سنہرے دن۔۔انفال ظفر

میری ہر بات ایک گاؤں سے شروع ہوتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ میں گاؤں میں رہتا ہوں۔گاؤں میں پلا بڑھا ہوں،بچپن وہیں گزارا۔دوست بنے،ایک ساتھ سکول جانا۔شرارتیں کرنا۔کھیلنا کودنا، وہ خوشی کے لمحات آج بھی یاد ہیں۔
بچپن میں ہم برف والی قلفی،پاپڑ اور پتیسہ بہت شوق سے کھاتے تھے۔ہمیں گھر سے تین روپے ملتے تھے۔جن سے کافی ساری چیزیں خرید لیتے تھے اور اس کے ساتھ دکان سے “چونگا مونگا”(جدید دور میں کھانے کی سپلی سے مشابہت دی جاسکتی ہے)بھی ملتا تھا۔میں سرکاری سکول میں میٹرک تک پڑھا ہوں۔

سرکاری سکولوں میں یہ بڑا اچھا کام تھا کہ بریک ٹائم کے بعد ہم تختی لکھا کرتے تھے۔روز لکڑی کی تختی کو دھونا اور پھر ایک خاص مٹی جسے “گاچی” کہتے ہیں اسے تختی پر لگاتے اور سوکھنے کیلئے دھوپ میں رکھ دیتے تھے۔جتنی دیر اسے سوکھنے  میں  لگ جاتی تھی ہم اتنے وقت میں کالی سیاہی بنا لیتے تھے۔یہ سیاہی ہم خود بناتے تھے۔مجھے یاد ہے دوکان سے ایک روپے میں کالی سیاہی کے چار پیکٹ مل جاتے تھے۔ان پیکٹوں میں کالی سیاہی کے دانے ہوتے تھے جسے ہم پانی میں مکس کر کے ڈبی میں ڈال لیتے تھے۔پھر لکڑی کی قلم بناتے اور تختی پکڑ کر لکھنا شروع کر دیتے تھے۔سب میں یہ مقابلہ ہوتا کہ پہلے لکھنا اور خوش خط لکھنا،میں اکثر جیت جاتا تھا۔

ہمارے سکول کی چار دیواری نہیں تھی۔ہیڈ ماسٹر نے سب بچوں کی ڈیوٹیاں لگا دیں کہ سب بچے کیکر اور بیری کے درخت کی ٹہنیاں لے کے آؤ۔ہم تو پہلے ہی پڑھائی سے آزادی چاہتے تھے۔کسی نے گھر سے کلہاڑی پکڑ لی کوئی کاپا لے آیا۔آؤدیکھانہ تاؤ سب گاؤں میں پھیل گئے۔کوئی سڑک کنارے کھڑی کیکر کو کاٹ رہا ہے تو کوئی کھال پہ  کھڑی بیری کو۔خیر بریک ٹائم تک ہم نے سکول کی ایک سائیڈ کی دیوار ان جھاڑیوں اور ٹہنیوں سے بھر دی۔اگلے دن دوسری اور اسی طرح تیسری اور چوتھی۔ان چار دن میں ہم نے خاصی مشقت اٹھائی۔مگر اس کا صلہ یہ ملا کہ ہمیں روز جانوروں کا فضلہ اٹھانے کی زحمت نہ کرنی پڑی۔

ہم سکول میں پیلی وردی پہنا کرتے تھے۔ماں نے مجھے دو عدد وردی سلوا کر دی تھیں ۔پورا ہفتہ انہی سے نکالتا۔نہ دھونے کی فکر نہ اتارنے کی۔ایک فائدہ اس یونیفارم کا یہ بھی تھا کہ بندہ رات کو سکون  سے سو بھی سکتا تھا۔ہم زیادہ تر یہی کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سرکاری سکولوں میں چھٹی کرنے پر سخت سزا ملتی تھی۔کئی لڑکے تو اتنے بے حس ہوتے کہ چھٹی کی سزا سے بچنے کیلئے اپنے باپ کی قربانی دیتے۔ہمارے ایک استاد جمیل صاحب تھے جو سزا کے طور پر سفیدے کے درخت پر چڑھنے کا مشن دیتے تھے جس میں ہر کوئی ناکام ہو جاتا تھا۔خیر سکول کا دور بہت ہی شاندار اور کبھی نہ بھولنے والا ہے۔
گاؤں میں ہم بچے جو کھیلیں کھیلا کر تے تھے ان میں “گلی ڈنڈا”,بندر کلا”,”وانجو”,کانچ کی گولیوں سے کھیلنا,شامل تھا۔ہم کبھی کبھار کھیتوں میں سے گھاس پھوس اور فصلوں کی جڑیں اکھٹی کر کے لاتے اور پھر اماں جان ان کو چولہے میں جلاتی تھیں۔
بجلی کا نظام تب گاؤں میں تو تھا ہی مگر بجلی کی آمد بہت کم ہوتی تھی۔پھر موم بتی اور لالٹین جلا کر گھر میں چراغاں کیا جاتا تھا۔
پانی بھرنے کیلئے نلکے لگائے گئے تھے۔گاؤں کے مرکزی چوک میں ایک نلکا ہوتا تھا جہاں سے سارا گاؤں پانی بھرتا تھا۔آمدو رفت کیلئے ٹانگے کا استعمال کیا جاتا تھا۔  گاؤں میں حمام نہیں ہوتے  تھے، بلکہ  حجام   خود گھر گھر جا کر بال کاٹا کرتا تھا ۔تب موبائل فون کا تو نام و نشان ہی نہ تھا۔گاؤں میں ایک پی سی او ہوتا تھا۔جب کسی کا فون آتا تو گاؤں میں اعلان ہوتا کہ فلاں کا فون آیا ہے۔سردیوں میں گھر میں چاول اور السی کی پنیاں بنتی تھیں۔
گاؤں میں ایک بی اماں بھی ہوتی تھیں جن سے گاؤں کے سارے بچے مکئی کے دانے بھنواتے تھے۔بارش ہوتی تو ہم سارے گاؤں میں گھومتے تھے۔
گاؤں کی زندگی واقعی ہی ایک شاندار زندگی تھی۔جس کا ہر ایک گزرا پل یاد ہے۔ہر ایک پل سے ایک یاد جڑی ہے۔یہ ہی وہ سنہرے دن تھے جن میں ہم سب خوش اور مطمئن رہتے تھے۔جو ہوتا تھا اس سے بڑھ کر خواہش نہیں کرتے تھے۔مخلص،ایمانداری،بڑوں کی عزت،ہمسائیوں کا خیال یہ تمام عناصر گاؤں کے ہر شخص میں پائے جاتے تھے۔

Facebook Comments

Anfalzafar
میں یو ای ٹی میں انجنیئر نگ کاطالب علم ہوں۔میرے مطابق لکھاری یا ادیب کا لکھنے کا مقصد واہ واہ حاصل کرنا یا شہرت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ لکھے تو مقصد ہو کہ پڑھنے والے کی اصلاح ہو ،پڑھنے والے کو تحریر سے علم ملے وہ محظوظ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply