لوگ کیا کہیں گے؟۔۔صدف الیاس

کیا آپ اس جملے سے آشنا ہیں ”لوگ کیا کہیں گے؟“ یقیناً ہوں گے۔ جنوبی ایشیا خصوصاً برّ صغیر میں رہنے والے لوگوں کی پوری زندگی اسی ایک فقرے کے گرد گھومتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
معمولی سے معمولی بات سے لے کر زندگی کے تمام اہم امور طے کرتے وقت ہمارے ذہن میں جو سب سے پہلا خیال ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ میں جو کام کرنے جا رہا ہوں یا رہی ہوں اُ س پہ میرے خاندان یا میرے اردگرد کے لوگوں کا کیا ردّعمل ہو گا؟ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری بھلائی کس کام میں ہے؟ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا من اس بارے کیا کہتا ہے؟ ہم صرف اور صرف اپنے معاشرے کے دباؤ میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں۔
؎ یہ ہے ایک روگ
کیا کہیں گے لوگ؟
یہ کیا پہنا ہے؟ لوگ کیا کہیں گے؟
بیٹی کی شادی کہاں کر رہے ہو؟ لوگ کیا کہیں گے؟
بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھیجنا ہو تو لوگ کیا کہیں گے؟ جوان بیٹی کو اکیلے بیرون ملک بھیج دیا؟ لوگ کیا کہیں گے؟
اپنی پسند سے شادی کر رہے ہو وہ بھی کلاس فیلو سے؟ لوگ کیا کہیں گے؟ اسی لیے یونیورسٹی پڑھنے بھیجا تھا؟
رات دیرکہیں باہر جانا ہو تو یہ کون سا وقت ہے باہر جانے کا؟ لوگ کیا کہیں گے اس وقت کہاں جا رہے ہیں؟
کیا ہماری زندگی کا مقصد محض لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے؟ ہمارے ہاں تو کسی کے فوت ہونے پر کئی کئی دن چو لہا نہیں جلایا جاتا۔ اور نہ ہی ٹیلیوژن دیکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ کسی عزیز کے مرنے کا افسوس ہو یا نہ ہو۔لوگوں کو دکھانے کے لیے رونے اور پیٹنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شادیوں پر جہیز کا رواج محض نمود و نمائش اور لوگوں کی کڑوی کسیلی باتوں سے بچنا ہے۔ مگر ہم لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ضرورت سے زیادہ سامان سے لیس کر کے بیٹی کر رخصت کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جہیز کسی کی خوشی اور سکون کی گارنٹی دے سکتا ہے؟ میرے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہو گا۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زندگی ہماری ہے۔ اس مختصر زندگی میں جو ہمیں قدرت نے عطا کی ہے اپنی مرضی سے گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس سے پوری خوشی حاصل کرنے کا بھی سو فیصد حق حاصل ہے۔ لہٰذا کسی معاملے میں، کسی شخص بارے یا زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہوئے ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کیسے خوش ہیں۔ مختصراً یہ کہ اگر میں تمام دنیاوی مسائل سے مبرّا ہو کر فرشتہ بھی بن جاؤں تو لوگ پھر کہیں گے”اچھی بھلی انسان تھی، یہ فرشتہ بننے کی اس کو کیا سُوجھی؟ فرشتہ بن کر بالکل اچھی نہیں لگ رہی۔
اگر ہم معاشرے کے معیار پہ پورا اُترنے کی کوشش کریں گے تو یہ نا ممکن ہے کیونکہ معاشرے کے معیار پل پل بدلتے ہیں۔
میری آنکھوں دیکھی ایک مثال موجود ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک عورت تھی جس کی عمر 40 سال کو عبور کر گئی تھی۔ اُس کی شادی نہیں ہو رہی تھی۔ اور ایک ہی جملہ سننے کو ملتا تھا کہ ”ہائے! بیچاری کی شادی کی عمر نکل گئی۔ ماں باپ کی چوکھٹ پہ ہی بیٹھی بوڑھی ہو جائے گی۔ بالآخر 45 سال کی عمر میں اس کی شادی ایک خوشحال گھرانے میں ہو گئی۔ اب کہنے والوں کا جملہ بدل گیا۔ اور سننے میں آیا کہ پتا نہیں اس عمر میں اولاد نصیب ہو گی یا نہیں، بہت مشکل ہے بھئی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ کے فضل و کرم سے امید بھی بَر آئی تو اب وہی جملہ اِس جملے میں بدل گیا کہ اللہ تعالیٰ اولادِ نرینہ سے نواز دے۔ پتا نہیں پھر دوبارہ یہ سعادت نصیب ہو یا نہ ہو۔اب خود سوچیے اور فیصلہ کیجئے۔ کیا آپ اپنے معاشرے کو خوش رکھ سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر یہ سوچنا ہی چھوڑ دیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔
؎ لے دے کہ اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”لوگ کیا کہیں گے؟۔۔صدف الیاس

  1. واہ جی واہ بہت خوبصورت۔ لکھا ھے ۔ ھم ساری عمر دوسروں کی خواہشوں کی نذر کر دیتےھیں ۔۔۔مجھے اس پر منیر نیازی مرحوم کا ایک شعر یاد آرھا ھے :
    میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
    عمر میری تھی، اور اس کو بسر اس نے کیا

Leave a Reply to Naeem Ashraf Cancel reply