• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔رحمت اللہ شیخ

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔رحمت اللہ شیخ

حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے امت کی اصلاح و تربیت کے لیے آپﷺ کو اہلِ عرب کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپﷺ کی بعثت سے قبل اہلِ عرب جنگ و جدال، قتل وغارت، جبر و تشدد، نسل کشی، ظلم و استحصال اور قمار بازی جیسے قبیح گناہوں میں مبتلاتھے۔ ہر طرف دہشتگردی اور بدامنی کی نحوست پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن آپﷺ کے آنے کے بعد عربوں کے حالات یکسر بدل گئے۔ اہلِ عرب جہالت کے اندھیرے سے نکل کر تعمیر وترقی، اصلاح و بھلائی، فلاح و بہبود، حق و صداقت، انصاف و مساوات اور خیرخواہی کے راستے پر گامزن ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مکہ و مدینہ امن و امان کے لحاظ سے محفوظ ترین جگہ بن گیا۔

اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کی صورت میں امت کو ایک عظیم رہنما عطا فرمایا اور آپﷺ کو ایک عملی نمونہ بناکر دنیا میں بھیجا۔نبی کریمﷺ کی سیرت اس قدر جامع ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر کردار کا نمونہ ملتا ہے۔ قیادت و سیادت بھی آپﷺ کی سیرت کا حصہ ہے۔ اسی طرح سماجی اور سیاسی میدان میں بھی آپﷺ کی تعلیمات مشعلِ راہ ہیں۔آپﷺ ہمیشہ معاشرے کی اصلاح و بھلائی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ ہجرت سے قبل بھی آپﷺ نے معاشرے میں  امن اور سکون قائم کرنے کے لیے کردار ادا کیا۔ البتہ اسلامی ریاست یعنی مدینہ کے قیام کے بعد آپﷺ کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں مزید بڑھ گئیں۔

ایک معاشرہ افراد سے وجود میں آتا ہے اور افراد کے امن و سکون سےمعاشرہ پرسکون رہتا ہے۔ معاشرے کو پرسکون بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ معاشرہ کے درمیان اتحاد و اتفاق ہو اور ان کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت موجود ہو۔ آپﷺ نے اپنے اقوال و افعال سے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو دوسروں کو نفع دینے والا ہو۔اسی طرح دوسری موقع پر ارشاد فرمایا کہ مسلمان وہ ہے ، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ ہجرت کے بعد آپﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم کرکے ایک مضبوط اور پُرامن معاشرے کی بنیاد رکھی۔ جس سے مہاجرین کے معاشی مسائل بھی حل ہوگئے اور ان کے درمیان اتفاق اور محبت بھی قائم ہوگئی۔
ایک بہترین سماج کی تشکیل کے لیے آپﷺ نے ہر پہلو کے متعلق ہدایات دیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرنا، ایک دوسرے کا ادب کرنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا، صلہ رحمی، دعوت قبول کرنا، بیمار کی عیادت کرنا، درخت لگانے پر ابھارنا، درختوں کو کاٹنے سے روکنا،ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرنا، بلا ضرورت پانی خرچ نہ کرنا، عام راستوں اور گزرگاہوں پر گندگی نہ پھینکنا ، راستے سے نقصان دہ چیز ہٹانا، دھوکہ نہ دینا، ملاوٹ نہ کرنا، سلام عام کرنا وغیرہ آپﷺ کی تعلیمات میں شامل ہیں۔

آپﷺ ایک عظیم سیاسی رہنما تھے۔ نبوت سے قبل بھی آپﷺ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کا حصہ رہے۔ حجر اسود کو نصب کرتے وقت جب تنازع کی صورت پیدا ہوئی تو آپﷺ نے نہایت عقلمندی اور معاملہ فہمی   کے ساتھ اس مسئلے کو حل فرمایا۔ اسی طرح امن و امان قائم کرنے اور مظلوم سے ظالم کا تسلط ختم کرنے کے لیے جب حلف الفضول کا معاہدہ کیا گیا تو آپﷺ بھی اس میں شریک رہے۔ آپﷺ حلف الفضول کے بارے میں فرماتے تھے کہ اگر زمانہ اسلام میں بھی مجھے اس کا واسطہ دے کر بلایا جائے تو میں ضرور جاؤں گا۔

مدینہ کی صورت میں جب پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی تو آپﷺ نے سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر مزید توجہ فرمائی۔ سب پہلے آپﷺ نے مکہ سے ہجرت کرکے آئے ہوئے مہاجرین کے لیے بنیادی ضروریات کا انتظام فرمایا اور مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ مدینہ میں امن و امان کی صورت کو برقرار رکھنا نہایت ضروری تھا کیونکہ امن و امان کے بغیر کوئی بھی ریاست ترقی نہیں کرسکتی۔ آپﷺ نے مدینہ میں خارجی اور داخلی امن قائم کرنے کے لیے میثاقِ مدینہ کا معاہدہ فرمایا۔ میثاق مدینہ مسلمانوں اور غیر مسلم قبائل کے درمیان ایک سیاسی اتحاد تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کئی فوائد حاصل ہوئے۔ میثاق مدینہ کی وجہ سے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو تسلیم کیا گیا ، یہود آپﷺ کے زیرِ سیادت آگئے اور مدینہ پر خارجی حملے کے خطرات ٹل گئے۔ یہ معاہدہ آپﷺ کی سیاسی بصیرت پر واضح دلیل ہے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے شرائط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھے لیکن بعد میں اس کے دوررس فوائد ظاہر ہوئے۔ صلح حدیبیہ نہ صرف اسلام پھیلنے میں مددگار ثابت ہوا بلکہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنی عسکری طاقت بڑھانے کا وقت بھی مل گیا۔ ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں کہ مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست کو مستحکم بنانے کے لیے آپﷺ نے بعض بڑے دور رس اقدامات کیے۔ جو قبیلہ مسلمان ہوکر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا چاہتا تو اسے مدینہ کے قرب و جوار میں آباد کیا جاتا تھا۔ اس سے مدینہ کا دفاع مضبوط ہوا۔

سیاست کے میدان میں آپﷺ کی تعلیمات واضح طور پر موجود ہیں۔ “قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے” اس فرمان کے ذریعے آپﷺ نے مروجہ نظام امارت کی نفی کردی۔ آپﷺ نے یہ درس دیا کہ روٹی، کپڑا، مکان، علاج و دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنا امیر وقت کی ذمہ داری ہے۔ آپﷺ کو ہمیشہ اپنی رعایا کی فکر ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے آپﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی حاجات مجھ تک پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے ان کی ضروریات و مسائل میرے سامنے پیش کیا کرو۔

مساوات ایک ریاست کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریاستِ مدینہ میں ایک طرف مظلوم کی بھرپور حمایت کی جاتی تھی تو دوسری طرف ظلم و جبر کو روکنے کے لیےسخت اقدام کیے جاتے تھے۔ چونکہ حدود و تعزیرات پر ایک ریاست کی بقا و سلامتی کا انحصار ہوتا ہےاس لیے ان میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی یا سفارش ناقابلِ قبول تھی۔ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نے چوری کی جو ثابت ہو گئی اور حضورﷺ نے اس کا ہاتھکاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر آپﷺ کے قریبی ساتھی اسامہ بن زیدؓ کو سفارشیبنایا گیا تو آپﷺ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ”اگر میری بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک مستحکم ریاست بنانے کے لیے امیر کا عوام کے ساتھ تعلق و ربط ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومتوں میں ریاست کے عام افراد کے لیے بھی امیر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ آپﷺ کی سیرتِ طیبہ سے اجتماعی مشاورت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بنوہوازن کے قیدی واپس کرنے کے لیے آپﷺ نے عرفاء اور نقباء کے ذریعے عوام کی اجتماعی رائے لی تھی۔
رسول اللہﷺ کی مبارک سیرت پر عمل کرکے سیاسی اور سماجی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔آپﷺ کی سیرت طیبہ معاشرے کی تمام برائیوں کو ختم کرنے کا واحد حل ہے۔ خصوصًا موجودہ دور میں اربابِ اقتدار سمیت ہر فرد کو رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تعلیماتِ نبوی سے قطع نظر ایک پرسکون اور خوشگوار معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply