• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، سپریم کورٹ فیصلہ کا قانونی جائزہ۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، سپریم کورٹ فیصلہ کا قانونی جائزہ۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے آج تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ ماہرین قانون اس تحریری فیصلے کی تشریح کے حوالے سے تین مختلف نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں۔ اٹھائیس نومبر کو جب معزز سپریم کورٹ نے چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے ازخود نوٹس کا فیصلہ سنایا تو راقم الحروف نے اسی دن اپنے تجزیہ میں یہ عرض کیا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا سادھا نہیں ہے جس قدر سمجھا جا رہا ہے۔ تحریری فیصلہ کے آنے پر ہی کچھ کہا جا سکے گا کہ آیا چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کرنا پڑے گی یا آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ کیونکہ آئین و قانون میں کہیں بھی چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت اور توسیع کا تذکرہ نہیں ملتا۔ تحریری فیصلہ آنے سے قبل کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ پھر تحریری فیصلہ آیا جس میں معزز سپریم کورٹ نے مشروط طور پر چھ ماہ کی توسیع کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ مدت کے دوران قوانین میں مناسب ترامیم کریں اور چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت اور توسیع کے حوالے سے نہ صرف قانون سازی کریں بلکہ قانونی سقم بھی دور کیے جائیں۔ فیصلہ میں واضح طور پر کہیں نہیں لکھا کہ آئین میں ترمیم کریں۔ لیکن آج ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود اگر دیکھا جائے تو اس فیصلے کو لے کر ماہرین تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ چند ماہرین کہتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت اور توسیع کی وضاحت کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ وہ یہ توجیح دیتے ہیں کہ بادی النظری میں معزز عدلیہ کی یہ منشاء ہے کہ آرٹیکل 243 میں جہاں چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا ذکر ہے وہیں پر اس کی مدت ملازمت اور توسیع کی بھی وضاحت کی جائے۔
جبکہ بیشتر ماہرین قانون کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں آئین میں ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف آرمی قوانین میں ترمیم ہی کافی ہے۔ وہ یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ فیصلے میں کہیں بھی واضح الفاظ میں آئینی ترمیم کا ذکر نہیں۔ مزید یہ کہ 1956 اور 1962 سمیت 1973 کے آئین میں بھی مدت ملازمت یا توسیع کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔ کیونکہ یہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے کہ جیسی مناسب ہو قانون سازی کرے اور جب ضرورت ہو اس میں ترمیم کرے۔ اسی وجہ سے پارلیمنٹ نے پہلے سے ہی افواج پاکستان کے قوانین منظور کر کے لاگو کر رکھے ہیں۔ لہٰذا چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت اور توسیع کے حوالے سے صرف انھی قوانین میں ترمیم ہی کافی ہے۔ اس طرح یہ سقم بھی بآسانی سلجھایا جا سکتا ہے۔ حکومت اس حساس نوعیت کے معاملے کو سلجھانے میں بہت سنجیدہ ہے کیونکہ یہ قومی نوعیت کا معاملہ ہے۔ حکومتی وکلاء اور ماہرین قانون کی رائے بھی یہی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تحریر شائع ہونے تک ترمیم کا مسودہ قانون قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہو یا آنے والے ایک دو روز میں پیش کر دیا جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے جبکہ کسی قانون میں ترمیم کیلئے سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔
قانون و آئین کی تشریح کے حوالے سے اتھارٹی مانے جانے والے ماہر قانون چوہدری اعتزاز احسن ایک الگ مؤقف رکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس معاملہ میں نہ تو کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قسم کی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ آئین نے چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا احتیار وزیراعظم کو دے رکھا ہے لہٰذا وزیراعظم کو یہ اختیار ہے کہ وہ جس قدر مدت کیلئے چاہے چیف آف آرمی سٹاف کو توسیع بھی دے سکتا ہے۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کے گزشتہ دونوں 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت یا توسیع کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ مزید یہ کہ آئین پاکستان 1973 میں کہیں بھی چیف آف آرمی سٹاف، اٹارنی جنرل آف پاکستان یا صوبائی گورنر کی مدت کا بھی ذکر نہیں ملتا۔ میری رائے میں یہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے لہٰذا اس پر اوپن بحث کروانے کی ہرگز ضرورت نہ ہے بلکہ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ یہ معاملہ حکمت اور تدبیر سے ہی حل کیا جائے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو آرمی چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع ہوتی رہی وہ کس بنا پر ہوتی رہی۔ تو ان کیلئے عرض ہے کہ یہ ایک روایت تھی جو عرصہ دراز سے چلتی آ رہی تھی جس پر عمل ہو رہا تھا۔ اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں۔ برطانیہ کے آئین و قوانین کا بیشتر حصہ روایات پر ہی مشتمل ہے۔ اور وہ سینکڑوں سال سے انھی روایات پر من و عن عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ خاکسار ماہر قانون تو نہیں ہے لیکن قانون کا ادنیٰ سا طالب علم ضرور ہے۔ خاکسار نے عدالتی فیصلے کا بغور جائزہ لیا ہے۔ میری رائے میں معاملہ ھذا میں آئین میں ترمیم کی بالکل ضرورت نہ ہے۔ کیونکہ فیصلہ میں کہیں پر یہ نہیں لکھا کہ آئین میں ترمیم کی جائے۔ البتہ یہ لکھا ہوا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت اور توسیع کے حوالے سے قانونی سقم دور کیے جائیں اور ضروری قانون سازی کی جائے۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کا کیس نہیں تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران ہر قانونی و آئینی پہلو پر کھل کر بحث ہوئی۔ تمام زیر و زبر زیر بحث آئے۔ اگر آئینی ترمیم کی ضرورت ہوتی تو لامحالہ فیصلہ میں یہ واضح طور پر لکھوایا جاتا کہ آئین کی فلاں شق میں ترمیم کی جائے۔ لیکن مذکورہ فیصلہ میں کسی جگہ بھی براہ راست آئینی ترمیم کی بات نہیں کی گئی۔ اور ویسے بھی اس مقصد کیلئے آرمی قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ لہٰذا اگر افواج پاکستان قوانین میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کے حوالے سے ترامیم کر لی جائیں تو نہ صرف تمام قانونی سقم دور ہو جائیں گے بلکہ بہت خوش اسلوبی سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد بھی ہو جائے گا۔ اس کیلئے ترمیم کا مسودہ پاس کروانے کیلئے پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔ اس عدالتی فیصلے سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ مکمل طور پر بااختیار ہیں اور افواج پاکستان اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے اور آئین و قانون کیساتھ کھڑے ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply