• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حاکمو!ذرا اپنے دماغ کا پاس ورڈ بتانا،عقل انسٹال کرنی ہے۔۔اسد مفتی

حاکمو!ذرا اپنے دماغ کا پاس ورڈ بتانا،عقل انسٹال کرنی ہے۔۔اسد مفتی

ہم نے گزشتہ 72سالوں میں عجیب عجیب دور دیکھے ہیں،وہ دور بھی دیکھا ہے جب اقتدار بہرہ تھا،اور کسی کی بات سنتا ہی نہ تھا،وہ دور بھی آیا جس میں اقتدار کا ن تو رکھتا تھا مگر عقل و ہوش سے بے بہرہ تھا،پھر وہ حکمران بھی آئے جنہوں نے انسانوں کو ذلیل کرنے کانام انسانی عظمت رکھ دیا۔اور اہل وطن کے لیے وہ خیر الہدیٰ بن گئے،اور پھر وہ دور بھی آیا جس میں پاکستان کے اصل مسائل کا چرچا ہوا،لیکن یہ سورج بھی زیادہ دیر تک چمک نہ سکا،اور آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں،جو سیاسی،سماجی،اقتصادی،صحافتی،اور جمہوری آزادیوں کے اعتبار سے۔۔۔گزشتہ ہفتے کی ایک خبر کے مطابق پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بھی مجموعی قومی آمدنی کا صرف 2فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے،جو ایشیا میں سب سے کم ہے۔ہمارے ملک کے مسائل میں سے تعلیم ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کے ساتھ باقی کے مسائل بھی جُڑے ہوئے ہیں،جیسا کہ سیاسی،سماجی،اقتصادی،جمہوری اور جمہوری۔۔آج کا کالم صحافت کے حوالے سے سپردِ قلم کررہا ہوں۔
حکومت کے ایک اعلان کے مطابق قومی پریس اپنا کردار ادا کرنے میں پوری طرح آزاد ہے،اگر ایسا ہے تو ہمارے اخبارات و جرائد عدم تحفظ اور عدم توازن کا شکار کیوں ہیں؟۔۔اخبارات کے بارے میں یہ شکایت عام طور پر پائی جاتی ہے،کہ وہ افواہیں پھیلانے اور بے پَر کی اُڑاتے ہیں،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں تحقیق اور وقوف کا فقدان ہے،میرا خیال ہے کہ شکوؤں کا سلسلہ دراز کرنے کی بجائے ان اسباب و علل کا سراغ لگایا جائے جو ہمارے قومی پریس کو عدم تحفظ کا شکار کیے ہوئے ہیں،اگر حکومت کی سوچ واضح اور صحت مند ہو اور وہ اچھی روایات قائم کرنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے،لیکن ہر حکومت پیوند کاری سے کام چلانا چاہتی ہے،جو کہ مسائل کا حل نہیں ہے،ابلاغ عامہ کی پالیسی تشکیل دیتے وقت یہ اُصو ل مدِ نظر رکھا جاتا ہے کہ اخبارات و جرائد کو صحیح ذرائع تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ترقی یافتہ ملکوں میں اخبار نویس ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں،اور قومی مفاد کی خبر باہر لے آتے ہیں،ہمارے ہاں یہ بات کانفیڈنشل ہے،حکومت کے بڑے فیصلوں کے مدارج کانفیڈنشل ہیں،سرکاری فائلوں میں اخبارات کے تراشے کانفیڈنشل ہیں،دفترِ خارجہ کا ہر ہر لفظ کانفیڈنشل ہے،جب ہر چیز پردے میں ہوتو پھر اخبارات کیا چھان بین اور تحقیق کس موضوع پر تحقیقی اور تنقیدی کام کریں،اس طرزِ عمل کے نتیجے میں بڑے بڑے قومی فیصلے رازداری سے ہوجاتے ہیں،اور قوم کو اس وقت انکے اثرات کا علم ہوتا ہے جب کوئی بڑا حادثہ یا کوئی خونخوار المیہ وجود میں آجاتا ہے،ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اور اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے حکومت کو وہ تمام قوانین اور ضابطے تبدیل یا ختم کردینے چاہئیں جوحقیقت تک پہنچنے کے لیے دیوارِ سکندری بنے ہوئے ہیں،آفیشل سکرپٹ ایکٹ برطانوی استعارے نے نو آبادیاتی نظام چلانے کے لیے 1923 میں بنایا تھا وہ آزادی کے نئے تقاضوں کے مطابق نظر ثانی کا محتاج ہے۔
ابلاغ عامہ کی پالیسی کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اخبارات و جرائد پر ایگزیکٹو کا کم سے کم کنٹرول ہو،یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ میں اخبار نکالنے کے عمل کو پنواڑی کی دکان کھولنے کی طرح آسان اور خود رو تو نہیں سمجھتا مگر پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی نینس میں جس طرح ایگزیکٹو کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں وہ پریس کے صحت مند ارتقا کے لیے نامناسب اور منافی ہیں،اخبارات و جرائد کے معاملات بالعموم تمام قوانین کے تحت عدالتوں میں طے ہونے چاہئیں۔ابلاغ عامہ پالیسی کا تیسرا بنیادی اصول یہ ہوسکتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کو فروغ ملے اور بد ی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے باشعور اہتمام کیا جائے،سچائی کی زیادہ اشاعت حکومت کی ذمہ داری ہے،حق و صداقت کو چھپانا ایک ظلم عظیم ہے،اس ظلم عظیم کی روش بالکل ترک ہونی چاہیے،اس روش نے حکومتوں اور معاشروں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے،یہاں میں عام شہری اور ایک کالم نویس کی حیثیت سے قومی پریس کو اتنا مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت میں بڑی سے بڑی طاقت سے بھی ٹکر لے سکے اور آئین کے تحت ملنے والی سیاسی اور جمہوری نظام کی حفاظت کرسکے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومت میں تنقید سننے کا حوصلہ اور اپنی اصلاح کرنے کا جذبہ موجود ہو،اور ایک صحافی کے قلم کی صداقت کے لیے احترام پایا جاتا ہو کہ اخبار نویس کسی درجے کا بھی ہو وہ امانت دار ہوتا ہے،دوستوں سے خبر اور خبر حاصل کرنے کے زاویوں کی امانت اور جن تک پہنچانی ہے ان کے ضمیر اور مفادکی امانت۔۔وہ چکی کے دو پاٹ بیچ پِستا رہتا ہے،اس طرح پِسنے میں اُس کی سرخروئی ہے،یہی اسکے وجود کا جواز ہے،یہی اس کی حمایت ہے،امانت پہنچانے میں ہمارے پاس جو ذہن و شعور کی چھلنی ہے بس وہ سلامت رہنا چاہیے،کہ اس میں سنگریزے سرک جائیں،اخبارات کو اپنی زندہ توانا سچائی،روشنی اور ترقی پذیر ملک کی نمائندگی کرنی ہے،تو اسے یہ تاریخی اور پیشہ ورانہ انجام دینا ہوگا،کہ زندگی سے سرشار صحافت ہوا میں ہاتھ نہیں اچھالتی۔اسے دلِ دردمند کو سنبھالنے سے ہی مہلت نہیں ملتی اور اس امانت کو سنبھالے چلنے کی ذمہ ادری اس رفتار پر بریک لگائے رکھتی ہے،جس امانت کو قوم کا ضمیر اور اپنے پڑھنے والوں کی سلامتی کہتے ہیں کہ یہی سچائی ہے یہی روشنی ہے۔
اب آئیے آپ کو اپنے دوست ڈچ شاعر کی چھوٹی سی نظم سناؤں
میں غار میں سے اپنا راستہ تراشوں گا
اور اندھیرے کی چٹانیں کاٹتے کاٹتے غار کے دوسرے سِرے پر تھک کر
بے ہوش ہوجاؤں گاکہ روشنی کی تھپکی مجھے جگائے گی،
میں جو غار کو دوں گا وہ زندگی ہے،
جو پتھر کاٹوں کا وہ دکھ ہے،
جہاں بے ہوش رہوں گا،وہ میری قبر ہے،
اور روشنی تو آپ جانتے ہیں،کیا ہوتی ہے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply