• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ہمارے ہاں فلکیاتی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں۔۔۔حافظ یاسر لاہوری

ہمارے ہاں فلکیاتی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں۔۔۔حافظ یاسر لاہوری

جس طرح کرکٹ کے شوقین حضرات ہیں۔ پتنگ بازی کے، ویڈیو گیمز کے، نشہ اور شراب و شباب کے اور بائیک سے سائلنسر نکال کر ساری ساری رات سڑکوں پر گھومنے کے شوقین لوگ ہیں، اسی طرح کچھ لوگوں نے فلکیاتی شوق کو بھی پال رکھا ہے۔لیکن یہ شوق دوسرے تمام معاملات سے الگ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شوق رکھنے والا انسان اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ اس کے اس شوق سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ وہ کیسے؟

پچھلی کچھ دہائیوں کی خبریں پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مختلف قسم کے کاموں کے شوقین لوگوں کی اپنے شوق کو پورا کرتے ہوئے بے شمار اموات ہوئی ہیں۔ فلکیات ایک الگ ہی نوعیت کا جنون ہے۔ آپ انتظار کر رہے ہیں کہ رات ذرا گہری ہو۔ اندھیرا خوب پھیل جائے، مصنوعی روشنیاں کم سے کم رہ جائیں۔ آسمان پر چمکتے دمکتے ستارے اور سیارے وغیرہ واضح نظر آنے لگ جائیں۔ سب سو گئے، ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ آپ نے اپنی دوربین و دیگر سامان چھت پہ یا کھلی جگہ پہنچایا اور اپنے کام میں مگن ہو گئے۔ نہ  ہی نشے جیسے قبیح شوق کو پورا کر کے اور اس سے دھت ہو کر آپ نے اپنی عقل کو گنوایا ہے اور نہ  ہی اس فلکیاتی ایکٹیوٹی سے کوئی شور ہے، نہ ہی کسی کے گلے پر پھرتی ڈور ہے۔۔

نہ ہی فلکیات کے شوقین حضرات نے اس کام کے ساتھ جوئے اور شرط جیسے مذموم فعل کو جوڑا ہے۔ آپ کبھی فلکیات کے شوقین حضرات پر تھوڑی بہت تحقیق کر کے دیکھیے گا۔ فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے تقریباً زیادہ تر لوگ سنجیدہ طبیعت کے مالک، معاملہ فہم اور شاعرانہ مزاج کے حامل ہوں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج کی تحریر میں مَیں بہت ہی عجیب باتیں کر رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے، یہ باتیں عجیب نہیں ہیں بلکہ ان باتوں کے پیچھے کچھ فطرتی حقائق ہیں۔ جو میں اگلی چند سطور میں واضح کرتا ہوں۔

ایک سنوکر کھیلنے کا شیدائی چند فٹ لمبی چوڑی سنوکر اور اس پر برپا چند لمحوں کی گیم میں مگن ہے۔ ایک کرکٹ کا رسیا چند گھنٹے کے کھیل پر توجہ کیے ہوئے ہے، کس لئے؟ کیش انعام کے لئے یا پھر اپنے نام کے لئے۔ ایک فلم بین اپنی پوری توجہ ڈیڑھ سے تین گھنٹے پر مبنی ایک سٹوری پر لگائے ہوئے ہے۔ یہ سب کے سب اپنے ارد گرد واقع ایسی اشیاء پر اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں کہ جو نہایت محدود سی دلچسپی کا سامان لئے ہوئے ہیں۔

اب آتے ہیں ایک فلکیات دان یا فلکیات کے شیدائی کی طرف۔ اس کی نظر دلچسپی کے لئے اٹھتی ہے تو کہیں آس پاس ٹھہرتی ہی نہیں۔ آس پاس تو کیا زمین پر بھی نہیں ٹھہرتی ہے۔ اس کی دلچسپی اور تجسس کی پیاس بجھانے کے لئے اس کی نظر جس پہلی چیز پر پڑتی ہے، وہ ہے “دور خلاء کے اندر رات کے اندھیروں میں محو گردش دودھیا سفید روشنی میں چمکنے دمکنے والا چاند” چاند سے ہٹ کر دیکھے گا تو خوبصورت، ہیبت ناک اور جسیم الجسہ سیارے ہیں۔ چھوٹے بڑے مختلف مسافتوں پر مختلف رنگوں کے ان گنت ستارے ہیں۔ مختلف قسم کی گیسوں سے بنے سحابیے  (Nebula’s) ہیں کہ جن کے اندر ہر ہر گیس دور سے دیکھنے والے کو الگ الگ رنگ سے اپنا تعارف کرواتی ہے، ان سحابیوں کو آپ ستاروں کی Birth place بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہی نہیں، ایک فلکیات دان جب اس سے بھی آگے دیکھتا ہے تو کروڑں اربوں ستاروں سے بنیں خلاء کے گھپ اندھیروں میں لاکھوں کروڑوں نوری سال کی مسافتوں پر روشن اور دلکش کہکشائیں ہیں۔ جب اس سے آگے دیکھنے کے لئے فلکیات دان کے پاس مخصوص آلات اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں تو پتہ ہے کیا ہوتا ہے؟

تب وہ فلکیات دان اپنے تصورات و خیالات کی سکرین آن  کرتا ہے اور اس سے آگے کہ ممکنہ مناظر کو چشم تصور میں وہ سب کچھ دیکھنے لگ جاتا ہے۔ ایک فلکیات دان کی نظر وسیع سے وسیع تر کی جانب ہوتی ہے۔ وہ فطرت کے بہت پاس ہوتا ہے۔ اتنا پاس کہ وہ فطرت کو محسوس بھی کرسکتا ہے۔ یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ “آپ جس قدر وسیع سوچ رکھیں گے آپ کی فطرت اسی کے مطابق ڈھلتی جائے گی” مختصر یہ کہ فلکیاتی شوق اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی۔۔۔۔ ہر لحاظ سے ایک عمدہ شوق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر کے اگلے حصے میں ہم پڑھیں گے کہ “پاکستان میں ٹیلی سکوپس اور دوسرے سائنسی آلات اس قدر مہنگے کیوں ہیں؟ آخر کون سی وجوہات ہیں کہ ہمیں اس طرح کی اشیاء مہنگے داموں باہر سے منگوانی پڑتی ہیں؟”

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply