شہباز شریف کا مسئلہ کیا ہے؟۔۔محمد اسدشاہ

آخر شہباز شریف کا مسئلہ کیا ہے ؟ کوئی پیچیدگی ہے ان کے دماغ میں ، جذبات میں ، خیالات میں ، مطالعے میں ، سمجھ میں یا معاملات میں !
کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ ہے –
میں جتنا سوچتا ہوں ، اتنا پریشان ہوتا ہوں کہ ان کا طرز سیاست آخر کیا ہے ۔

ان کی ذاتی خوش نصیبی کہیے یا ان کی جماعت کی بدقسمتی ، کہ وہ میاں محمد نواز شریف کے بھائی ہیں – یہ دونو ں باتیں بیک وقت بھی ہو سکتی ہیں ، اور ان دونو سے ذرا مختلف بھی –
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہباز شریف کو کئی بار رکن قومی اسمبلی ، رکن پنجاب اسمبلی اور وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے مواقع بنیادی طور پر اس وجہ سے ملے کہ وہ بڑے میاں صاحب (یعنی میاں محمد نواز شریف) کے نہ صرف بھائی ، بل کہ بہت مخلص بھائی ہیں – ذاتی طور پر ان کے اندر بہت سی صلاحیتیں ہیں – وہ ایک بہت اعلیٰ منتظم ، اور بہت کامیاب کاروباری شخصیت ہیں – ان حیثیتوں میں انھیں اپنے تمام معاملات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے تمام گر ازبر ہیں – جب وہ وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں ، تب شاید وہ نیند میں بھی نہ بھولتے ہوں کہ کس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے کون سی شخصیت مناسب ترین ہے ، کس ضلع کے لیے کون سا ڈپٹی کمشنر موزوں رہے گا ، صوبے کا آئی جی کیسا ہونا چاہیے اور چیف سیکرٹری کون ہو ، کون سا انڈر پاس کب تک مکمل ہو گا ، تھانیداروں کو جرائم کی بیخ کنی کے لیے کیسے سیدھا رکھنا ہے ، کون سا ایم پی اے ایسا ہے جو وزارت لیے بغیر قابو میں نہیں آئے گا ، کون سے ایم این اے کی سیاسی بلیک میلنگ کا علاج کیا ہے ، کس بندے سے ہاتھ ملانا ہے ، کس کے سلام کا صرف دور سے ہی ہلکا سا ہاتھ ہلا کر جواب دینا ہے اور کس بندے کو جان بوجھ کے نظر انداز کرنا ہے –

یہ ساری صلاحیتیں بعض اور لوگوں میں بھی ہو سکتی ہیں – لیکن وہ بے چارے تو ہر روز اخبارات میں نوکریوں کے اشتہارات پڑھ رہے ہوتے ہیں – کیوں کہ ہمارے جیسے ملک میں صرف صلاحیت کا ہونا ہی کسی بڑی کامیابی کی ضمانت نہیں ہو سکتا – یہاں کوئی ہاتھ تھامنے والا بھی ہونا چاہیے – شہباز کی خوش نصیبی کہ ان کا ہاتھ بڑے میاں صاحب نے پوری محبت ، توانائی اور خلوص کے ساتھ تھاما اور آج تک تھامے ہوئے ہیں – دوسری طرف شہباز شریف نے بھی ہمیشہ بڑے میاں صاحب کے ساتھ وفا اور خلوص کا رشتہ نبھایا ہے – اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے – اپنی جماعت کے اندر اور باہر ، ہر طرف سے بہت مخالفتوں ، طعنوں اور تنقید کے باوجود ، جب بھی موقع ملا، بڑے میاں صاحب نے شہباز ہی کو پنجاب کا انتظام چلانے کا اختیار دیا ۔ شہباز نے بھی ہر ذمہ داری کو بعینہٖ اسی طرح نبھایا ، جس طرح بڑے میاں صاحب کی خواہش رہی –

لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جہاں شہباز شریف ہمیشہ ناکام نظر آئے – اس شعبہ میں ان کی ناکامی صرف ان کی نہیں , بل کہ ان کی پوری جماعت کے لیے پہلے ناکامی ، پھر شرمندگی اور پھر مایوسی بن جاتی ہے – وہ شعبہ ہے “سیاست” – جی ہاں ، بعض قارئین کو میرا یہ کہنا عجیب لگے گا ، لیکن میری دیانت دارانہ رائے یہی ہے کہ سیاست شہباز کا میدان دراصل ہے ہی نہیں – انھیں عوام تو کجا ، خود اپنے کارکنوں اور چاہنے والوں کی دل داری کرنا بھی نہیں آتا – اس معاملے میں وہ ہمیشہ نہایت کٹھور، بزدل ، ناکام اور بودے ثابت ہوئے ہیں –
بڑے میاں صاحب نے پرویز مشرف دور میں مخدوم جاوید ہاشمی کو جماعت کا صدر بنایا تھا – جتنا عرصہ وہ صدر رہے ، خواہ وہ جیل میں بھی تھے ، جماعت کے کارکن پرجوش رہے اور میدان سیاست میں ن لیگ کا پرچم بلند رہا –

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن 2017 میں جب بڑے میاں صاحب پر حکومت و سیاست کے دروازے بند کیے گئے ، تب حالات ایسے ہوئے کہ شہباز کے علاوہ کسی کو جماعت کا صدر بنانا بہت خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا – خاندان اور جماعت ، دونو میں تقسیم کا خدشہ تھا – چناں چہ شہباز ہی کو صدر منتخب کیا گیا – میں نے اوپر لکھا کہ یہ جماعت کی بدقسمتی تھی – پاکستان کی تاریخ گواہ ہے مقبولیت ہمیشہ ان جماعتوں کے حصے میں آتی ہے جن پر پابندیاں، مقدمے اور سختیاں ہوتی ہیں – شہباز کو مسلم لیگ (نواز) کی صدارت ایسے ہی حالات میں ملی – تب “مظلومیت” کے تاثر ، اور میاں صاحب اور محترمہ مریم نواز کی ثابت قدمی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت ، اور اس کے کارکنوں کا جذبہ عروج پر تھے – لیکن اب وہ سب کچھ شہباز شریف کی ناکام اور بزدل سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے – 2018 میں بڑے میاں صاحب اور محترمہ مریم نواز جیل میں قید ہونے کے لیے ، برطانیہ سے خود ہی آ گئے – یہ ایک تاریخی اور بے مثال موقع تھا – پاکستان سمیت دنیا بھر کی تاریخ میں ایسی دلیری کی مثال نہیں ملتی – لاہور میں استقبالی کارکنوں کا ولولہ بھی عروج پر تھا – دنیا انگشت بدنداں تھی – لیکن عین وقت پر شہباز منظر سے اوجھل ہو گئے – جلوس ہوائی اڈے تک نہ پہنچا سکے – سیاست میں انمٹ عروج کا وہ یادگار موقع شہباز نے ضائع کر دیا – کیا شہباز کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسا موقع انھیں دوبارہ شاید کبھی نہیں مل سکے گا- اب بھی انھیں جلسہ ، جلوس یا عوام سے رابطہ کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا – صرف ٹویٹر ، تحریری بیانات اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے سیاست کر رہے ہیں – ان کی صدارت کے دور میں جماعت غائب ہو چکی – کارکن مایوس ہوتے ہوتے خاموش ہو رہے ہیں –
شہباز کو معلوم ہی نہیں کہ جس جماعت کے قائدین اور کارکن سڑکوں پر اور جلسہ گاہوں میں ہوتے ہیں ، انھیں مقدمے اور جیلیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں – لیکن شہباز نے ایک عوامی جماعت کو اپنے ڈرائنگ روم کی کنیز بنا ڈالا ہے ، جس کا رعب ختم ہوتا جا رہا ہے –
آخر شہباز شریف کا مسئلہ کیا ہے ؟ کوئی پیچیدگی ہے ان کے دماغ میں ، جذبات میں ، خیالات میں ، مطالعے میں ، سمجھ میں یا معاملات میں !
کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ ہے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply