بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط13)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

پہلے دن باوا جی اور اکبر شاہ جیپ پر اصغر کے ساتھ ڈھوک پہ  گئے، مزارعین کے سلام دعا کے ساتھ پورے کمپاؤنڈ کا چکر لگایا۔ یہاں بغیر کسی پلان کے جیسے ضرورت پڑتی کمرے ، برآمدے ، کھرلیاں، تھان بنتے آئے تھے، باوا جی کا ڈیرہ اب ایک ایکڑ پر محیط تھا۔ ساتھ دوسرے رشتہ داروں کے مزارعین کے خاندان بھی یہاں رہتے تھے، پکی سڑک باوا جی کے ڈیرے تک تھی، جس کے سامنے آستانہ بنا ہوا تھا، چاچا نورا ساتھ تھا اس نے بڑا کمرہ کھول کے جھاڑ  پونچھ کر دی تھی، وہاں تینوں باپ بیٹے براجمان ہوئے تو وہ چائے بنوانے چلا گیا۔

اصغر نے اپنی پاؤچ ڈائری نکالی ، پروفیشنل کنسلٹنٹ کی طرح سارا لائیو سٹاک کا شمار لکھا، زیر کاشت اور بنجر زمین کا رقبہ نوٹ کیا، مزارعین اور ملازمین کی تعداد درج کی، اکبر شاہ ویسے بہت کم گو تھے لیکن آج چھوٹے بھائی  کو ہر بات تفصیل سے سمجھا رہے تھے، باوا جی ان کی کمی بیشی ساتھ ساتھ  درست کرتے جا رہے تھے، چاچا چائے لایا تو کچھ معلومات اس سے بھی دریافت کی گئیں ،وہ تو ہر شے کی ڈائریکٹری جو تھا۔ چائے پیتے بھی اصغر نوٹس لکھتا رہا۔

پھر اس نے ڈیری اور کاشت پر لیکچر دے ڈالا۔ جب بات تجاویز تک آئی  تو دونوں بھائی  صحن میں نکل آئے باوا جی اور نورا خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے، جیسے وہ بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہوں۔
اصغر نے درجن بھر بھینسیں اور دو درجن سے زائد دیسی گائیں بچھڑے اور وچھے کٹے سب کنڈم قرار دے دیئے۔تجویز دی کہ ساہیوال ۔ولائتی مکس بریڈ کی آٹھ فریش گائیں اور ایک ولائتی بُل رکھیں ۔ یہ دو سال میں ڈبل ہو جائیں گی۔اکبر شاہ نے کہا کہ گائے کا دودھ یہاں بکتا ہی نہیں، اصغر نے پوچھا کہ ڈھوک سے دودھ کون اٹھاتا ہے ؟
جواب تھا آٹھ دس گوالے صبح شام آتے ہیں۔ اصغر نے ہنس کے کہا وہ بھینس کے دودھ میں پانی کی جگہ گائے کا دودھ اگر کم نرخ پہ  ملے تو یہ مکس کریں گے۔
اسی طرح گھوڑے اور گھوڑیاں چیک کیں آدھے تو بیکار ہو چکے تھے، اس پہ  مشورہ دیا کہ ذوالجناح اور باوا جی کی خاص گھوڑی کے علاوہ دو ٹاپ بریڈ کے گھوڑے رکھیں ۔ اب مشینی دور ہے ۔
اکبر شاہ کو سب سے زیادہ یہ تجویز پسند آئی  کہ شیڈ ری ماڈل کریں، انکلیو بنائیں ، نوکر دس ڈنگروں پہ  ڈیڑھ رکھیں۔لنچ یہیں کرنے کا پروگرام بنا، باوا جی کے دو دوست بھی آ گئے، دن خوب گزرا۔ شام گئے واپسی ہوئی ۔۔۔گھر میں کہیں صبح کو ساجد نے باتوں میں اپنی بہن زری کو بتایا کہ نکے شاہ جی کے ساتھ وہ آنٹی زہرا کے گھر ملتانی حلوہ دینے گیا تھا۔ زری تو بادشاہ کی بلی کی طرح تھی کہ کان میں بھورا پڑا تو دوڑ کے مسز اکبر پاس گئی، رازداری میں اسے تھال رکھنے مصداق سرگوشی کی۔  باجی جی ! کل اصغر شاہ جی زہرا بی بی سے چھپ کے ملنے گئے تھے۔۔۔
کہانی بنانے میں تو وہ طاق تھی، مسز اکبر نے بھی اشتیاق سے سوال پوچھے، یوں لگنے لگا کہ کوئی  دعوت کی گئی تھی۔
ڈھوک سے واپسی پہ  بھابھی صاحبہ نے اصغر کو طلب کر کے کلاس لے لی، کہ وہ مائی تو اپنی کوئی  بھانجی ۔ کرنل کی بیٹی اصغر کے گلے ڈالنے کے درپے ہے۔۔۔ جب تقریر رُکی تو اصغر نے ہنس کے کہا ۔۔
پیاری بھابھی جان مطمئن رہیں آپ کی دیورانی کسی فوجی افسر کی بیٹی نہیں  ہو گی۔
مسز اکبر ابھی تک اصغر کو وہی پرانا چھوٹا دیور تصور کیے ہوئے  تھی، اسے معلوم نہیں  تھا کہ شادی بارے باوا جی نے اسے کتنے سبق سمجھا دیئے ہیں ۔۔

دوسرے دن پنڈی سے میجر جعفر کا فون آیا۔ اکبر شاہ موجود نہیں  تھے کال مسز نے اٹینڈ کی، جعفر نے اطلاع دینی تھی کہ شفیق ڈرائیور ملتان سے فوکسی کار لے کے نکل پڑا ہے ۔ رات لاہور رکے گا کل پہنچ جائے گا، وہ ظاہر ہے بہت خوش تھا، لیکن بڑی بھابھی دیورانی کے گھر کی خوشی کیسے سہار سکتی تھی ۔
اور اگلے دن اصغر نے گھر سے ملتان وی پی صاحب کو کال کی، وہاں کام تسلی بخش ہو رہا تھا، باتوں میں ملک صاحب نے بتایا کہ انکی بنک والی آفیشل ٹویوٹا جیپ آکشن ہونے جا رہی ہے، اصغر نے لینے کی خواہش  ظاہر کی ۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو مسز اکبر نے کان لگا رکھے تھے۔
اب بات اس کی برداشت سے باہر تھی۔ اکبر شاہ اور اصغر دن بھر معاملات بارے مشاورت کرتے رہے۔چانس کے دونوں اکٹھے کوٹھی میں آئے، مسز اکبر پھٹ پڑی، اصغر کی جیپ ۔ جعفر کی کار، اپنی بے توقیری۔
بڑی بہو ہونے کی شہہ ، کافی غمناک خطبہ پڑھ ڈالا۔۔ اکبر شاہ کے چہرے پر جلال دیکھ کے اصغر نے بات سنبھال لی
تھوڑی اونچی آواز میں لیکن لہجہ نرم رکھتے بولا ۔۔ بھابھی جان آپ کا کیس کمزور ہے۔ حقائق پر مبنی نہیں، دلائل اچھے ہیں لیکن عدالت مان نہیں  سکتی، بنک والی جیپ بھائی  جان لے رہے ہیں ! مسز اکبر نے بسورتے ہوئے   پھر اپنے شوہر کو دیکھا۔ اصغر نے تڑکہ لگایا،باوا وقار شاہ کی بہو ۔ مسز اکبر شاہ کسی ڈڈُو جیسی کار یا کٹھارا پرانی جیپ پر نہیں ،بنک کے زونل چیف کی جیسی شاندار جیپ پر بیٹھیں گی۔
اکبر شاہ خاموش رہے اور غصے میں جا کے لان میں بیٹھ گئے، اصغر نے بات بدل دی کہنے لگا بھابھی جان آ پکی موہاٹھ چھڑائی  والی بزرگ گائے نے اس بار بھی وچھا دیا ہے ! کین میں بؤلی کا دودھ ہے وہ پکا لیں میں کھاؤں گا۔
ڈول کا ڈھکن بھی اتار دیں اس میں دودھ خراب نہ ہو جائے اور اچھی سی چائے پلائیں۔

باہر نکل کے وہ بھی بھائی  کےپاس بیٹھ گیا۔ اُس کا موڈ بہتر کرنے کو پوچھا کہ سمال ڈیمز کے محکمے والے انکل کہاں پوسٹ ہوئے ہیں، انہی  باتوں میں مسز اکبر بھی چائے لے آئیں، کچھ غلطی پے شرمندگی مٹانے کو خود چائے کپوں  میں انڈیلی اور ساتھ بیٹھ کے پینے بھی لگی۔۔۔اصغر نے شرارت سے بات دہرائی ، کہ بھابھی آپکے ماموں جو سمال ڈیم کے بڑے افسر ہیں ان سے کہہ کے ڈیم تو بنوا دیں ۔ ہم ابھی تک بیل والے رہٹ سے پانی نکالتے ہیں ۔ کوئی ٹیوب ویل لگوا دیں۔
شغل کی بات واقعی سنجیدہ ہو گئی۔ مسز اکبر نے کہا کہ توقیر ماموں اس ہفتے گاؤں آتے ہیں تو بات کروں گی ۔وقتی طور پہ  ماحول نارمل ہو گیا۔ لیکن اصغر نے سمجھ لیا کہ بھابھی کے دماغ سے فتور نکالنا بہت ضروری ہے۔
اس وقت وہ فیملی کی سربراہ خاتون ہیں تو انہیں سپیچ تھراپی سے اس مقام کے فرائض کا احساس دلانا لازم ہے اکبر شاہ تو زیادہ بات نہیں  کرتے، باوا جی اس میں دخل اندازی کریں گے نہیں، اسے ہی یہ میچ کھیلنا ہو گا۔

کتب بینی ، مطالعہ، نصابی کتابی علم کبھی بھی عملی زندگی کے مشائدہ اور تجربے کا نعم البدل نہیں  ہوتا۔
اصغر شاہ کے ذہنی ہیجان اور فکری پریشانی سے باوا جی آگاہ تھے، وہ بھی اس سے تنہائی  میں تفصیل سے بات کرنا چاہتے تھے۔ اصغر تو بیتاب تھا ہی کہ بھابھی سے دو دو ہاتھ کرنے کی آشیرباد لے۔ گھر میں تو بات کا موقع  محل محال تھا۔اس نے ناشتے پر جعفر شاہ کو کار کی مبارک باد دینے پنڈی جانے کی تجویز دی، کہ راستے میں سب مسائل پر بات بھی ہو جاتی۔ باوا جی نے فرمایا کہ جعفر کو کار لا کے یہاں انہیں دکھانی چاہیے، بچے باپ کے  پاس ملنے آتے ہیں بزرگ چل کر ان کے پاس نہیں  جاتے، اصغر بجھ سا گیا ۔ باوا جی نے اسے دلاسہ دیا کہ انکے فوج کی ملازمت میں ساتھی ۔دوست
علاقے کے بڑے زمیندار بیمار ہیں ان کو پوچھنے ان کے گاؤں چلتے ہیں۔

مسز اکبر شاہ کے لئے جیپ
ڈھوک کے کھیت اور کُھدر
ڈھوک پے جانے والا راستہ

گاؤں سے ریلوے لائن کے متوازی مندرہ روڈ ابھی زیر تعمیر تھی لیکن ٹریفک کے لئے کھلی تھی، اصغر نے ساجد سے جیپ کے شیشے صاف کرائے۔سٹارٹ کی، باوا جی تیار ہو کے نکلے تو نورے پر برس پڑے ، ان کی پگ جو دھلنے اور کلف کے لئے دھوبی کے ہاں تھی وہ لانا بھول گیا تھا۔ خیر وہ گالف والی پی کیپ پہن کے چل پڑے۔
اصغر نے گاؤں سے نکلتے پگ سے بات شروع کی کہ گھر میں ذمہ دار خاتون کے بغیر کس قدر بے انتطامی ہے۔اس نے تفصیل سے کمروں میں چونا گرنے سے فرنیچر ،سامان اور ہر شے کی خستہ حالی کی لسٹ سنائی، ساتھ روا روی میں یہ بھی کہہ گیا کہ اگر مجھے سمجھ ہوتی تو بھائی  جان اکبر شاہ کی کوٹھی نہ بننے دیتا، نہ جعفر شاہ کی انیکسی ہوتی،جذباتی انداز تھا باوا جی توجہ اور غور سے سن رہے تھے۔ اصغر نے بڑی بھابھی کو آڑھے ہاتھوں لیا کہ وہ تو بڑی حویلی میں آنا بھی پسند نہیں کرتی، اپنی کوٹھی کی تزئین اتنی اور میری ماں کا گھر قدیم بھنڈر بن گیا ہے۔

یہ اب مزید نہیں چلے گا، مجھے اس گھر میں ایک اور بھابھی جیسی عورت نہیں آنٹی زہرا جیسی ماں چاہیے۔ آپ اتنے سالوں سے نوکر اور نوکرانیوں کے محتاج ہیں، میرے دادا کا گھر ویران رہتا ہے ، بابا بتائیں یہ کب تک چلے گا ؟

آپ بوڑھے ہو جائیں گے تو یہاں کون آپ کو دیکھے گا، میں ملتان سیٹل ہو جاؤں تو یہاں اس فضل شاہ کے بنائے گھر ، ڈیرے بیٹھک میں کیا کسی اور بابے کی اولاد رہے گی، اصغر بہت کچھ بول گیا،
ابھی بچپنا تو تھا، روہانسا ہونے لگا تو باوا جی نے جیپ رکوا لی۔  ۔ باوا جی نے اس کے کاندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا۔ اور لمبی سانس لے کے بولے۔۔۔
اصغر میرے لعل۔ تمہاری سب باتیں ٹھیک ہیں۔ لیکن دنیا میں دنیا کے مطابق رہنا ہوتا ہے۔
پہلی بات تم اکبر شاہ کی بیوی کو اس کے حال پہ  چھوڑ دو۔ کنارہ کر لو، وہ اکبر کی ذمہ داری ہے۔
باقی جو تم نے کہا ، میرے سامنے ہے۔
کیا زہرا بی بی یہ بوجھ اٹھانے کو اب بھی تیار ہے ؟؟
اصغر یکدم کھل اٹھا۔ کہنے لگا۔ میں نے بجھارت ڈالی تھی۔ انہوں نے انکار نہیں کیا!
آپ اجازت دیں تو میں ڈائریکٹ بات کر لوں گا اور مناسب ہو تو کرنل انکل کی بیگم کو بیچ میں ڈال کے بات ہو سکتی ہے وہ چھوٹی بہن بارے فکرمند رہتی ہیں ، باتوں میں کئی بار کہہ چکی ہے کوئی  شریف سید زادہ چاہے رنڈوا ہو مل جائے تو شادی کر دوں ۔ آج تو ماں زندہ ہے کل وہ بھی چل بسی تو زہرا اکیلی گاؤں کیسے رہے گی، کہاں جائے گی۔
باوا جی نے ہنکارا بھرا۔ کہا گاڑی چلاؤ ۔ تم ابھی سارے حالات نہیں  سمجھتے۔ اگلے ہفتے ملتان واپس چلتے ہیں۔
ہمیں رفتار کم رکھنی چاہیے۔ باقی یہ بنک ، اور دیگر سارے کام پہلے نپٹا لیں۔

انسان کی خواہش جب امید میں بدلتی ہے تو اس پہ  لطف و سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہی حال اصغر شاہ کا تھا۔ باوا جی کی بات میں چاہے ہلکا سا ہی سہی مثبت اشارہ تھا۔صوبیدار صاحب کے گاؤں تک پکی سڑک تھی، آخری موڑ کاٹ کے گاؤں سے باہر ان کے مغلیہ محل جیسے آؤٹ ہاؤس کے بڑے محرابی گیٹ پر ختم ہوئی ۔ باہر چارپائی  پر بیٹھے دو نوکروں نے بڑے چوبی کواڑ کھولے، ڈرائیو وے کے دائیں طرف وسیع لان جس کی سائیڈ پہ بلند قامت درخت تھے، اور سامنے بڑا محرابوں پے بنا برآمدہ ۔ دو چمچماتی کاریں گیراج کے باہر کھڑی تھیں، اصغر نے ان کے ساتھ جیپ پارک کی، برآمدے میں پلنگ پہ صوبیدار صاحب لیٹے تھے۔ڈسپنسری والا ڈاکٹر ان کا معائنہ کر رہا تھا، ان کے بڑے بیٹے نے باوا جی اور اصغر کا استقبال کیا۔
باوا جی برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ صوبیدار صاحب ، ڈاکٹر کو دھکیل کے ہٹاتے اٹھ کھڑے ہوئے۔دونوں یار بغلگیر ہوئے ۔ صوبیدار صاحب نے اصغر کو چمٹا کے پیار کیا، سب کو کرسیوں پہ بیٹھنے کا کہتے باوا جی کا ہاتھ پکڑے ان کے ساتھ ایک کرسی گھسیٹ کے خود بھی بیٹھ گئے، ڈاکٹر پریشان ہو گیا تو اسے کہا۔
ڈاکٹر پُتر بی پی ٹھیک ہے میرا باقی اب یہ مُرشد ملنے آ گئے ہیں میں بالکل ٹھیک ہو جاؤں گا۔
بیٹے سے کہا آپ نے جلسے میں جانا ہے آپ جائیں ڈاکٹر کو ڈراپ کرتے جانا، شاہ جی ادھر ہیں، خیر ہو گی آپ بے فکر رہنا۔ بیٹے نے باوا جی اور اصغر سے معذرت کی کہ سیاسی مصروفیت ہے ورنہ وہ نہیں  جاتا۔ نوکر کو کھانے کے بندوبست کی ہدایت کی۔ اور ڈرائیور کے ساتھ کار پہ  چلے گئے
اب دو بزرگ دوستوں کی گفتگو اور اصغر سامع۔ ڈیرے کے ڈیکور ، ہر طرف ترتیب ، اس کے لئے میوزک کے ساتھ سہانے خواب کا منظر تھا، باوا جی اور صوبیدار انکل کی زندگی کے کتنے مزید گوشے اس پر آشکار ہوئے ۔

واپسی پے اس نے پوچھا ، باوا سائیں آپ نے صوبیدار انکل کا ڈیرہ پہلے بھی دیکھا تھا ؟
باوا جی نے کہا نہیں ، پہلے یہاں پرانے کوٹھے تھے، یہ تعمیر تو بعد میں ہوئی  ہے، آج پہلی بار دیکھا۔اصغر نے سوال داغ دیا ۔صوبیدار انکل کی پہلی بیوی فوت ہوئی  تھی ناں جسے وہ یاد کر رہے تھے ! اگر میں نے صحیح  سُنا تو اس سے پانچ بیٹے ہیں ناں۔ صوبیدار انکل تو آپ سے بہت سینئر ہیں ناں ۔۔۔
باوا جی سٹپٹا گئے ۔ پوچھا ، اصغر کیا کہنا چاہتے ہو ؟ ۔ کہہ دو ۔۔
اصغر نے اتنا کہا ، ابا جی صوبیدار انکل نے دوسری شادی کر لی تھی ناں ۔ وہ آنٹی ان کے ساتھ رہتی ہے ۔۔
جو یہ سب کچھ اتنی ترتیب سے بن گیا اور اتنی شان و شوکت سے چل رہا ہے ۔ ۔۔
بابا کا گھر اسکی گھر والی بساتی ہے
بہوئیں تو اپنے گھر بنا لیتی ہیں میری بھابھی کی طرح “ ۔۔۔ باوا جی کسی گہری سوچ میں تھے،
اصغر نے روانی میں تڑکہ لگایا۔۔ بابا جانی جب آپ صوبیدار انکل کے نوکروں کو انعام دے رہے تھے ناں
میں نے انکل سے پوچھا کہ یہ بلڈنگ کس نے ذیزائن کی تھی ؟ انہوں نے کہا۔۔ ان کی بیگم نے۔۔۔۔
آئیڈیا اس کا تھا ۔ شہر کے ڈرافٹس مین نے نقشے کھینچ دیئے تھے ، باوا جی آپ سن رہے ہیں ؟
باوا جی نے فرمایا ،ایک تو یہ صوبیدار بھی ابھی تک بڑا بڑبولا ہے۔
میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔ تم زہرا بی بی سے بات کر کے اس سے پوچھ لو ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply