یہ سندھ کی ثقافت نہیں۔۔محمد احمد

باب الاسلام سندھ کی دینی و ملی خدمات مشہور ہیں۔ برصغیر میں سب سے پہلے اسلام اور تبلیغِ اسلام کا شرف اس خطے کو حاصل رہا ہے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بنفسِ نَفِیس تبلیغ کے غرض سے تشریف لائے اور آج بھی نیرون کوٹ اور محبوب گوٹھ میں ان کے مقبرے اس بات پر گواہ ہیں۔ اسی  بدولت سندھ کو باب الاسلام کا اعزاز ملا اور اس کی برکت سے یہاں کے باشندوں نے دینی علوم میں مہارت تامہ اور ملکہ خاص حاصل کیا اور ایسی خدمات سرانجام دیں کہ عرب وعجم کے کتب خانے اس پر شاہد ہیں۔ تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، فتاویٰ، علم الکلام، علم العروض اور فلسفہ ومنطق سمیت ہر فن میں اپنا لوہا منوایا۔ صرف ٹھٹہ شہر میں تین سو دینی مراکز موجود تھے۔ اس زمانے میں جو علمی حیثیت سمرقند اور بخارا کی تھی وہ ہی مقام سندھ کو حاصل تھا۔ بڑے بڑے شیوخ الحدیث اور تصوف کے آئمہ خلقِ خُدا کو سیراب اور فیضیاب کرتے تھے۔ افغانستان کے فقیر اللہ علوی اور آذربائیجان کے لعل شہباز قلندر نے علم وعمل کی شہرت سن کر سندھ دھرتی کی طرف ہجرت کی اور یہاں لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں سندھ نے ہزاروں اولیاء،اتقیاء، صوفیاء، درویشوں اور بزرگوں کو جنم دیا جس جگہ اتنی ساری متبرک اور نامور علمی شخصیات اور دینی ادارے ہوں تو وہاں رعایا اور عوام الناس پر بھی نیک اور اچھے اثرات ہوتے ہیں۔ معاشرہ بھی اس رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سندھ میں رواداری، محبت، صبر برداشت، دینداری اور سادگی زیادہ ہے۔ اس لمبی چوڑی تمہید کا غرض یہ ہے کہ آج سوچی سمجھی سازش کے تحت، سامراجی قوتوں اور اغیار کی فرمائش پر سندھ کو سیکولر بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور ثقافت کے نام پر فحاشی اور عریانی کے مظاہرے کرکے دنیا کو پیغام دیا جارہا ہے یہ سندھ کی تہذیب اور سندھیوں کی ثقافت ہے۔دس سال سے کلچر ڈے کے نام  پر ہر سال ناچ گانے اور مخلوط اجتماعات منعقد کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سندھی لادین اور سیکولر ازم کے خواہاں ہیں۔بسا اوقات دور بیٹھے ہمارے بھائی مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے۔ کیونکہ میڈیا بھی ان کو ہائی لائٹ کرتا ہے اور ہماری آواز دبادی جاتی ہے۔ ہم دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سندھ کی ثقافت نہیں اور ہمارے آباء واجداد کی تہذیب نہیں۔

سندھ کی تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا یہ شیطانی ٹولہ کس طرح شریف لوگوں کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کررہا ہے۔ کلچر ڈے متعارف کرانے والا ایک صحافی جس نے اس بہانے سیاست میں انٹری کے بڑے جتن کیے اور بے انتہا کوشش کی اس شاطر اور مکار انسان نے اپنی ہوس اور اقتدار کی لالچ کی  خاطر سندھی کارڈ استعمال کیا اور سادہ لوح لوگوں ورغلانے کی کوشش کی لیکن اس کو منہ کی کھانی پڑی ہر جگہ سے رسوائی اس کا مقدر بنی بھائیوں نے اس کو کاروبار سے الگ کردیا اور الیکشن میں بدترین شکست سے دو چار ہوا اب پھر اس نے ایک اخبار کے پیچھے اپنے باطل اور مذموم مقاصد تکمیل کے لئے پناہ لی ہے۔ لیکن جب تک سندھ میں ایک بھی دینی غیرت وحمیت والا نوجوان مسلمان زندہ ہے اس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔سندھی ٹوپی اور اجرک کے بہانے معصوم بیٹیوں اور بچیوں کو سڑکوں پر نچانا اور ڈانس کروانا مسلمانوں کی تہذیب کیسے ہوسکتی ہے؟ اور خواتین ومرد حضرات کے مخلوط اجتماع سندھیوں جیسی غیرت مند قوم کی ثقافت کیسے ہوسکتی ہے؟

یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ اور سازش ہے ہمارے بزرگ پہلے ہی اس کو بھانپ چکے ہیں۔ جس طرح ماضی قریب میں ایسے لوگوں کا خواتین ڈے کے حوالے سے ان کا خبث باطن اور اب کل ہی طلبہ یونین پر پابندی ہٹانے کے حوالے سے ان کے ناپاک عزائم اور منصوبوں کا پردہ چاک ہوا ہے ایسے ہی بالکل سندھی کلچر والوں کا بھی راز فاش ہوا ہے یہ لوگ مغربی تہذیب اور ثقافت کو سندھ کی تہذیب بناکر پیش کررہے ہیں اور اس کی آڑ میں فحاشی اور عریانی کا فروغ چاہتے ہیں۔
بحیثیت قوم اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کی سازشوں کو کھول کر بیان کریں اور قوم کو حقائق کو آگاہ کریں یہ شیطانی ٹولہ سندھ اور سندھ کی نمائندگی نہیں کررہا ہے بلکہ ایک چھوٹا طبقہ ہے۔ جن کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ یہ آوارہ اور ناکارہ لوگ ہیں۔ کوئی بھی شریف آدمی اپنی معصوم بیٹیوں کو اس طرح کی آزادی نہیں دیتا جس میں ثقافت کے نام پر مخلوط پروگرام ہوں اور قوم کے سر شرم سے جھک جائیں۔

ہم پوری پاکستانی قوم کو یقین دلاتے ہیں یہ ہماری تہذیب اور ثقافت نہیں، ہمیں ہروقت ایسے لوگوں کے مدمقابل پاؤگے آپ بھی ہماری آواز بنیں اور ان کے کردار کو واضح کریں کیونکہ یہ طبقہ اپنی میڈیا میں نمائندگی رکھتا ہے اس وجہ سے اپنے عزائم کا کھل کر اظہار بھی کرتا ہے اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کرتا ہے۔ اور ہماری آواز دبانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہم اپنی طاقت کے بقدر آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دینی درد رکھنے والوں دوستوں سے یہ گزارش ہے کہ آپ سادہ لوحی میں ان کا حصہ نہ بنیں اور سندھی ٹوپی اور اجرک کے جھانسے میں مت آئیں۔ اس دن اور کلچر کے پیچھے پورا فلفسہ اور فکر ہے۔ آپ کی سادگی آپ کو لے ڈوبے گی اور ملک وملت کا بہت نقصان ہوگا۔ آپ اس ذہنی غلامی اور فکری پسماندگی کو چھوڑ کر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور قوم کی رہنمائی فرمائیں اور حقائق سے آگاہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply