• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اک اور ’’ٹی ٹی‘‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔حسن نثار

اک اور ’’ٹی ٹی‘‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔حسن نثار

جھوٹ، فریب، مکر، ریاکاری، منافقت، لالچ، حرص، ہوس، بے حسی، ڈھٹائی، بےشرمی گو آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں لیکن ان سب کا اپنا اپنا علیحدہ وجود، مقام اور شناخت بھی ہے اور کبھی کبھی یہ تمام ’’صفات‘‘ بلکہ ’’ قائدانہ صلاحیتیں‘‘ کسی ایک شخص میں یکجا بھی ہو جاتی ہیں۔ قارئین! مندرجہ بالاابتدائی پیرا گراف کا باقی کالم کے ساتھ قطعاً کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ خالصتاً میرے ذاتی ہیجان اور ہذیان کا نتیجہ ہے جسے سپرد قلم کئے بغیر برین ہیمرج کا خطرہ تھا جبکہ ایک ماڑا موٹا تھوڑا بہت سوچتا ہوا ’’برین‘‘ ہی تو میری کل کائنات ہے اور اس گھمبیر صورت حال کا ذمہ دار 5دسمبر 2019بروز جمعرات شائع ہونے والا ارشاد بھٹی کا وہ کالم ہے جس کے ڈانڈے ارشد شریف کے کسی ایسے پروگرام سے جا ملتے ہیں جو میں نے نہیں دیکھا۔ اب یا تو یہ ریاست ارشاد بھٹی، ارشد شریف اور اس خاکسار حسن نثار کو کسی ’’کالے پانی‘‘ بھیج دے، کسی اندھے کنویں میں دھکیل دے یا کسی کرپٹ بدمست ہاتھی کے پائوں تلے رندوا دے اور اگر ایسا کرنا جمہوری تقاضوں، انسانی حقوق، اظہار رائے وغیرہ کی آزادی کے خلاف ہے تو پھر یہ ریاست اپنی ادائوں پر غور کرے۔ ارشاد بھٹی کے کالم کا عنوان ہے ’’ٹی ٹی اسکینڈل پارٹ ٹو‘‘ میں بے چارہ تو ابھی تک ’’پارٹ ون‘‘ کے سحر سے ہی نہ نکلا تھا
کہ یہ کم بخت ’’پارٹ ٹو‘‘ میرے مونہہ پر رسیدکرے ووٹ کو عزت دینے کے بعد ’’پارٹ تھری‘‘ کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ واہ میرے ارشاد بھٹی براستہ ارشد شریف ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ’’میں کیہڑے پاسے جاواں تے منجی کتھے ڈاہواں‘‘۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’’اسلامی…. جمہوریہ …. پاکستان‘‘ میرے لئے بلیک ہول میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ کرو ….کچھ کرو کہ وہ مصرعہ سانپ بلکہ اژدھا بن کر میرے گرد لپٹ رہاہے کہ ….’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟‘‘’’باریں برسیں کٹھن گیا تے کھٹ کے لیایا ٹی ٹی‘‘بارہ کو 6سے ضرب دیں تو 72 یعنی 72سال بنتے ہیں جبکہ ’’ٹی ٹیاں‘‘ تو گنی نہیں جاتیں…..اک اور ٹی ٹی کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک ٹی ٹی کے پار اترا تو میں نے دیکھااگر اندھے نہیں تو غور سے دیکھو کہ اس ملک میں خط غربت پر رینگنے والا ہر انسان نما کیڑا مکوڑا اک نامعلوم دم توڑتی ہوئی ’’ٹی ٹی‘‘ ہے، ہر چوک پر بھیک مانگتا گداگر بوڑھا، بچہ اور ’’شی میل‘‘ المعروف خواجہ سرا لندن کی سڑکوں پر اٹکھیلیاں کرتی ’’ٹی ٹیوں‘‘ کا مظلوم ہے جنہیں ان کا حق دلانے والا کوئی نہیں اور اگر ہے تو سامنے آئے، میں اس کے درشن کو ترس رہا ہوں۔ قرضے کی ہر قسط ’’ٹی ٹی‘‘ کا مجرا ہے، مہنگائی کا ہر جھٹکا کسی ’’ٹی ٹی فائونڈری‘‘ میں ڈھلا ہے، ہر بے روزگار کی جوانی کو انہی ٹی ٹیوں کے ’’ایناکونڈے‘‘ زندہ نگلنے کے بعد بدہضمی سے بھرپور پریس کانفرنسیں بھی رچا رہے ہیں لیکن یہ اور بات کہ پریس کانفرنس کے دوران جب برطانوی اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ اور اس کے صحافی ڈیوڈ روز کے حوالے سے سوال پوچھا جاتا ہے تو ہمارا عظیم قائد، پنجاب سپیڈ اور ’’ٹی ٹی کائوبوائے‘‘ جواب گول کر جاتا ہے کہ جو ملکی معیشت کے اربوں کھربوں ’’گول‘‘ کر گئے، ان کے لئے کسی صحافی کے سوال کا جواب گول کرنا کون سا مشکل کام ہے۔معاف کیجئے میں سوال کا حال بتانا تو بھول ہی گیا۔ سوال یہ تھا کہ ’’شہباز صاحب! وہ جو ’’ڈیلی میل‘‘ کے موئے صحافی ڈیوڈ روز نے آپ پر پاکستان کے زلزلہ زدگان کی امداد ہڑپ کرنے کا الزام لگایا تھا، اس سلسلہ میں آپ عدالت سے کب رجوع کر رہے ہیں؟‘‘۔ کائو بوائے نے اصل سوال کا جواب دینے کی بجائے وہی گھسی پٹی ٹیپ چلا دی۔’’ہم سرخرو ہوئے مجھ پر اور بچوں پر کرپشن ثابت ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔حیرت ہے، ٹی ٹیوں کے مائونٹ ایورسٹ پر چڑھے چھوٹے میاں ڈیوڈ روز پر کیس کرکے وہاں ’’سرخرو‘‘ نہیں ہو رہے اور بڑے میاں خود کو پینٹ ہائوس کے بحری قزاق قرار دیئے جانے پر ٹس سے مس نہیں ہو رہے تو بار بار اعتزاز احسن کی پیش گوئی یاد آتی ہے کہ:’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ماں کمزور ترین بھی ہو تو اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے مضبوط ترین سے بھڑ جاتی ہے، یہاں چند ٹی ٹیاں ہی نہیں سنبھالی جا رہیں بلکہ الٹا اپنی ’’سرخروئی‘‘ کے دعوے داغ رہی ہیں تو پھر نیچے بھی حشر کا سا سماں نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟ صورت حال کو سمجھنے کے لئے ایک روزنامہ (جنگ نہیں) کی چند سرخیاں ملاحظہ فرمائیں اور یاد رکھیں کہ یہ سرخیاں بھی ٹی ٹی کلچر کی پیداوار ہیں کہ اوپر کی غلاظت نے ہرحال میں نیچے تک سرایت کرنا ہوتا ہے۔’’پنجاب: جیلوں میں ماہانہ 5کروڑ کی بھتہ خوری، موبائل، ملاقات، گھریلو کھانے، منشیات کے ریٹ مقرر‘‘۔’’موبائل فون کے وائی فائی کے ساتھ روانہ استعمال کا ریٹ 5 تا 10 ہزار، روزانہ ملاقات اور کھانے کا ہفتہ دار ٹھیکہ 5 سے 10 لاکھ روپے میں ہوتا ہے‘‘۔’’بیرکس کے دروازے رات کو کھلے رکھنے کے بھی پیسے مقرر‘‘۔’’تبادلہ پیسے دے کر کرواتے ہیں تو پھر کمانا بھی ہے‘‘ سینئر افسر۔یاد رکھنا….. جب تک اوپر ’’ٹی ٹیاں‘‘ ختم نہیں ہوں گی نیچے بھی ’’ٹوٹیاں‘‘ بند نہیں ہوں گی بلکہ مسلسل کھلی رہیں گی اوران سے عوام کا لہو، عوام کی خاطر، عوام کے نا م پر اسی طرح نہ صرف جاری رہے گا بلکہ ’’جمہوریت کا حُسن‘‘ بھی کہلائے گا اور اسی لہو کی سرخی سے ہر روسیاہ….. سرخرو ہوتا رہے گا۔اک اور ٹی ٹی کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک ٹی ٹی کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply