• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاک آسٹریلیا ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی عبرتناک شکست۔۔۔چوہدری عامر عباس

پاک آسٹریلیا ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی عبرتناک شکست۔۔۔چوہدری عامر عباس

کرکٹ ایک کھیل ہے لیکن اپنی جذباتی وابستگی کی بناء پر اگر ہم اسے ایک نفسیاتی مسئلہ کہیں تو بیجا نہ ہو گا۔ حالیہ دورہ آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی سیریز تو پاکستان پہلے ہی آسٹریلیا سے ہار چکا تھا۔ اب ٹیسٹ سیریز میں پاکستان ٹیم اپنے پہلے دونوں ٹیسٹ میچز ایک ایک اننگز سے شکست کھا کر ٹیسٹ سیریز بھی بدترین طریقے سے ہار چکی ہے۔ مکی آرتھر کی جگہ مصباح الحق کو لانے اور نسبتاً زیادہ اختیارات دینے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔

دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ایک اننگ اور 48 رنز سے شکست کھا کر اس ٹیسٹ میچز کی سیریز میں پاکستان کی عبرتناک شکست نے پورے ملک کو کل سے پریشان کر رکھا ہے۔ حالانکہ آسٹریلیا سے یہ شکست کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پاکستان آسٹریلیا کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز آسٹریلیا سے مسلسل ہارتا آ رہا ہے۔ لہٰذا اس ہار کو اپنے لیے زندگی موت کو مسئلہ بنانے کی تو چنداں ضرورت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیسٹ میچز ہوں، ٹی ٹونٹی یا ون ڈے میچز ہوں پاکستان کرکٹ ٹیم ہمیشہ سے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار رہی ہے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ کوئی میچ ہار جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن مسلسل ہارتے جانا اور فائٹ کیے بغیر ہارتے جانا کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستانی قوم کرکٹ کو ایک کھیل کی بجائے ایک معرکہ یا ایک جنگ کے طور پر لیتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت پوری قوم کیلئے خوشی کا باعث ہوتی ہے جبکہ شکست گویا پورے ملک کو سوگوار کر دیتی ہے۔ کرکٹ ٹیم کی شکست سے قو میرے جیسے کرکٹ سے قدرے کم دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ حالانکہ اس رویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کھیل کو صرف کھیل ہی رہنے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم عرصہ دراز سے زوال کا شکار ہے اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ میچ ہار جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ یہ تو کھیل کا حصہ ہے۔ دکھ اس وقت ہوتا ہے کہ جب آپ کی ٹیم کے کھلاڑی فائٹ کیے بغیر ہاریں۔ پاکستانی ٹیم کا یہ المیہ صرف آسٹریلیا کیخلاف کھیلنے کا ہی نہیں۔ آپ سابقہ تمام ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ بلاشبہ ماضی میں کچھ میچز میں پاکستان نے دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں کیخلاف بہترین پرفارمنس دکھائی اور بعض بظاہر ہارتے ہؤے نظر آنے والے میچز جیت کر قوم کو حیران بھی کیا لیکن اکثر میچز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ہار کا باعث ناقص مینجمنٹ، کھلاڑیوں میں تال میل کا فقدان اور ناقص ترین فیلڈنگ ہی نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی فیلڈنگ ہمیشہ ہی سے خراب رہی ہے۔ میچ کے دوران یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کھلاڑی جیتنے کے جذبے سے کھیل ہی نہیں رہا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان ہر میچ ہی جیتے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ لیکن ہارنے والی ٹیم میں کم از کم جیت کی لگن تو نظر آنی چاہیے بدقسمتی سے ہماری ٹیم میں جس کا اکثر فقدان نظر آتا ہے۔

یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے اندر کرکٹ کے حوالے سے بہترین ٹیلنٹ موجود ہے جس کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ پی سی ایل کا انعقاد اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے لیکن یہ بھی ناکافی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں موجود کرکٹ ٹیلنٹ کو اپنی کارکردگی کے جوہر دکھانے کے مناسب مواقع ہی میسر نہیں ہیں۔ ہمارے سکولز اور کالجز سکڑ چکے ہیں جن میں گراؤنڈز ہی نہیں ہیں۔ اصل ٹیلنٹ سکولز اور کالجز سے ہی آتا ہے لیکن گراؤنڈز اور سرپرستی نہ ہونے کی بناء پر وہ ٹیلنٹ سامنے ہی نہیں آ پاتا۔ اور جو ٹیلنٹ موجود ہے ان کی کرکٹ کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی ہی نہیں ہے لہذا وہ گل کھلنے سے قبل ہی مرجھا جاتے ہیں۔

کرکٹ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر دیکھیں تو فٹ بال ایک عالمی کھیل ہے اور پاکستان میں اس کا ٹیلنٹ بھی موجود ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں فٹ بال کو تو فروغ دینے کا ہم نے سرے سے کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان ہاکی ٹیم کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا لیکن کئی سالوں سے ناقص پالیسیوں کی بناء پر ہاکی ٹیم بھی برباد ہو چکی ہے۔
کل سے بعض حلقوں سے یہ آوازیں آٹھ رہی ہیں کہ اب عمران خان کو کرکٹ میں خود مداخلت کرنی چاہیے اور کرکٹ کی بحالی ان کی توجہ کی متقاضی ہے۔ لیکن میرا مؤقف اس سے تھوڑا مختلف ہے۔ میں کھیلوں میں ایک حد تک وزیراعظم کے کردار کا حامی ہوں۔ ایک وزیر اعظم پورے ملک کا سربراہ ہے اس کے پاس اور بھی بہت سے کام ہیں۔ کرکٹ کیلئے ایک پورا بورڈ موجود ہے جو کرکٹ کے معاملات کو درست کرے۔ لیکن شاید لوگ اس وجہ سے عمران خان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایک تو وزیراعظم کا بھی کرکٹ بورڈ میں بہت کردار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے قبل وعدے بھی کیے تھے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیم بنائیں گے۔ بلاشبہ عمران خان کو پوری دنیا کرکٹ کے شہنشاہ کے طور پر جانتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ عمران خان کی پوری دنیا میں وجہ شہرت ہی کرکٹ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ گزشتہ برس جیسے ہی عمران خان نے وزیراعظم کے طور پر اقتدار سنبھالا تو شائقین کرکٹ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ عمران خان خود پروفیشنل ہیں اور کرکٹ کو خوب سمجھتے ہیں۔ اب کرکٹ بورڈ سیاست سے آزاد ہو جائے گا، پاکستان کا اصل ٹیلنٹ سامنے آئے گا، مینجمنٹ اور کرکٹ ٹیم میں ایسی مثبت تبدیلیاں لائیں گے کہ اب کم از کم کرکٹ ٹیم کی صورت حال تو بہتر ہو ہی جائے گی۔ ایسی امیدیں شاید اس وجہ سے بھی ہیں کہ ان خواہشات کا اظہار خود عمران خان صاحب نے اپنی انتحابی مہم کے دوران تقاریر میں وقتاً فوقتاً کیا تھا۔ لیکن تاحال کرکٹ ٹیم میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی ہے بلکہ مسلسل زوال کی طرف گامزن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حالیہ دورہ میں ٹی ٹونٹی کے بعد ٹیسٹ سیریز میں پے در پے شکست کے بعد کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں بھی ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیوں کا قوی امکان ہے اور عمران خان نے خصوصی طور پر کرکٹ کی سرگرمیوں کو خود مانیٹر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply