سپریم کورٹ آف پاکستان کی آرمی چیف کی دوبارہ تقرری سے متعلق کیس کی سماعت آج یعنی ، بروز جمعرات ، نومبر 28، 2019 صبح 9 بجے شروع ہوئی ۔میں قریباً آدھ گھنٹے بعد کورٹ پہنچا ۔ کیوں نہ کچھ اہم و دلچسپ باتیں آپ کے حوالے کی جائیں ۔ قانونی پہلو کا مطالعہ آپ بعد از سپریم کورٹ کی ججمنٹ کے خوب کر سکتے ہیں۔ میں صرف آنر یبل ججز اور جنابِ اٹارنی جنرل فار پاکستان کے درمیان ہونے والے مکالمے سے چند دلچسپ و اہم باتیں لکھتا ہوں ۔
جنابِ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کتاب ہاتھ میں لی ، کتاب کا منہ اٹارنی جنرل صاحب کی طرف کیا اورفرمایا کہ یہ جو آرمی رولز کی کتاب آپ نے ہمیں دی ہے اور آپ نے بتایا کہ یہ کتاب بڑی مشکل سے ملی ، یہی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ اس کتاب کو کوئی پڑھ نہیں سکتا بلکہ اسے دیکھنے کی بھی کوئی سعادت حاصل نہیں کر سکتا اصل میں یہی وجہ ہے ان پیچیدگیوں کی کہ جن سے آج دوچار ہیں۔
پھر چیف جسٹس صاحب اٹارنی جنرل صاحب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ میں ان فسروں کی عزت کرتا ہوں جنہوں نے اس ملک کے لیے کچھ کیا اور اس سے بھی زیادہ عزت آئین و قانون کی کرتا ہوں لیکن آپ اس بات کا تو خیال رکھیں کہ چیف آف آرمی سٹاف جن کا ایک ایک لمحہ قوم و ملت کے لیے قیمتی ہے وہ ملک کے دفاع پر دھیان دیں بجائے اس کے کہ وہ خود آکر آپ کی ان سمریوں اور نوٹیفکیشنوں کو ٹھیک کریں ۔ (اٹارنی جنرل صاحب نے جو سمری پیش کی اس میں کچھ نکات چیف جسٹس صاحب نے غیر ضروری قرار دیے سو یوں کہا )
اٹارنی جنرل صاحب نے عدالت کو بتایا کہ ہم تین ماہ کے اندر اسی حوالے سے ایک قانون بنائیں گے جس میں سب اہم پہلو شامل ہونگے ۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے جواباً کہا کہ آپ تین ماہ کے اندر قانون بنائیں گے جو قانون اس ملک میں بہتر سالوں میں نہیں بنا ۔ جسٹس منصور صاحب، فروغ نسیم صاحب سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ۔ مسٹر فروغ نسیم ! اسی وقت فروغ نسیم صاحب نے ایک پیپر عدالت کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اب مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ اس پہ چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ آپ یہاں آئیں تو مسئلے حل ہوں نا آپ تو یہاں نظر ہی نہیں آتے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں