کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہوتے؟۔۔آصف محمود

گلی محلوں میں چلتے پھرتے خواجہ سرائوں کو تو آپ نے اکثر دیکھا ہو گا، کبھی نفرت سے ، کبھی حقارت سے ، کبھی آپ کے متقی وجود نے انہیں غلاظت سمجھ کر منہ موڑ لیا ہو گیا اور کبھی آپ کی مردانگی نے انہیں زمین کا ایک غیر ضروری بوجھ سمجھ کر تمسخر اڑایا ہو گا لیکن سچ بتائیے کیا آپ کی زندگی میں کبھی ایک بار بھی وہ لمحہ آیا جب آپ نے انہیں ایک زندہ انسانی وجود سمجھ کر ان سے بات کی ہو ، ان کی دل جوئی کی ہو ، ان کا دکھڑا سنا ہو ، ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہو اوران کے ساتھ بحث کی ہو اور کھانا کھایا ہو جیسے بالعموم دوست احباب کے ساتھ محفلیں سجاتے ہیں؟اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے ، اور وہ یقینا نفی میں ہے ، تو کیا اب بھی آپ کو اصرار ہے کہ آپ اشرف المخلوقات ہیں؟ خواجہ سرائوں کو مسلم سماج میں ہمیشہ عزت و احترام دیا گیا۔ترکوں کی خلافت عثمانیہ میں خواجہ سرائوں کو غیر معمولی عزت ملی۔سلطان عثمان وہ پہلے ترک بادشاہ تھے جنہوں نے خواجہ سرائوں کو باقاعدہ ریاستی مناصب دیے اور انہین سب سے مقدس کام سونپا گیا۔ یہ کام مساجد کی خدمت کا تھا۔ جب تک سلطنت عثمانیہ قائم رہی مساجد کا انتظام خواجہ سرائوں کے پاس رہا۔عثمانی خلافت کا مسلم دنیا میں قائدانہ کردار تھا ۔ ان کی دیکھا دیکھی مغلوں نے بھی خواجہ سرائوں کو عزت اور احترام دیا۔ پھر انگریز آ گئے۔ انہوںنے خواجہ سرائوں کو ذلت اور تذلیل کی دلدل میں پھینک دیا۔1871 میں ’’ کرمنل ٹرائبز ایکٹ‘‘ نافذ کیا اور پوری کی پوری کواجہ سرا برادری کو ’’ مجرم قبیلہ ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ اس قانون سازی نے ایک سماجی رویے کو بھی جنم دیا۔ خواجہ سرائوں کا سماج سے رابطہ کٹتا گیا۔ وہ تنہا ہو گئے۔ ان سے معاشرے کا میل ملاپ ختم ہو تا گیا۔ وہ نفرت ، تضحیک اور تحقیر کی علامت بن گئے۔ان کے لیے روزگار کے مواقع ختم ہو گئے۔ باقی تاریخ ہے جس کے آزار کا مشاہدہ آپ اور ہم آج بھی کر رہے ہیں۔یہی وہ سماجی گرہ ہے جو آج تک کھل نہیں پا رہی۔خلافت عثمانیہ میں جو خواجہ سرا اللہ کے گھروں کی خدمت پر مامور تھے ہم نے انہیں گناہ کی پوٹلی قرار دیتے ہوئے اللہ کے گھروں میں ان کا داخلہ بند کر دیا۔ اسلام آباد میں ایک خواجہ سرا کو مسجد سے نکال دیا ۔کیو نکہ مسجد کمیٹی کے اعلی حضرتوں کے نزدیک خواجہ سرا ئوں کے مسجد میں داخل ہونے سے ان کے تقوے میں خلل پڑتا تھا۔ ہم میں سے کوئی مرد یا عورت ہے تو اس کا کیا کمال اور کوئی خواجہ سرا پیدا ہوا تو اس کا کیا قصور؟یہ تو اللہ کے فیصلے ہیں۔لیکن اللہ کی مخلوق کا آج رویہ یہ ہے کہ خواجہ سرا مر جائے تو اس کا جنازہ کوئی نہیں پڑھتا، کسی مسجد میں اس کے فوت ہونے کا اعلان نہیں ہوتا۔ کوئی اس کے جنازے کو کندھا نہیں دیتا۔ کبھی ہم نے سوچاخواجہ سرائوں کا جنازہ رات کی تاریکی میں ہی کیوں اٹھتا ہے؟ معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ان کے پاس امکانات ہی کتنے ہیں؟ ان پر آوازے تو کسے جاتے ہیں اور ان کی تذلیل تو کی جاتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے ان پر باعزت روزگار کے دروازے کھولنے کی کوئی کوشش کی؟ریاستی دھانچے میں کوئی ایسی نوکری ہے جو خواجہ سرائوں کے لیے مختص ہو؟کتوں ، بلیوں اور جانوروں کے لیے تو حقوق ہیں لیکن خواجہ سرائوں کے لیے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔کتنے ہی ایسے کام ہیں جس کے لیے یہ لوگ موزوں ہیں اور حکومت چاہے تو انہیں سرکاری ملازمت دے کر وہاں تعینات کیا جا سکتا ہے لیکن کسی نے آج تک ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ سرکاری ملازمتوں میں انہیں جگہ دینا تو دور کی بات ان کے لیے نجی سطح پر بھی کوئی ایسا پروگرام نہیں وضع کیا گیا جو انہیں تلاش روزگار میں مدد دے سکے۔کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اللہ کی یہ مخلوق آخر کہاں سے کھائے؟ ہماری حالت یہ ہے کہ 2018 میں ہم نے قانون بنایا کہ وہ شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں ، جائیداد کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں ، اور مرضی کی جنس لکھوا سکتے ہیں جو ان کے خیال میں درست ہو۔ اس پر بھی اعتراض کر دیا گیا کہ نہیں ان کی جنس کا تعین تو ہم کریں گے خواجہ سرا خود کیسے کر سکتے ہیں۔اس قانون میںبرائے وزن بیت یہ لکھ تو دیا گیا کہ خواجہ سرائوں کو جنسی بنیاد پر ملازمت سے نہیں نکالا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے ان کو کتنی ملازمتیں دے رکھی ہیں جن کا آپ تحفظ فرما رہے ہیں؟مردوں اور عورتوں کے لیے تو ملازمتیں مختص ہیں ، خواجہ سرائوں کے لیے کیا منصوبہ بندی ہے؟کیا کسی نے تعین کرنے کی کوشش کی کہ فلاں فلاں ملازمت میںیہ لوگ موزوں رہیں گے لہذا ان کا کوٹہ رکھا جائے؟ جرمنی میں ابھی ایک فلم نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔’’ آئی ایم اناستاسیا ‘‘نامی یہ فلم جرمن فوج کے لیفٹیننٹ کرنلاناستاسیا بیفانگ کی زندگی پر مشتمل سچی فلم ہے۔ یہ لیفٹینٹ کرنل خواجہ سرا ہونے کے باوجود جرمن فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ کیمبرج کی میئر جینی بیلی بھی خواجہ سرا تھیں۔فرانس کے سفارت کار چارلس ایڈن خواجہ سرا تھے۔امریکہ کی جج وکٹوریا کلائوسکی بھی خواجہ سرا تھیں۔کامیاب خواجہ سرائوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہمیں بھی یہ نفسیاتی گرہ کھولنے کی ضرورت ہے اور یہ گرہ معمولی اقدامات سے نہیں کھل سکتی۔چند بڑے اقدامات ناگزیر ہیں۔قومی اسمبلی میں اگر خواتین کی مخصوص نشستیں ہو سکتی ہیں تو ان کی بھی ہو سکتی ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل میں ایک خواجہ سرا ضرور ہونا چاہیے۔ تبلیغی جماعت نے اس ضمن میں کافی کام کیا ہے اور وہاں سے دین کا علم رکھنے والے خواجہ سرا مل سکتے ہیں۔مقامی حکومتوں میں بھی ان کا کوٹہ ہونا چاہیے بھلے محدود تر ہی کیوں نہ ہو۔ان کے لیے تعلیمی ادارے ہونے چاہییں ۔ساتھ ہی ساتھ ایسے مراکز ہونے چاہیں جہاں سے ان کو ایسے ہنر سکھائے جائیں کہ یہ مفید شہری بن کر باعزت زندگی گزار سکیں۔ سوال یہ ہے کیا ہمارا معاشرہ اور حکومت یہ بھاری پتھر اٹھا سکے گی؟ اگر جواب نفی میں ہے تو اللہ کے ہاں اپنا اپنا جواب سوچ لیجیے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply