لائل پور سے فیصل آباد تک۔۔۔چوہدری محمد ایوب

کہتے ہیں کہ بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے۔لیکن انگریزوں نے اس محاورے کو بھی غلط کر دکھایا ۔ انہوں نے ویرانے میں ایک شہر کی بنیاد رکھی جو صرف 8 سال میں اتنا پھیل گیا کہ اس کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا ۔ انگریز ایک قدیم ہندوستان میں آئے تھے جہاں رہن سہن ، بودوباش صدیوں پرانی قدامت لئے ہوئے تھا ذرائع آمدورفت بھی صدیوں پرانے ہی استعمال کئے جا رہے تھے ۔ کتنا عجیب لگتا ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی سے چار سال قبل جب دہلی میں ہمہ وقت مشاعروں اور رقص و سرود کی محفلیں گرم رہا کرتی تھیں انگریز ہندوستان میں ریل سروس کا آغاز کر چکے تھے ۔ جنگ آزادی کے بعد تو ہندوستان کی فضا ہی تبدیل ہو گئی ۔ انگریزو ں کا ایک عظیم کارنامہ چناب اور راوی کے بالکل درمیان ایک اجاڑ سے علاقے میں ایک شہر کی بنیاد رکھنا تھی ۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک تحصیل اور پھر ضلع بنا دیا گیا اور آج یہ شہر پاکستان کا تیسرا بڑا شہر بن چکا ہے ۔

آج سے کم و بیش 100 سال پہلے جھاڑیوں پر مشتمل یہ علاقہ مویشی پالنے والوں کا گڑھ تھا ماضی میں یہ علاقہ بے آب و گیاہ تھا اور ہرسُو جنگل پھیلے ہوئے تھے۔کہیں کہیں دیہاتی زندگی کے آثار تھے۔ جہاں کے باسیوں کو جانگلی کہا جاتا تھا۔ اِس علاقے کو ساندل بار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ساندل بار کی تہذیبی اور معاشرتی روایات اگرچہ اپنے پس منظرمیں ہزاروں برس کی طویل تاریخ رکھتی ہیں لیکن ایک صدی پہلے تک اس ضلع کا شمار برصغیر پاک و ہند کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔ یہ علاقہ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان میں واقع دوآبہ رچنا کا اہم حصہ تھا۔ ساندل بار کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین مختلف روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دُلاّ بھٹی کے دادا کا نام بجلی خان عرف ساندل تھا، دوسری شاہکوٹ کی پہاڑیوں کے ڈاکو سردار کا نام بھی ساندل تھا اور تیسری یہ کہ جنگل کے چوہڑوں کے سردار کا نام چوہڑ خان عر ف ساندل تھا۔ ان تین میں سے کسی ایک کے نام پر یہ علاقہ ساندل بار مشہور ہوا۔عین ممکن ہے کہ انگریزوں نے اس علاقہ سے چوری چکاری ختم کرنے کے لئے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے یہاں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھنے کا سوچا۔

موجودہ ضلع فیصل آباد انیسویں صدی کے اوائل میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ جھنگ سے لاہور جانے والے کارواں یہاں پڑاؤ کرتے۔ اس زمانے کے انگریز سیاح اسے ایک شہر بنانا چاہتے تھے۔ لیفٹیننٹ گورنر سر جیمزلائل لاہور سے جھنگ جاتے ہوئے یہاں رُکے تو انہیں یہ علاقہ ایک نئے شہر کی بنیاد رکھنے کے لئے موزوں دکھائی دیا ۔ انہوں نے یہ علاقہ اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا ۔ حتیٰ کہ یہاں کے کنووں کا پانی بھی چکھ کر دیکھا ۔ اوائل دور میں اسے چناب کینال کالونی کہا جاتا تھا، جسے بعد میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل سر جیمز بی لائل کے نام پر لائلپور کہا جانے لگا۔

1895ء میں یہاں پہلا رہائشی علاقہ تعمیر ہوا، جس کا بنیادی مقصد یہاں ایک منڈی قائم کرنا تھا ۔ لائلپور شہر کے قیام سے پہلے یہاں پکا ماڑی نامی قدیم رہائشی علاقہ موجود تھا، جسے آج کل پکی ماڑی کہا جاتا ہے اور وہ موجودہ طارق آباد کے نواح میں واقع ہے۔ یہ علاقہ لوئر چناب کالونی کا مرکز قرار پایا اور بعد ازاں اسے بلدیہ کا درجہ دے دیا گیا۔
1896ء میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال سے کچھ علاقہ الگ کر کے اس پر مشتمل لائلپور تحصیل قائم ہوئی جسے انتظام و انصرام کے لیے ضلع جھنگ میں شامل کر دیا گیا۔ ضلع کی بیس لاکھ ایکڑ اراضی بحساب کسان ایک مربع کاشتکار چار پانچ مربع اور زمیندار چھ سے بیس مربع تک تقسیم کی گئی۔ شہری اراضی ایک روپیہ فی مرلہ تک فروخت کی گئ۔ 1902ء میں کی آبادی 4 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔

15نومبر 1904ء کو گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ لیفٹیننٹ گورنر کے حکم پر یکم دسمبر 1904ء سے جھنگ کی تحصیل لائل پور، سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو یکجا کرتے ہوئے ایک نئے ضلعے لائل پور کا قیام عمل میں لایا جائے۔اس کے ساتھ ہی سانگلہ ہل سے شورکوٹ تک براستہ لائل پور ریل کی پٹڑی بچھانے کے منصوبے پر کام شروع ہوا ۔
1906ء میں لائلپور کے ضلعی ہیڈکوارٹر نے باقاعدہ کام شروع کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اس کی آبادی سرکلر روڈ سے باہر نکلنے لگی۔
1908ء میں یہاں پنجاب زرعی کالج اور خالصہ اسکول کا آغاز ہوا، جو بعد ازاں بالترتیب جامعہ زرعیہ فیصل آباد جو زرعی یونیورسٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور خالصہ کالج کی صورت میں ترقی کر گئے۔ خالصہ کالج آج بھی جڑانوالہ روڈ پر میونسپل ڈگری کالج کے نام سے موجود ہے۔
1909ء میں ٹاؤن کمیٹی کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کو پہلا چیئرمین قرار دیا گیا۔
1910ء میں پنجاب کے نہری نظام کی قدیم ترین اور مشہورنہر لوئر چناب تعمیر ہوئی۔
1911ء میں لائلپور کی آبادی ۱۱ ہزار نفوس پر مشتمل تھی ۔ 1912ء میں کارونیشن لائبریری کا قیام ہوا جو موجودہ علامہ اقبال لائبریری ہے۔
1920میں سرکلر روڈ سے باہر پہلا باقاعدہ رہائشی علاقہ ڈگلس پورہ قائم ہوا۔
1930ء میں یہاں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔
1934ء میں مشہورِ زمانہ لائلپور کاٹن ملز قائم ہوئی۔
1934ء میں طلباء و طالبات کے کالجز وجود میں آئے
1942ء میں قائد اعظم محمد علی جناح فیصل آباد تشریف لائے اور انہوں نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈمیں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
3مارچ 1947ء کو قیام پاکستان کا اصولی فیصلہ اور لائلپور کی پاکستان میں شمولیت بارے خبر ملنے پر لائلپور کے مسلمانوں نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور مٹھایاں بانٹیں۔قیامِ پاکستان کے بعد یہاں جتنے سکھ اور ہندو آباد تھے، یہ سب نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ جالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر وغیرہ کے علاقوں سے مسلمان آ کر آباد ہوئے۔ یوں شہر اور علاقے کی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔

گھنٹہ گھر،فیصل آباد

1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا، جس کے باعث شہر کا رقبہ بھی وسعت اختیار کر گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کا رقبہ صرف 3 مربع میل تھا، جو اب 10 مربع میل سے زیادہ ہو چکا ہے۔ بہت سے نئے رہائشی علاقے بھی قائم ہوئے، جن میں پیپلز کالونی اور دیگر رہائشی علاقے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ غلام محمد آباد ، سمن آباد، ڈی ٹائپ کالونی، رضا آباد، افغان آباد، ایوب کالونی اور ناظم آباد کے رہائشی منصوبے ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں تعمیر ہوئے۔ بعدازاں مدینہ ٹاؤن اور پیپلز کالونی کی رہائشی کالونیاں تعمیر ہوئیں۔ گلستان کالونی، گلفشاں کالونی، ملت ٹاؤن وغیرہ کی تعمیر سے شہر کا دامن چاروں اطراف میں کئی کئی میل تک پھیلا۔ تاج کالونی، منصورہ آباد، گلشن کالونی، سِدھوپورہ، خالد آباد، جناح کالونی، شاداب کالونی، راجہ کالونی، ماڈل ٹاؤن، علامہ اقبال کالونی، عبداللہ پور، واپڈا سٹی، طارق آباد، اسلام نگر، گل بہار، گلبرگ، شالیمار پارک، رچناٹاؤن وغیرہ اس کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔

1977ء میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لائلپور کو میونسپلٹی سے ترقی دے کر میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا۔
1982ء میں اسے ضلع فیصل آباد، ضلع جھنگ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مشتمل ڈویژنل صدر مقام قرار دیا گیا۔

فیصل آباد کی اہم خصوصیت شہر کا مرکز ہے، جو ایک ایسے مستطیل رقبے پر مشتمل ہے، جس کے اندر جمع اور ضرب کی اوپر تلے شکلوں نے اسے 8 حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے درمیان میں، جہاں آ کر آٹھوں سڑکیں آپس میں ملتی ہیں، مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر کھڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر ملنے والی آٹھوں سڑکیں شہر کے 8 اہم بازار ہیں، جن کی وجہ سے اسے آٹھ بازاروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر سے شروع ہو کر بیرونی طرف پھیلتے ہوئے بازار اس جگہ کو برطانوی پرچم کی شکل دیتے ہیں، جو سر جیمزلائل نے اپنے ملک کی یادگار کے طور پر یہاں چھوڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر کا فیصلہ ڈپٹی کمشنرجھنگ کیپٹن بیک نے کیا اور اس کا سنگ بنیاد 14 نومبر 1903ء کو سر جیمز لائل نے رکھا
جس جگہ کو گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے منتخب کیا گیا وہاں لائلپور شہر کی تعمیر کے وقت سے ایک کنواں موجود تھا۔ اس کنوئیں کو سرگودھا روڈ پر واقع چک رام دیوالی سے لائی گئی مٹی سے اچھی طرح بھر دیا گیا۔ یونہی گھنٹہ گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع سانگلہ ہل نامی پہاڑی سے لایا گیا۔

1906ء کے اوائل میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا کام گلاب خان کی زیرنگرانی مکمل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ گلاب خان کا تعلق اسی خاندان سے تھا، جس نےبھارت میں آگرہ کے مقام پر تاج محل تعمیر کیا تھا۔ گھنٹہ گھر 40 ہزار روپے کی لاگت سے 2 سال کے عرصے میں تعمیر ہوا۔ اس کی تکمیل پر ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی اس وقت کے مالیاتی کمشنر پنجاب مسٹر لوئیس تھے۔
گھنٹہ گھر میں نصب کرنے کے لیے گھڑی بمبئی سے لائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لائلپور کا گھنٹہ گھر ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو 80 سال قبل فوت ہو چکی تھیں۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر سے پہلے شہر کے آٹھوں بازار مکمل ہو چکے تھے۔ برطانوی پرچم یونین جیک پر مبنی فیصل آباد شہر کا نقشہ اس دور کے ماہرتعمیرات ڈیسمونڈ نے تیار کیا تھا۔

آٹھ بازاروں پر مبنی شہر کا کل رقبہ 110 مربع ایکڑ تھا۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر باہم جڑنے کے علاوہ یہ آٹھوں بازار گول بازار نامی دائرہ شکل کے حامل بازار کی مدد سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یونین جیک کی بیرونی مستطیل آٹھوں بازاروں کے آخری سروں کو بھی سرکلر روڈ کی شکل میں آپس میں ملاتی ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کے وقت اس کے گرد 4 فوارے بنائے گئے تھے، جو کچہری بازار، امیں پور بازار، جھنگ بازار اور کارخانہ بازار کی سمت موجود تھے اور انہیں آٹھوں بازاروں میں سے دیکھا جا سکتا تھا، مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں سے 2 فوارے غائب ہو چکے ہیں۔ اب صرف کچہری بازار اور جھنگ بازار کی سمت والے فوارے قائم ہیں۔
اگرچہ 114 سال گزرنے کے باوجود گھنٹہ گھر کی بیرونی حالت درست حالت میں ہے، تاہم اس کی اندرونی حالت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اگر اس کی مرمت پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو اہل فیصل آباد زلزلے کے کسی چھوٹے جھٹکے سے ایک اہم تاریخی ورثے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
گھنٹہ گھر کی اندرونی سیڑھیوں اور ستونوں کا پلستر ٹوٹنا شروع ہو چکا ہے۔ سیاح اس کی اڑی ہوئی رنگت اور ہر طرف اڑتی ہوئی دھول سے پریشان ہوتے ہیں۔
فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کے گرد قائم 8 بازاروں کے نام اس سمت واقع کسی اہم علاقے کی غمازی کرتے ہیں۔

ریل بازار – سمت بجانب مشرق – اس کی بیرونی سمت ریلوے روڈ واقع ہے، جو ریلوے اسٹیشن کو جا نکلتا ہے۔
کچہری بازار – سمت بجانب شمال مشرق – اس کی بیرونی طرف عدالتیں قائم ہیں۔
چنیوٹ بازار – سمت بجانب شمال – اس طرف ضلع چنیوٹ واقع ہے۔
امیں پور بازار – سمت بجانب شمال مغرب – یہاں سے ایک سڑک امیں پور بنگلہ کی طرف جاتی ہے۔
بھوانہ بازار – سمت بجانب مغرب – اس سمت میں بھوانہ واقع ہے۔
جھنگ بازار – سمت بجانب جنوب مغرب – اس بازار کا رخ جھنگ کی طرف ہے۔
منٹگمری بازار – سمت بجانب جنوب – اس بازار کا نام ساہیوال کے پرانے نام منٹگمری کی وجہ سے رکھا گیا، جو اسی سمت واقع ہے۔
کارخانہ بازار – سمت بجانب جنوب مشرق – اس جانب قدیم دور میں کارخانے قائم تھے، جن میں سے چند ایک اب بھی باقی ہیں۔
گول بازار – یہ بازار مذکورہ بالا آٹھوں بازاروں کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے گزرتا ہے اور اس گول دائرہ نما بازار کے ذریعے وہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قیام پاکستان کے موقع پر انگریزوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ لائلپور کے آٹھ بازاروں کی صورت میں اپنی شناخت، برطانوی پرچم (یونین جیک) ہمیشہ کے لیے اس خطے میں امر کر کے جا رہے ہیں، جبکہ رد عمل میں یہاں کے باسیوں کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ برطانیہ کے پرچم کو صبح و شام اپنے قدموں تلے روندھتے رہیں گے۔
شہر کے قدیم باشندے آج بھی لائل پور کے نام میں اپنے لیے زیادہ اپنائیت محسوس کرتے ہیں جبکہ نوجوان نسل کے لیے بھی اس نام میں ایک رومانیت پائی جاتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply