ہمارا عدالتی نظام !الامان الحفیظ۔۔۔۔نبیل اقبال بلوچ

سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ گزشتہ کئی دنوں سے دارلحکومت اسلام آباد میں زیر بحث رہا۔ دوران سماعت کمرہ عدالت میں کچھ دلچسپ مکالمے بھی سننے کو ملے لیکن بلآخر 28نومبر کو عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ توسیع کی مشروط اجازت دے کر وقتی ہیجان کو کافی حد تک ختم کر دیا ۔ یہ تمام صورت حال دارالحکومت میں کسی زلزلے سے کم نہ تھی۔ جس کے آفٹر شاکس مزید کئی ہفتے یا شاید مہینوں تک محسوس کیے جائیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور پر مشتمل بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گمشدہ درخواست گزار کاکچھ پتہ چلا؟ درخواست گزار ریاض حنیف کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا گیا کہ آپ کل کہاں تھے؟ ہم نے آپ کی غیر موجودگی میں بھی درخواست کو زندہ رکھا ، میڈیا پر غلط تاثر دیا گیا کہ ہم نے ازخود نوٹس لیا ، ہم نے صرف آرٹیکل 184(3)کے تحت اسے مفاد عامہ کا مسئلہ قرار دیا، اب آپ بتائیے، اپنی درخواست آگے چلانا چاہیں گے یا نہیں؟ درخواست گزار کا کہنا تھا اب حالات بدل چکے ہیں، نیا نوٹیفیکیشن بھی آچکا، چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ بیٹھ جائیں ہم انہی  حالات میں مقدمہ چلا رہے ہیں ۔بہر حال مقدمہ 2سے 3 روز تک چلتا رہا ،بلآخر سپریم کورٹ نے ا پنے تحریری فیصلے میں آرمی چیف کو چھ ماہ تک اپنا کام جاری رکھنے اور حکومت کو مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔

عدالت کا تحریری فیصلہ آچکا لیکن اس فیصلے کے بعد ایک عام شہری جو قانونی پیچیدگیوں سے قطعی طور پر لاعلم ہے، اس کے ذہن میں عدالتی نظام کی اہلیت پر کئی سوالات اٹھتے ہیں، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں حکومت کے لئے یہ سب کچھ بہت اچانک اور غیر متوقع تھا اور وہ اس کیس کو صحیح طورپر ہینڈل نہ کر سکی بلکہ دوران سماعت اٹارنی جنرل کی طرف سے بعض انتہائی مضحکہ خیز دلائل بھی سننے کو ملے ۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ اگر توسیع کے حوالے سے پہلے کوئی قانون موجود نہیں تو آ یئے آگے کے لئے کوئی صحیح راستہ متعین کر لیتے ہیں، بلا شبہ یہ ایک انتہائی قابل تعریف اور مثبت سوچ ہے لیکن ایک عام آدمی جسے قانونی موشگافیوں سے متعلق کچھ معلوم نہیں اس کے ذہن میں اس پوری عدالتی کارروائی کے نتیجے میں کچھ سوالات نے جنم لیا ،۔۔

سب سے پہلا سوال، اس میں کوئی شک نہیں آرمی چیف کا عہدہ اس ملک میں طاقت ور اور اہم ترین سمجھا جاتا ہے ، اور قانونی پیرائے میں اس کی مدت ملازمت کا تعین ضروری ہے لیکن سانحہ ساہیوال ، صلاح الدین اور نقیب اللہ محسود کے علاوہ ہزاروں افراد جو معمولی جرائم پر کئی  سالوں سے جیلوں میں قید ہیں ایسے تمام افراد عدالت عظمی سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے لئے بھی کوئی قانون سازی ہو پائے گی؟

دوسرا سوال ، 27 نومبر کو دوران سماعت چیف جسٹس نے قانونی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے پر حکومت سے جس برہمی کا اظہار کیا 28نومبر کو خود عدالت نے وہ تمام قانونی پہلونظر انداز کیوں کر دئیے، جب عدالت عظمی میں بات قانون سے شروع ہوئی تو ایک غیر قانونی فیصلے پر ختم کیسے ہو گئی، چھ ماہ کی توسیع کس قانون کے تحت دی گئی؟اگر معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد ہی کرنا تھا تو دو سے تین دن تک میڈیا پر ہیجان اور فوج میں غیر یقینی کی صورت حال کیوں پیدا کی گئی، مقدمے کے شروع ہی میں اٹارنی جنرل سے کیوں نہ کہا گیا کہ ایک غیر قانونی نوٹیفیکیشن پر عدالت کا وقت ضائع مت کریں ، جائیں اور پارلیمنٹ سے قانون پاس کر اکے لائیں ، ا س طرح معاملہ دو گھنٹے میں طے ہو جاتا اورکوئی ہیجا ن پیدا نہ ہوتا ،

تیسرا سوال، ماضی میں فوج کے جن سربراہوں کو توسیع دی گئی کیا ان سے تنخواہ اور دیگر مراعات واپس لی جائیں گی؟

چوتھا سوال، ماضی کی حکومتیں جو ایکسٹینشن دے چکیں کیا انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے گا؟

یہ وہ تمام سوالات ہیں جن کا جواب ایک عام شہری سپریم کورٹ سے پوچھنا چاہتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ما ضی کی تلخ یادوں کے باعث عام آدمی کا عدالتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے، اور کیوں نہ  اٹھے جب کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں14 افراد دن دیہاڑے قتل کر دیے جاتے ہیں اور ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی بلآخر آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑتی ہے ، اسی طرح ایک عام شہری کو  14 سال قید میں رکھنے کے بعد جب سپریم کورٹ حکم صادر فرمائے کہ ملزم بے گنا ہ ہے اسے بری کیا جائے تو وہ شخص پوچھتا ہے چیف جسٹس صاحب میرے چودہ سال کا جواب کون دے گا میرے لئے اب تک قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟ چیف جسٹس صاحب! مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، لاہور میں ایک نوجوان کی ماں انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد جب تھک جاتی ہے تو کہتی ہے میں اس نظام سے نہیں لڑ سکتی کیونکہ میری بیٹیاں جوان ہیں، جب کہ دوسری طرف اسی عدالتی نظام کے تحت کرپشن کا ایک ملزم کرپشن کے دوسرے مجرم کی ضمانت کرتا ہے اور آپکی عدالتیں اسے ر ہا کر دیتی ہے ، جبکہ چیف جسٹس صاحب یہ وہی شخص ہے جسے آپ ہی نے گا رڈ فادرکا خطاب د یا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال بات شاید کسی اور طرف چل نکلی اب صورت حال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیاہے اور بعض اپوزیشن جماعتوں کا خیال یہ ہے کہ اب حکومت ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گی اور ہماری منت سماجت کی جائے گی جبکہ وزیر اعظم اور حکومتی اراکین کے مزاج سے لگتا یہی ہے کہ وہ زبان حال سے اپوزیشن کو یہ پیغام دے رہے ہیں ’دل کو بہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے ‘ کیونکہ اپوزیشن صادق سنجرانی کیس میں بھی پنجہ آزمائی کر کہ دیکھ چکی اور اب تو معاملہ آرمی چیف کا ہے ، آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہمارا عدالتی نظام !الامان الحفیظ۔۔۔۔نبیل اقبال بلوچ

  1. قانونی حوالے سے آپ بجا فرما رہے ہیں. لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ ملک کسی قانون نہیں بلکہ ایک بندوبست کے تحت چل رہا ہے. اس بندوبست میں آج تک کسی جج کی یہ مجال نہیں ہو سکی کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جیسے بالا ترین شخص کا معاملہ یوں زیر بحث لائے. موجودہ ریاستی بندوبست میں آپ کے نزدیک یہ کتنا ممکن تھا؟

Leave a Reply to javed iqbal Cancel reply