بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

انسان کو ابن الوقت اور موقع پرست بنانے میں دو سبب اہم کردار ادا کرتے ہیں، ایک اس کی شخصیت میں ماضی کی محرومیاں، دوسرا اس کا اپنے نظریے کے ساتھcommitted نہ ہونا۔ یہ دو سبب ایسے ہیں جو اس دنیا میں انسان کو ”مالِ تجارت“ بنا دیتے ہیں۔ وہ کسی اچھے بیوپاری کا انتظار کرتا ہے جو اس کی قابلیت و علمیت اور قلم و علم کو بیش قیمت میں خریدلے۔

وہ چاہتا ہے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے استعمال سے اپنی ذات اور ماضی کی محرومیوں کا ازالہ ہی نہ کروں بلکہ اس مقام تک پہنچوں جو میرے لیے شہرت اور دولت کے دروازے کھول دے، خواہ یہ سب کچھ عزت و نیک نامی کے بغیر ہی کیوں نہ ہو؟ ایسے لوگوں کے ماضی میں جھانکا جائے تو انہیں اپنے خاندان اور آباءسے غربت، مفلسی، تنگ دستی ورثے میں ملی ہوتی ہے۔ محرومی اور بے نامی ان کے ماضی کے بڑے زخم ہوتے ہیں۔ ان کی محرومیاں انہیں منتقم مزاج بناتی ہیں یا پھر اتنا چالاک و مکّار کہ یہ زندگی میں ضدی بچے کی طرح وہ سب پانے کی خواہش کرتے ہیں جو ان کے بس میں نہیں ہوتا ،تاآنکہ متاعِ عظیم قربان نہ کر دیں اور وہ متاعِ عظیم ان کا ”نظریہ “ہوتا ہے۔

نظریہ ایک ایسا سودا ہے جس کے مخلص خریدار بھی ہیں اور وہ بھی جن کا مقصد خاص مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اب بیچنے والے پہ منحصر ہے کہ وہ نظریہ کی مارکیٹنگ کیسے کرتا ہے۔کون کون سے ذرائع استعمال کرتا ہے۔ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک، وہ اپنے نظریے کی تشہیر کس انداز میں کرتا ہے۔ فقط نظریہ ہی نہیں بلکہ صاحب نظریہ کی تشہیر بھی ضروری ہوتی ہے ورنہ لوگوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ اس نظریے کے پیچھے کون سی”بلا شخصیت“ موجود ہے۔ وہ معاشرے میں، ”اکھاڑ پچھاڑ“، ”سجی کھبی“ اور ”ایسا کو تیسا“ سبھی طریقے اختیار کرتا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ متوجہ ہوکر اُس کی تعریف کریں یا برا بھلا کہیں۔ بہر حال وہ نظریے کے پیچھے اپنے ارادہ کو پایہ تکمیل تک جاتا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ ہرگز نظریے کے تابع نہیں بلکہ نظریے کو حالات کے تابع رکھ کر اس میں ترمیم و تبدیلی کے جملہ حق اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ وہ قربانی اور ایثار سے اعلیٰ مثال قائم کرنے کے بجائے فقط خوابوں، دھمکیوں اور جذباتی جملوں سے نظریے کی آب یاری کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ دانشوری ہوس ِناموری کی غلام بن گئی اب محرومیوں کو دور کرنے کے لیے مناظروں و مباحثوں کے ذریعے اپنے وجود ”مسعود“ کا یقین دلایا جاتا ہے کسی اہم اور اعلیٰ موضوع پہ گفتگو کے دوران پست اخلاق کا مظاہرہ کر کے بتانے کی کوشش ہوتی ہے ”اے بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی“۔یہ وہ مرض ہے جو ذہنی اور اخلاقی مریضوں نے معاشرے میں عام کر دیا ہے۔ مذہب، سیاست ، دانش و دانائی بیچی جا رہی ہے اور یہ متاع عزیزختم ہونے کو نہیں آرہی۔

انسانی تاریخ میں اپنے نظریے اور قول سے پیوستہ افراد نے سب کچھ ہارنے کے باوجود، وہ سب کچھ پا لیا جو ”نظریے کے بیوپاریوں “ کو نصیب نہ ہو سکا۔ نظریہ سے وابستگی اور پیوستگی انسان کو اعلیٰ کردار ، نیک نامی اور تاریخی حیات عطا کرتی ہے۔ ان لوگوں کی زندگی کا سفر کٹھن اور دشوار ضرور ہوتا ہے لیکن ایسے لوگ دوسروں کے راستے آسان اور ان کی راہوں کے کانٹے چن جاتے ہیں۔

وہ زمانے کے خلاف چلے جاتے ہیں اور زمانہ ان کے خلاف لیکن وہ اپنے نظریے کے خلاف جانے کو ”ارتداد“ سے کم گناہ خیال نہیں کرتے۔ وہ اس لمحہ¿ غفلت کو اپنی روحانی موت خیال کرتے ہیں ۔ یہ رویّہ اور طرزِ فکر ہی قوم کی سیاسی، مذہبی تربیت کرتا ہے۔ فی الحقیقت، دانشور اور راہنما وہی ہوتا ہے جو بلا خوف و خطر سچ بات کہتا اور پیش کرتا ہے۔ وہ قوم کے سامنے اپنے افکار و کردار کو بطور مثال پیش کرتا ہے۔ قوم کو عمل اور پیروی کی دعوت دیتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات اور نہ قوم کی خواہشات کے تابع ہوتا ہے، اس کا نظریہ ہی اس کا راہنما اور مقصد ہوتا ہے۔ جس معاشرے کا دانشور اور راہنما اس کردارو افکار کا مالک ہوگا اسی قوم کے کردار میں پختگی اور حق سے وابستگی پیدا ہوتی ہے۔

اس معاشرے کا کیا بنے گا جس کا دانشور اپنی دانش، قلمکار اپنا قلم، فنکار اپنا فن، عالم اپنا علم اور راہنما اپنا نظریہ، ہوس کی دکان پہ سجا کر خریداری کی دعوت دیتا پھرے، اپنے نیک اور نظریاتی ہونے کا ثبوت عمل سے نہیں قول سے پیش کرتا پھرےفاعتبروا یااولی الابصار

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply