• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔مرزا شہباز حسنین

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔مرزا شہباز حسنین

حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کے لاتعداد پہلو ہیں۔مگر ابھی تک کما حقہ حق ادا نہیں ہو سکا۔
زندگیاں ختم ہو ئیں اور قلم ٹوٹ گئے۔
ان کے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہو۔

بطور ترقی پسند رہنما کے حضور کائنات نے جو سیاسی اور سماجی اصلاحات کیں وہ اس قدر جامع مفصل اور کامل ہیں  کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود موجودہ دور میں بھی انکی افادیت مسلمہ ہے۔ اور تا قیامت پوری انسانیت ان سے استفادہ حاصل کر سکتی ہے۔ عرب کا خطہ دنیاوی لحاظ سے قبائلی عصبیتوں کی بنیاد پر چل رہا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کا استحصال طاقتور کر رہے تھے۔ معمولی مسائل پر طویل لڑائیاں اور قدیم دور کی روایات معاشرے پر مسلط تھیں۔ معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی بھی نظام موجود نہیں تھا۔ ایسے میں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مقدس بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے ہمہ وقت دعوت و تبلیغ میں مشغول رہتی ہے۔ بطور رہنما حضور اکرم صلعم نے تاقیامت انسانیت کی فلاح و ترقی کے لئے ایسی سیاسی و سماجی اصلاحات پیش کیں۔ جن کی افادیت کا انکار ناممکن ہے۔

سماجی اصلاحات میں سب سے پہلے خدا کی وحدانیت کی تلقین۔ حضور کائنات صلعم نے سماج کو آگاہی فراہم کی کہ خدا ایک ہے۔ عرب معاشرے میں خدا کی وحدانیت کا تصور ناپید ہو چکا تھا۔ مختلف بتوں کی پوجا کی جاتی اور ان بے جان پتھر کی مورتیوں کی خوشنودی کے لیے بعض اوقات انسانی جانیں تک قربان کر دی جاتیں۔ تقسیم شدہ بکھرے معاشرے کی فلاح کے لیے ایک مرکز پر ایک خدا کی ذات پر ایمان لانے کی دعوت سے عرب معاشرے میں اجتماعیت قائم ہوئی۔ خدائے واحد کی وحدانیت کے اعلان سے بت پرستی سے نجات ملنے کی سبیل نکلی۔

حضور اکرم صلعم نے اپنے مکی دور میں سماجی اصلاحات کے لیے اپنی ذات اقدس کو بطور نمونہ پیش کیا۔ صداقت اور امانت کو رائج کرنے کے لئے اپنے کردار کی عظمت کو اس قدر بلند کیا کہ ان کے بدترین دشمن بھی رحمت للعالمین کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔

کاروباری دیانت کی اہمیت کے لیے بھی انکی ذات اقدس اک نمونہ ہے۔ اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تجارت سے وابستہ تھیں انہوں نے آپ صلعم کو تجارتی قافلے کے ساتھ تجارت کی غرض سے اپنے نمائندے کے طور پر   روانہ کیا۔ جب حضور اقدس صلعم واپس تشریف لائے اور ان کے مال تجارت کے متعلق تمام جزیات سے ان کو آگاہ کیا تو وہ آپ صلعم کی دیانت داری سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ آپ کو شادی کا پیغام پہنچایا اور آپ صلعم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کا واقعہ بھی ایک عظیم سماجی اصلاح کی عملی تفسیر بن گیا۔ شادی کے وقت اُم المومنین کی عمر مبارک چالیس اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال تھی۔ آپ نے اپنی سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کر کے بطور ترقی پسند رہنما کے سماج کے لیے اک اور عظیم مثال قائم کی۔ کہ مرد عورت کی عمر میں تفاوت کی بناء پر شادی سے گریز نہ کیا جائے۔ اک سماجی برائی جو معاشرے میں موجود تھی اس کا خاتمہ ہو گیا۔

سماج میں موجود برائیوں کے خاتمے کیلئے اور سماجی اصلاحات کیلئے بطور ترقی پسند رہنما آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود اپنے کردار کو دنیا کے انسانوں کے لئے پیش کیا۔ اور انسانیت کو باور کرایا کہ رہنما ہمیشہ اپنی ذات کے اندر خوبیوں کی بنا پر اصلاحات نافذ کر سکتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد اصلاحات کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فتح مکہ کے بعد حضور کائنات صلعم کی مدنی زندگی میں سماجی اور سیاسی اصلاحات کا دائرہ کار وسعت اختیار کر گیا۔

قانون کی یکساں عملداری اور مساوات پر مبنی نظام انصاف کا قیام۔

پوری انسانیت کے لیے رہنما اصولوں پر مبنی نظام انصاف جس کی بنیاد مساوات اور یکساں عملدرآمد پر رکھی گئی۔ انسانیت کے لیے نبی کریم صلعم کا بیش قیمت تحفہ ہے جس پر آج جو ریاستیں عمل پیرا ہیں بلاشبہ وہی ترقی یافتہ ہیں۔ حضور اکرم صلعم کے پیش کردہ نظام انصاف میں برابری مساوات کا فلسفہ موجود ہے۔ کوئی قبائلی عصبیت، کوئی شخصیت جس قدر طاقتور ہو قانون سے بالاتر نہیں۔ ایک عورت نے چوری کی جب اس کی سفارش کی گئی تو فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہ بھی جرم میں ملوث ہوتیں تب بھی قانون کے مطابق ہی فیصلہ کیا جاتا۔ قانون کا نفاز ہمیشہ یکساں اور قانون سے بالاتر نہ کوئی شخص نہ قبیلہ “فضیلت کی بنیاد پر استثناء کسی کو بھی حاصل نہ تھا۔

عدم مساوات کا خاتمہ۔
عرب معاشرے میں قبائل کے درمیان ہمیشہ اپنے قبیلے کو برتر اور دوسرے کو کمتر بنانے کے لئے چپقلش اور لڑائیاں جاری رہتیں تھیں۔
حضور اکرم صلعم نے پورے سماج میں فتح مکہ کے بعد عام معافی اور اپنے دشمنوں کے ساتھ رواداری کا جو برتاؤ کیا اس وقت کے سماج کے لحاظ سے ناقابل یقین اور حیرت انگیز ہے۔ معاشرے میں موجود تمام کمیونٹیز کے درمیان مساوات پر مبنی سیاسی اصلاحات کا نفاز بطور سیاسی رہنما انسانیت کے لیے قابل قدر ہیں۔ حضور اکرم صلعم کے قائم کردہ سماج میں سب کو مساوات کی بنیاد پر یکساں حقوق حاصل رہے۔

خطبہ حجتہ الوداع انسانیت کے لیے منشور
حضور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حجتہ الوداع کے موقع پر کیا گیا خطاب پوری انسانیت کے لیے سیاسی منشور کا درجہ رکھتا ہے۔
کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں فقط اسی ایک جملے کو سیاسی اصلاحات کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے۔ کہ رحمت للعالمین نے اس دنیا کو پیغام پہنچایا کہ۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز کے خاتمے سے یہ دنیا کس قدر پُرامن اور بقائے باہمی اور جنگ و جدل سے محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔۔
اللہ  تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو۔ بدقسمتی سے مسلمان اس فرمان کے برعکس عمل پیرا ہیں اور نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون اپنے موضوع کے اعتبار سے طوالت کا متقاضی ہے مگر ہزار بارہ سو الفاظ میں چیدہ نکات ہی بیان کیے جاسکتے ہیں۔ معاشرے میں موجود افراد کو زندگی کے ہر پہلو سے متعلق بطور رہنما حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ نے رہنمائی فراہم کی ہے۔
محنت سے روزی کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔
جھوٹ اور بددیانتی سے بچو۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
تم میں سے بہتر مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہے۔
علم حاصل کرو چاہے تم کو چین جانا پڑے۔
اس میں دنیاوی تعلیم کے حصول کی جانب واضح اشارہ ہے۔
امانت میں خیانت ہر گز نہ اختیار کرو۔
جب وعدہ کرو تو ایفائے عہد اختیار کرو۔
حصول رزق حلال عین عبادت ہے۔
اوپر بیان کیے گئے تمام فرمودات انسانی معاشرے کے لیے سماجی اصلاحات کے اک مکمل پیکج کا معمولی سا حصہ ہیں۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں حضور کائنات کی سیرت طیبہ پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply