روسی سفیر کا داعشی سفیر کے ہاتھوں قتل

روسی سفیر کا داعشی سفیر کے ہاتھوں قتل
طاہر یاسین طاہر
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
شہید محسن نقوی نے یہ شعر ممکن ہے تاریخ َِانسانیت میں دشمنوں،اور مخالفین کو بادشاہوں کی جانب سے دیواروں میں چنوائے جانے والے واقعات سے غمزدہ ہو کر کہا ہو۔ممکن ہے اس شعر کے الہام کی کوئی دوسری وجہ بھی ہو۔ہم شعر کی کیفیت اور پس منظر پر تو بات کر سکتے ہیں مگر الہام پر نہیں۔جو بھی ہو شعر پس منظر رکھتا ہے۔محسن نقوی جس عہد میں اپنے شعری شباب پر تھے انھیں دنوں پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی بھی اپنے عروج پہ تھی۔چھپ چھپا کے قتل کرنے،اور مقتول کی لاش ٹھکانے لگانے کا رواج نہیں رہا تھا، بس سر ِراہ،بھرے بازار میں،کسی مجلس میں،کسی جلوس میں،کہیں بھی،دہشت گرد حملہ آور ہوتے اور خون آلود جسم کو سر راہ ہی تڑپتا چھوڑ کر پناہ گاہوں کو نکل جاتے۔دہشت گردی مگر صرف ان دنوں کا المیہ نہیں،تاریخی طور پر دہشت گرد بھی اپنی ایک وحشت ناک تاریخ کے “رکھوالے” ہیں۔فرقہ وارانہ قتل و غارت گری بھی نئی نہیں، البتہ آج کے دور میں اسے مختلف عالمی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
تاریخ کا کڑوا سچ یہی ہے کہ مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔مولویت نے سستی فتوی ٰبازی سے عوام الناس سمیت کئی نابغہ روزگار شخصیات کے قتل کو جائز قرار دیا۔ ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مسلک کو روا اور دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔اے کاش ہم قرآن و صاحب قرآن کی طرف رجوع کرتے۔اے کاش ہم در و دیوار سے علم کشید کرنے کے بجائے سیدھا راستہ اختیار کرتے۔اگر ایسا کیا جاتا تو جہاد کی حکمت اور اس کے احکامات کو بھی سمجھ جاتے۔کیا نجی ملکیت کے اصول نے اس قدر ترقی کی کہ جہاد جیسا جزو اسلام بھی نجی شعبے کے کمانڈروں کی ملکیت قرار پایا؟جب عالمِ اسلام کی کمزور حالت کا ذکر کیا جاتا ہے تو دکھ ہوتا ہے۔مگر یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کون سا عالم ِاسلام؟جو یمن پر بارود بار ہے؟جو شام پر حملہ آور ہے؟جوترکی کے راستے حلب میں داخل ہوا تھا؟ جو عراق والے موصل میں کلاشن بردار ہے؟ جو الشباب کی صورت نائیجیریا میں “پھیل” رہا ہے؟یا وہ اسلام جو کالعدم تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی العالمی و “مقامی “کی صورت میں پاکستان کو لہو لہان کیے ہوئے ہے؟عالم اسلام؟ کون سا عالم اسلام؟جو ایک فتوے کے ذریعے پورےپورے ملک کو کافر قرار دے دیتا ہے؟کیا یہ سچ نہیں کہ ایک ہی رسول کا کلمہ پڑھنے والے اور ایک ہی کعبہ کو اللہ کا مقدس ترین گھر تسلیم کرنے والے نہ صرف ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو مسلمان تک تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں؟کیا افغان جہاد کو امریکی ڈالروں نےفرقہ وارانہ سہارے سے جوان نہیں کیا؟کیا تیونس سے اٹھنی والی “عرب بہار “نامی تحریک کو القاعدہ،النصرہ اور پھر داعش نے خون آلود نہیں کیا ہوا؟کیا الشباب کا فہم ِاسلام القاعدہ سے مختلف ہے؟نعروں اور فتووں سے دنیا فتح ہونے سے رہی۔ہر کام میں عالمی شازشیں تلاش کرنے والے دانشوروں کی خدمت میں عرض ہے کہ جب قاتل خود کسی خاص تنظیم سے وابستگی کا اظہار کرے تو اسے آپ اپنی دانش کے پانی سے کیوں وضو کراتے ہیں؟ہم جانتے ہیں جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا شاعرانہ سے نام والا ترجمان شاہد اللہ شاہد خود کش دھماکے کے بعد ،دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان جاری کیا کرتا تو اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر کہا کرتے کہ،یہ میڈیا کا پروپگنڈا ہے ،کیا ثبوت ہے کہ یہ حملہ اور بیان جاری کرنے والا طالبان کا ہی نمائندہ ہے؟بہت سے دیگر “طالبانی شریعت “کے پیروکار بھی ایسی ہی گمراہ کن باتیں کیا کرتے۔تاریخ سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہوتی۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چیزیں جیسی نظر آتی ہیں ،یہ ویسی ہی ہوتی ہیں۔
اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والے،اور ہر سائنسی ایجاد کو بدعت کہنے والے اگر جان پاتے تو ایسا ہر گز نہ کرتے۔قرآنی حکم تو یہ ہے کہ جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کیا۔کیا دہشت گرد بے گناہوں کو قتل نہیں کر رہے؟ اور وہ بھی اسلام کے نام پر۔اسلامی تعلیمات میں دوسرے ممالک کے سفیروں کے لیے حکم ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے۔ترکی جو خود کو اسلام کا “اردغانی سالار” بنانے کی تگ و دو میں ہے، اس کے ملک میں روسی سفیر کے ساتھ کیا ہوا؟بے شک شام میں ترکی کی سفارتی و عسکری حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم داعش کو شکست ہوئی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ تھوڑا ہی ہے کہ ترکی میں شام کے اتحادی ممالک کے سفرا کا قتل، اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں کیا جائے؟بے شک یہ بر بریت ہے اور اسلام اس سے منع کرتا ہے۔ہمارے ہاں سازشی تھیوری کے نمائندے نا پسندیدہ چیزوں کے لیے تیسری چوتھی قوت کی سازش کا پتا چلا لیتے ہیں۔مگر روسی سفیر کے قاتل کا ،اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ آور ہونا عیاں کرتا ہے کہ اس قاتل کے فکری سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں۔حلب کا بدلہ،حلب کا بدلہ۔یہ الفاظ قاتل کی وابستگی اور داعش کی شکست پر اس کے ہیجان کا ثبوت ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ روسی سفیر پر حملہ ترکی پر حملہ ہے،کہا جا رہا ہے کہ روس اور ترکی کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کسی تیسری قوت نے سازش کی۔کچھ بھی ہوا ہو۔قاتل نعرہ بلند کر کے اور حلب کے بدلے جیسے الفاظ کا تکرار کر کے یہ نشان ضرور چھوڑ گیا ہے کہ وہ کن درندہ صفت گروہوں کا سفیر ہے۔
پسِ تحریر! مجھے ایک ای میل کے ذریعے لشکر جھنگوی العالمی کے امیر یوسف منصور خراسانی کے فتوے بارے معلوم ہوا جس کے ذریعے اس نے شام میں داعش کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا اور لشکر جھنگوی اور اپنے دیگر فکری اتحادیوں سے کہا کہ وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان علاقوں اور مسلمانوں پر حملے کرنے کا آغاز کریں جہاں داعش اور اس کے جہادی فلسفے کی مخالفت ہو رہی ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply