تایا برکت اللہ۔۔۔ شکور پٹھان

” بھئی فجر کے بجے ہوتی ہے۔ مجھے فجر سے دو گھنٹے پہلے اٹھا دینا۔ اور ہاں قبلہ کس طرف ہے؟”
تایا برکت اللہ نے اپنے بھاری بھر کم وجود کو صوفے پر ڈھیر کرتے ہی گویا اطلاع دیدی کہ وہ  تہجد کےلئے اٹھیں گے۔
” تایا جی آرام سے بیٹھ جائیں۔ آپ تھکے ہوئے ہوں گے۔ ” میں نے فدویانہ انداز میں کہا۔
” ہاں بھئی تھک تو بہت گئے۔ فجر کے بعد نکلے تھے۔ ایئرپورٹ پہنچ کر اشراق ادا کی۔ کم بختوں نے بتایا کہ جہاز لیٹ ہوگیا ہے۔ ظہر تک رکنا پڑا۔ اوّل وقت میں ظہر قصر ادا کی۔ جہاز میں تھے کہ عصر کا وقت ہوگیا۔ ناہنجاروں نے اتنے بڑے جہاز میں لوٹوں کا کوئی بندوبست نہیں رکھا۔ نہ رفع حاجت کے لئے، نہ وضو کے لئے۔ خیر میرا تو وضو رہتا ہے۔ سفر میں قبلے کی کوئی شرط نہیں۔ جہاز کی سیٹ پر ہی نماز عصر قائم کی۔ جہاز سے اترے تو مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ تمہارے یہاں کے ایئرپورٹ پر لوٹا تو نہیں تھا لیکن طہارت کا انتظام قدرے معقول تھا۔ الحمدللّٰہ وہیں نماز مغرب ادا کی۔ ” تایا برکت اللہ سارے راستے کی کتھا سنا چکے تھے کہ ببلو بول پڑا۔
” اور بڑے دادا، انہوں نے کھانے کو نہیں دیا، آپ باتھ روم نہیں گئے”
” کیوں بھئی کیا ،مطلب ہے تیرا۔؟” تایا نے ببلو کو گھورا۔
” نہیں۔ وہ آپ نے بتایا نہیں ناں”
” کیوں کیا تجھے ایک ایک بات کی تفصیل بتائیں” ۔۔۔ہاں بھئی عبدالقادر غسل خانے میں لوٹا بھر کے رکھوادینا” تایا اب مجھ سے مخاطب تھے۔
یہ میرے بڑے تایا تھے۔ نہایت متقی اور دیندار۔ ماشاءاللہ چہرے سے رعب و دبدبہ ہن کی طرح برستا تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہن کیا ہوتا ہے لیکن شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا جو تایا کے چہرے پر ہے۔ تایا جی کے وجود میں دو چیزیں نمایاں تھیں ایک ان کی طویل وعریض داڑھی اور دوسری ان کی وسیع الجثہ توند۔
تایا کے ساتھ ایک خاموش سی مسکین سی تائی بھی تھیں اور اب انہوں نے سفید خیمہ نما برقعے کو اتار کر بڑی سی چادر کی بکل مار لی تھی اور ایک طرف چپ چاپ بیٹھی تھیں۔ تائی کی دوسری جانب سمٹی، شرمائی سی نور النِساء تھی جو سیاہ عبایا میں مستور تھیں چہرے پر نقاب تھی جس سے صرف اس کی حیران و پریشان آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ دونوں ہاتھ دستانوں میں چھپے ہوئے تھے۔
” عورتوں کے لئے پردہ بہت ضروری ہے” تایا نے فریدہ کی طرف تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا جو اپنے سر پر دوپٹہ درست کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی۔ فریدہ میری بیوی کچھ گھبرائی سی نظر آرہی تھی۔
” تم اس کے عم زاد ہو، لیکن فتنے سی بچنا ہر مومن پر لازم ہے۔ نور النِسا تمہاری موجودگی میں پردہ ہی کیا کرے گی”
اپنی اس کزن نور النساء کو میں نے پچپن میں دیکھا تھا۔ فتنہ پرور تو درکنار وہ تو صحیح معنوں میں فتنہ شکن تھی۔۔ ساری صورتیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں۔ لیکن اللہ معاف کرے ، نورالنساء کی بے پردگی سے ہرگز ہرگز کسی فتنے کا خدشہ نہیں تھا۔ دکھیا کی اب تک شادی نہیں ہوئی تھی، تایا جی شاید اسے مکمل پردے میں رکھ کر متوقع امیدوار کو سرپرائز پیکیج دینا چاہتے تھے۔
صبح سویرے تایا جی کی گرج دار آواز سنائی دی۔
” دلہن ، وہ تمہارا لونڈا کہاں ہے ؟ ہمیں ذرا مسجد تو لے چلے۔ ”
” تایا جی مسجد تو یہاں سے بہت دور ہے۔ آپ گھر پر ہی پڑھ لیں۔ ” میں نے منممناتی سی آواز میں کہا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ ببلو ابھی تک سو رہا تھا۔ میں نے جہاں اب گھر لیا تھا وہ نیا علاقہ تھا اور یہاں اب تک مسجد نہیں بنی تھی۔ وقت ہوتا تو میں گاڑی میں نماز کے لئے چلا جاتا ورنہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیتا۔
تایا جی کو لے کر میں مسجد چلا گیا۔
نماز سے فارغ ہو کر میں باہر آکر تایا جی کا انتظار کرنے لگا۔ وہ شاید اوراد ووظائف میں مشغول تھے۔ کچھ دیر بعد تایا جی کا ظہور ہوا۔
” بھئی ان کا تو دین کا معاملہ تو بالکل ہی بگڑا ہوا ہے”
” کیوں کیا ہوا” میں نے حیرت سے پوچھا۔
” بھئی ایک تو اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہاتھ اٹھاتے ہیں ، پھر سورہ فاتحہ کے بعد زور سے آمین کہتے ہیں۔ لاحول ولا”
” تایا جی وہ شافعی اور مالکی مسئلک کے مطابق ایسا کرتے ہیں۔۔۔” میں نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
” بھئی ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے شاہ صاحب نے تو سختی سے منع کیا ہے۔ نہیں بھئی ہم ان کی تقلید نہیں کرسکتے۔ میں تو گھر پہنچ کر نماز دہراؤں گا۔ اور آئندہ بھی گھر پر ہی نماز پڑھوں گا” تایا جی نے اعلان کیا۔
اور تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے، یہ کیا شیطانی حرکت ہے؟ تایا جی اب مجھ پر گرجے۔
” کیا ہوگیا تایا جی؟ ۔ کیا، کیا میں نے !” میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
” یہ تم نے داڑھی رکھی ہے؟ ” تایا نے میری چھدری سی ہلکی سی داڑھی کی طرف اشارہ کیا۔ ” داڑھی ایسی ہوتی ہے” ۔
” تایا جی یہاں تو سب نے ایسی ہی داڑھی رکھی ہے۔ اپنے پاکستان کے ہی ایک بہت بڑے عالم دین نے فرمایا ہے کہ اسلام میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں۔ اور یہ کہ اگر اتنی داڑھی ہو کہ کچھ فاصلے سے بندہ دیکھ کر کہہ سکے کہ ہاں داڑھی ہی ہے، بڑھا ہوا شیو نہیں ہے تو داڑھی کی مقدار کافی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ داڑھی رکھنے کے تقاضے زیادہ اہم ہیں نہ کہ داڑھی کے ” میں نے صفائی پیش کی۔
” تم جس کی بات کر رہے ہو وہ ایک گمراہ شخص ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے” تم نہ جانے کیا الا بلا پڑھتے رہے ہو۔
میں نے شرمندہ ہوکر گردن جھکالی۔
گھر پہنچ کر میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ڈرائنگ روم میں آیا تو دیکھا تایا جی نماز میں مشغول ہیں۔ تائی صوفے پر بیٹھی تسبیح پرول رہی ہیں۔
” نماز تو پڑھ لی تھی ناں تایا جی نے؟ ” فریدہ نے پوچھا،۔ وہ ناشتے کی تیاریاں کر رہی تھی۔
” اس وقت اشراق پڑھتے ہیں تمہارے تایا” تائی نے بتایا۔ ” روز تہجد کے وقت اٹھتے ہیں پھر فجر سے لے کر اشراق تک وظیفے پڑھتے ہیں “.
ناشتہ کب کرتے ہیں ؟ فریدہ نے سوال کیا۔
” جمعرات اور پیر کو تو روزہ ہوتا ہے ان کا ” تائی نے بتایا۔
“ماشاءاللہ تایا جی بہت اللہ والے ہیں۔ ” فریدہ کے لہجے میں عقیدت تھی۔
” یہ بات تو ہے دلہن۔ ماشا اللہ تین بار حج اور چار عمرہ کئے ہیں”
تایا جی تحیات کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ فورا” سلام پھیر کر مڑے۔
“بھئی ہمیشہ غلط کیوں بتاتی ہو !! ” تایا جی نے گویا ڈانٹتے ہوے کہا۔ ” چار حج اور تین عمرہ کئے ہیں”
تمہاری تائی کی موٹی عقل ہمیشہ الٹا ہی بتاتی ہے۔
میں کچھ دیر بعد سودا سلف لینے چلا گیا۔ دوگھنٹے بعد واپسی ہوئی۔ تایا جی ایک نیند پوری کر کے نشست کے کمرے میں براجمان تھے۔
” کیا لے آئے عبدالقادر؟”.
جی یہ چکن وغیرہ لینے گیا تھا دوپہر کے کھانے کے لئے۔ میں نے بتایا ۔
” چکن! یعنی مرغی۔ ؟ میاں حلال بھی ہوتی ہے یا نہیں۔؟ بھئی ہمیں حرام نہ کھلا دینا پردیس میں۔”
تایا جی یہ یہاں کے مقامی پولٹری فارم کی ہوتی ہے اور حلال طریقے سے ذبح ہوتی ہیں۔
” ارے بھئی ان عربوں کا کیا بھروسہ۔ تم زندہ مرغی لایا کرو۔ میں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا کروں گا، شرعی طریقے سے”
اب میں تایا جی کو کیا بتا تا کہ عرب بھی ہماری طرح بلکہ ہم سے زیادہ ہی حلال اور حرام کا خیال رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ یہاںگھر میں کوئی بھی جانور ذبح کرنے کی ممانعت ہے۔
ہم سب کھانے کی میز پر تھے۔ دوپہر کا کھانا چل رہا تھا۔ تایا جی پلاؤ کی پلیٹ میں قورمہ انڈیلے، یہ بڑے بڑے نوالے بنا بنا منہ میں ڈال رہے تھے۔ میں سامنے کی کرسی پر بیٹھا خاموشی سے چمچے سے پلاؤ کھا رہا تھا۔ میں گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ہوں تو چاول ہاتھ سے کھاتا ہوں لیکن مجھے چاول کھانے کا سلیقہ نہیں، دوسروں کے سامنے میں ہمیشہ چمچ اور کانٹے سے کھاتا ہوں۔ یہ میری برسوں کی عادت ہے،
” کیوں بھئی عبدالقادر، یہاں رہ کر پورے ہی کر شٹان ہوگئے ہو، یہ کیا طریقہ ہے کھانے کا” ۔
میں نے اپنی مشکل بتائی۔
بھئی یہ کونسا مشکل کام ہے۔ یہ دیکھو۔
تایا جی نے نوالہ بنایا، انگلیوں کی ہر جانب چاول اور قورمہ لگے ہوئے تھے۔
” ذرا منہ آگے کرو، ہاں منہ کھولو”
میں نے مشینی انداز میں منہ کھول دیا۔ تایا جی نے جھٹ سے نوالہ میرے حلق میں اتار دیا۔ میں نے بمشکل ابکائی کو باہر آنے سے روکا۔
رات کھانے کی میز پر فریدہ نے میرے کان میں سرگوشی کی  کہ صفائی والی بتا رہی تھی کہ تایا کے کمرے کے غسل خانے کے کموڈ پر چپلوں اور جوتوں کے نشان تھے۔ میں تایا جی کو بتاؤں کہ کموڈ کیسے استعمال کرتے ہیں۔
فریدہ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں انہیں یہیں ترکیب استعمال بتاؤں ۔ لیکن میرے منہ سے نکل گیا کہ تایا جی ان کموڈ پر قدمچوں کی طرح پیر لے کر نہیں بیٹھتے بلکہ آرام سے کرسی کی طرح بیٹھا جاتا ہے۔
” لاحول ولا قوت! تمہارے گھر میں تو شرع کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔ یہ کرسی نما کموڈ پر بیٹھنے سے طہارت کے تقاضے نہیں پورے ہوتے۔ سنت طریقہ اکڑوں بیٹھ کر رفع حاجت کرنا ہے۔ اس طرح”
تایا جی نے وہیں۔ کرسی پر اکڑوں بیٹھ کر دکھایا۔
فریدہ ناک پر ہاتھ رک کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی طرف دوڑ گئی۔
ہم سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے، تایا جی، تائی، میں اور فریدہ۔ ببلو باہر کھیل رہا تھا اور نورالنساء کمرے میں تھی۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ فریدہ نے دروازہ کھولا۔
سامنے صاعقہ تھی، گود میں اپنے شیر خوار بچے کو لئے ہوئے، کندھے سے بچے کی ضروریات کے سامان کا بیگ لٹکا ہوا تھا۔
” ارے! صاعقہ، اس وقت، خیریت تو ہے، آؤ اندر” فریدہ کی آواز میں حیرت تھی۔
صاعقہ نے اندر آکر بتایا کہ وہ اور شمس کسی کام سے باہر نکلے تھے کہ گاڑی میں کوئی مسئلہ ہوگیا جسے ٹھیک کرانے شمس کسی ورکشا پ میں لے گیا ہےاور گرمی سے بچنے کے لئے صاعقہ کو یہاں چھوڑ گیا ہے۔
شمس الدین اور صاعقہ ہمارے بے تکلف فیملی فرینڈ تھے۔ دونوں کی جوڑی مثالی تھی۔ شمس ایک وجیہہ اور خوبرو نوجوان تھا لیکن صاعقہ کو تو جانو اللہ میاں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا ، چندے آفتاب چندے ماہتاب تو بہت پرانی مثال ہوگئی، سرخ و سفید رنگت، کشیدہ قامت، آہو چشم ، شاعر اگر دیکھ لے اسے تو کہنے لگے غزل۔
صاعقہ سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئی۔ میں نے تایا کو بتایا کہ یہ میرے دوست شمس الدین کی بیگم ہیں اور فریدہ کی پرانی سہیلی ہیں۔ تایا جی نے تعریفی نظروں سے دیکھا اور تائی جی کو کسی کام سے اندر بھیج دیا۔
تایا جی نے صاعقہ سے اس کے اور گھر والوں کے بارے میں سوالات کئے۔ وہ بہت خوش نظر آرہے تھے اور صوفے پر جم کر بیٹھ گئے تھے۔ فریدہ چاہتی تھی کہ صاعقہ سے کچھ باتیں کرے لیکن تایا جی نے اسے موقع ہی نہیں دیا۔ ان کا وہاں سے اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
فریدہ نے دودھ کی شیشی نکالی اور بچے کا دودھ بنا کر بوتل اس کے منہ میں دے دی۔
” ہائیں یہ کیا! ” تایا جی اس طرح بولے جیسے برسوں سے صاعقہ کو جانتے ہوں۔
” بھئی یہ کیا ڈبے کا دودھ پلاتی ہو بچے کو، اپنا دودھ پلاؤ، ماں کے دودھ میں برکت ہوتی ہے”
” آخاں!،،” پانی پیتے پیتے مجھے پھندہ سا لگ گیا۔ فریدہ تیزی سے اٹھ کر کچن کے طرف دوڑ پڑی۔ صاعقہ پسینے میں شرابور زمین تک رہی تھی ۔ اس نے جلدی سے بچے کو اٹھایا اور بیگ کا سامان سمیٹ کر فریدہ کے پاس پہنچ گئی۔
” میں چلتی ہوں” ” باہر شمس کا انتظار کر لوں گی”.
فریدہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
” اچھا، ٹھیک ہے۔ جیسا تم سمجھو؟” فریدہ نے اصرار نہیں کیا۔
صاعقہ دروازے کی طرف لپکی، اچھا خدا حافظ قادر بھائی، اس نے پلٹ کر دیکھا۔
تایا جی عین پیچھے کھڑے تھے۔ ” بھئی کہاں چل دیں ” ایں! اچھا اللہ حافظ۔” تایا جی برکت اللہ نے صاعقہ کے سر پر ہاتھ کچھ یوں رکھا جیسے قیامت تک نہیں ہٹائیں گے۔
اب پاس پڑوس اور سارے محلے میں یہاں تک کہ دکان والوں تک کو خبر ہوگئی تھی کہ بھائی عبدالقادر کے تایا جی آئے ہوئے ہیں جو بڑے نمازی اور پرہیزگار ہیں اور جنہوں نے چار حج اور تین عمرہ بھی کئے ہیں۔ جو تہجد کو اٹھتے ہیں اور اشراق کے بعد سوتے ہیں۔
اور اس دن میرے کچھ پڑوس کے دوست آئے ہوئے تھے اور بے تکلف گفتگو جاری تھی کہ تایا جی نماز عشاء سے فارغ ہو کرہمارے درمیان آبیٹھے۔ دوبئی کی اور یہاں کے ماحول کی بات ہوئی، تایا جی یہاں کی بے حیائی اور بے راہ روی سے سخت نالاں تھے۔
” اماں اتّے اتّےسے لونڈے آنکھ مٹکا کرتے پھرتے ہیں۔ بے پردگی اور بے شرمی تو یہاں آکر تمام ہوگئی ہے۔ حالانکہ حکم ہے کہ اپنی نظروں کو نیچا رکھو۔ جو مرد یہاں اپنی نظروں کی حفاظت کریں گے جنت میں انہیں یہاں کی عورتوں سے ہزار گنا حسین حور یں ملیں گی۔
” اور تمہیں کیا بتائیں حوریں کیسی ہوں گی۔ ” تایا جی نے تھوک نگلتے ہوئے کہا، گویا کہ وہ مل آئے ہیں ان حوریں سے۔
“میاں وہ اتنی حسین ہوں گی، اتنی خوبصورت ہوں گی جیسے کہ، جیسے کہ وہ تمہارے دوست کا نام کیا تھا، جس کی گاڑی اس دن خراب ہوگئی تھی؟”
” جی ، وہ شمس الدین !،”
” ہاں وہی، اس شمس الدین کی بیگم کی جیسی “. تایا جی نے یوں آنکھیں بند کرلیں گویا جنت پہنچ گئے ہوں۔
فریدہ البتہ عجیب الجھن میں تھی۔ وہ مجھ سے کچھ کہتی تو نہیں لیکن اس کی نظروں میں ایک ہی سوال ہوتا کہ کب ؟ ۔۔۔ اور تایا جی کوئی ہنٹ ہی نہیں دے رہے تھے کہ ان کا ارادہ کب تک قیام کا ہے،
ایک دن مجھے لے کر سونا بازار چلے گئے اور ڈھیر سارا سونا خریدا۔ میں نے دبے لفظوں پوچھ ہی لیا کہ یہاں کی ہر چیز میں تو اتنے کیڑے نکالتے ہیں پھر یہاں کا سونا کیوں خریدا۔ فرمایا کہ عرب کا سونا برکت والا اور پاک ہوتا ہے اور حکم آیا ہے کہ یہاں سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدو۔
تایا جی کا بہت سارا سونا قدرت اللہ ٹھکانے لگا چکا تھا۔ قدرت تایا جی کا بیٹا تھا۔ تایا جی کی بہو بہت ہی منہ پھٹ اور زبان دراز اور چنڈال تھی۔ یہ دراصل تایا جی کی رائے تھی اپنی بہو کے بارے میں۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ بہو کو تایا جی، کا ہر وقت کا ٹوکنا، یہ نہ کرو، یوں کرو، اور ہر وقت کہ فضیحتیں ایک آنکھ نہ بھاتیں۔ وہ بہو تھی کوئی قدرت اللہ یا برکت اللہ کی زر خرید نہیں۔ اس نے قدرت کو صاف لفظوں میں بتایا کہ وہ یا تو اس باؤلے بڑھؤ کے ساتھ رہ سکتا ہے یہ اپنی بیوی کے ساتھ۔
وہ ایک چھت کے نیچے ان سٹھیائے ہوئے بڑے میاں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اور قدرت نے وہی فیصلہ کیا جو ایک شوہر کرتا ہے، یعنی بیوی کی بات مان لی اور الگ گھر لے لیا۔
تایا جی میرے یہاں اپنے آپ میں مگن رہ رہے تھے۔ فریدہ اور ببلو کی سوالی نظریں ان کی طرف اٹھتیں اور جھک جاتیں کہ یہاں کوچ کرنے کے کوئی آثار ہی نظر نہیں آرہے تھے۔
ببلو کا اٹھنا بیٹھنا، کھیلنا کودنا اب تایا جی کی عقابی نظروں کی زد میں رہتا۔ ایک دن ببلو بیٹھا ٹی وی پر فٹ بال دیکھ رہا تھا۔ تایا جی نے لتاڑا کہ یہ کیا واہیات چیزیں دیکھتا رہتا ہے۔ انہوں نے ایک اسلامی چینل بتایا۔ بڑی تلاش کے بعد ببلو کو وہ چینل مل گیا۔ تایا جی کی وضع کے دو بزرگ سبز عمامہ پہنے ہوئے تھے اور ایک کے ہاتھ میں ایک سبز کدو تھا۔ اور وہ تفصیل سے کدو کاٹنے کا مدنی طریقہ بتا رہے تھے۔
پھر ایک دن تایا جی ڈرائنگ روم میں نمودار ہوئے۔ وہ ببلو کو ڈھونڈ رہے تھے۔ کہاں تھا اب تک ؟
” جی میں نماز پڑھ رہا تھا” ببلو کی گھبرائی سی آواز نکلی۔
” ابے ہم سے زیادہ نماز پڑھے گا! ہیں؟ ”
اچھا سن ہمارا ایک کام کر۔
پھر تایا جی نے اسے حکم دیا کہ ہوائی کمپنی کے دفتر فون کرکے کراچی کی تین ٹکٹیں بک کرائے۔
فریدہ اور میں حیران و پریشان ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ تایا جی سے پتہ چلا کہ ان کے دوست نے فون کر کے بتا یا ہے کہ نا خلف عبدالقادر نے تایا جی کی غیر موجودگی میں تالا توڑ کر گھر پر قبضہ جمالیا ہے اور اس کی بیوی کہتی پھر رہی ہے کہ بڑھئو اب آکر تو دیکھے۔
ٹکٹ آگئے اور تایا جی اس تازہ فتنے کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوگئے۔۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تایا برکت اللہ۔۔۔ شکور پٹھان

  1. شکور پٹھان صاحب آپکا ادب نامہ بنام “تایا برکت اللہ” پڑھا۔ آ پ بھت اچھا لکھ لیتے ہیں لیکن آپکی تحریر پڑھ کے دکھ ہوا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ آپ مذہب اور مذہبی افراد کی مثبت اور جاندار کردار نگاری کرتے مگر آپ نے مذہبی تشخص کا مذاق اڑایا۔ آپکے تخلیق کردہ کردار حقیقتا آپکے تایا ابا تو ہو سکتے ہیں لیکن کوئ مذہبی شخصیت نہیں۔
    I feel very sorry for you.

Leave a Reply