٹپاؤ” پالیسی کے تحت ایک عدد مشیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بنک ہمیں سونپ دیا گیا۔اس لئے باقی کے ڈنگ ، اب ہم عمران خان کی قیادت میں ہی ٹاپ رہے ہیں۔

سربراہ ڈیجیٹل پاکستان ویژن تانیہ ایدروس نے کہا ہے ” ہم نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو تبدیل کر کے اس میں انٹرنیٹ کا اضافہ کر دیا ہے۔” ویسے بھی پرانا نعرہ ضرورت سے زیادہ طویل ہے۔اس لئے آپ صرف “نعرۂ انٹرنیٹ” پہ بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔ اور سُرخوں کے ایشیاء کی طرح، روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ بھی گئے دنوں کی بات ہے۔ یہ چیزیں اب عوام کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ اسی لئے ہماری حکومت نے انہیں لوگوں کی پہنچ سے دور کردیا ہے۔ لیکن پھر بھی کسی پیٹو کو روٹی کی یاد ستاتی ہے تو وہ کیک کھا کے گزارہ کر لیا کرے۔ اور باقی سب عوام، اب روٹی کی بجائے انٹرنیٹ پہ ہی اکتفا کیا کرے گی۔ ازلوں سے “ویہلی” اس قوم کو، اور کوئی کام بھی تو نہیں کرنے کو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انہوں نے مزید کہا کہ ” انٹرنیٹ تک رسائی ہر پاکستانی شہری کا حق ہے۔” اور اس کا سارا کریڈٹ موبائل کمپنیوں کو جاتا ہے۔جنہوں نے انٹرنیٹ کو اتنا سستا کردیا ہے کہ ہر شہری کی پہنچ میں آگیا ہے۔ ورنہ بنیادی انسانی حقوق، انصاف، روٹی حتیٰ کہ ٹماٹر تک، عوام کی پہنچ سے ہم نے ایسے دور کر دیے ہیں۔ جیسے پی ٹی وی پہ تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply