ایشیا سرخ ہے یا سبز؟۔۔۔محمد بلال غوری

’دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث امیر‘ امیر تر جبکہ غریب‘ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں‘‘ یہ ہے وہ آفاقی جملہ جس پر دنیا بھر کے پسماندہ طبقات کا اتفاق ہے اور دراصل یہی غیر حقیقی تصور ان کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ مزدور طبقہ غربت کے چنگل سے نہ نکل پائے، آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر نہیں، کرپشن یا فراڈ کئے بغیر کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اس طرح کے جملے ہر ناکام شخص کے زخموں پر مرہم کا کام کرتے ہیں مگر ہمارے بیشتر تصورات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو لوگ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دھواں دار تقریریں کر رہے ہوتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ ’’کیپٹل اِزم‘‘ دراصل ہے کیا تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

چند روز قبل بعض طلبہ و طالبات بسمل عظیم آبادی کے اشعار ’’سرفروشی کی تمنا ‘‘ پُرجوش انداز میں گاتے اور ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے لگاتے نظر آئے تو بھونچال آگیا۔ بھانت بھانت کے تبصرے ہونے لگے، بہت سوں نے سوچے سمجھے بغیر ان سب کو ’’برگر بچے‘‘ قرار دیدیا تو کئی ایک نے لبرل کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی۔ مجھے تو ان طلبہ و طالبات کا جوش و جذبہ دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی۔

کبھی تعلیمی اداروں میں مسابقت کی فضا ہوا کرتی تھی، مخالف نظریاتی اکھاڑوں سے انواع و اقسام کے نعرے گونجا کرتے تھے اور اس مثبت سرگرمی کے نتیجے میں نوجوانوں کی ذہنی نشو و نما ہوتی۔ ایک کیمپ سے آواز آتی، ایشیا سبز ہے تو جواب آں غزل کے طور پر دوسرے کیمپ سے ایشیا سرخ ہے کی صدا گونجتی۔

جو طلبہ و طالبات اس کشمکش سے دور رہ کر غیر جانبدار کہلانا پسند کیا کرتے تھے، انہوں نے بھی ایک نعرہ متعارف کروایا لیکن بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس جملے کو حذف کر دیا جائے۔ ضیاء الحق نے عنانِ اقتدار سنبھالی تو ان آوازوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اب اگر پھر سے یہ نظریاتی اکھاڑے آباد ہونے لگے ہیں تو یہ بات یقیناً خوش آئند ہے۔

ہاں مگر! اشراکیت کے فلسفے پر مجھے تحفظات ہیں اور شاید انہیں بھی ہیں جو اس کی پُرزور وکالت کرتے ہیں۔ ہمارے وہ سب دوست جو کامریڈ کہلانا پسند کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے یہ تلقین کرتے ہیں کہ وسائل سب کی مشترکہ ملکیت ہیں اور ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہئے، ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے ملکیتی اداروں میں ورکرز کو مالکانہ حقوق نہیں دے رکھے۔

آگے بڑھنے کے یکساں مواقع کی حد تک تو مساوات کی بات قابل فہم ہے مگر ایک نکھٹو، کام چور اور نااہل شخص کو کام کرنے والے، محنتی اور قابل شخص کے برابر مراعات کیسے دی جا سکتی ہیں؟ میرے پاس کوئی ہنر نہیں، میری تعلیم واجبی سی ہے، میں نے کبھی کوئی کسب سیکھنے میں دلچسپی نہیں لی مگر میں چاہوں کہ ہنر مند افراد جیسی آسائشیں میسر ہوں تو یہ کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

فیکٹری جس سرمایہ دار نے لگائی ہے، جو اس کے نفع نقصان کا ذمہ دار ہے، مالکانہ حقوق بھی اسی کو حاصل ہوں گے۔ شراکت داری کا پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ جس کا جتنا شیئر ہے وہ اتنی ہی سرمایہ کاری بھی کرے۔ فرض کریں آپ فاسٹ فوڈ کا کوئی ڈھابہ لگاتے ہیں اور وہاں جو شخص کاریگر ہے اسے آپ شراکت دار بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو آمدن ہوگی آدھی تمہاری، آدھی میری۔

اب پہلی صورت تو یہ ہے کہ 6ماہ تک منافع کے بجائے خسارہ ہوتا ہے تو کیا وہ اس نقصان میں حصہ دار بنے گا؟ تین ماہ بعد وہ شخص ہاتھ جھاڑ کر چلا جاتا ہے تو آپ کی ساری سرمایہ کاری ڈوب جائے گی مگر وہ کوئی اور کام ڈھونڈ لے گا۔ شراکت داری تو تب ہی قابل عمل ہو گی جب منافع نہیں، خسارے میں بھی حصہ داری ہو اور اسی تناسب سے سرمایہ کاری بھی دوطرفہ ہو۔

ہاں مزدور طبقے کا سرمایہ دار جو استحصال کرتا ہے اس پر بات ہونی چاہئے۔ معاوضہ اور مشاہرہ معقول ہو، تنخواہ دار طبقے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

ہم بالعموم جن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ روز بروز امیر‘ امیر تر جبکہ غریب‘ غریب تر ہوتا جا رہا ہے مگر حقائق اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ معاشی ماہرین نے قوتِ خرید اور دستیاب وسائل کے اعتبار سے دنیا بھر کے انسانوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ سرفہرست وہ لوگ ہیں جنہیں طبقہ امرا کا نام دیا جاتا ہے اور ان کی تعداد 200ملین ہے۔

اس کے بعد مڈل کلاس ہے جس میں شامل لوگوں کی تعداد 3.8بلین ہے۔ چوتھے نمبر پر انتہائی غریب لوگ ہیں جن کی تعداد 630ملین ہے جبکہ غربت زدہ افراد اور مڈل کلاس کے درمیان معلق لوگوں کو ’’غیر محفوظ (Vulnerable)‘‘ کہا گیا ہے کیونکہ یہ کسی بھی لمحے پھسل کر واپس غریب افراد کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ’’غیر محفوظ‘‘ افراد کی تعداد بھی مڈل کلاس کے برابر یعنی 3.8بلین ہے۔

انتہائی غریب افراد کی فہرست میں وہ لوگ شامل ہیں جو روزانہ 1.90ڈالر خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ہر وہ شخص مڈل کلاس طبقے میں شمار ہوتا ہے جس کا خاندان یومیہ 11ڈالر سے110 ڈالر خرچ کر سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر میں واشنگ مشین، ریفریجریٹر، موٹر سائیکل یا کسی قسم کی سواری کی سہولت موجود ہے، جو تفریح کی غرض سے کبھی بچوں کو فلم دکھانے یا باہر کھانا کھلانے لے جا سکتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے بھی روزگار ہو جائیں تو فوری طور پر سڑک پہ آنے کا خطرہ نہیں ہوتا بلکہ کچھ عرصہ تک اپنے حالاتِ زندگی سے لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔

دنیا بھر کے معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معیشت کا پہیہ سرمایہ دار نہیں بلکہ یہ مڈل کلاس چلا رہی ہے اور ہر نئی پروڈکٹ ان کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے متعارف کروائی جاتی ہے۔ امیروں کی قوتِ خرید تو بہت زیادہ ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔

’’دا بروکنگ انسٹیٹیوٹ‘‘ کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق ہر ایک سیکنڈ میں ایک شخص غربت سے نجات پا رہا ہے جبکہ پانچ افراد مڈل کلاس میں داخل ہو رہے ہیں۔ امرا کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے مگر بہت سست روی سے۔ ہر پانچ سیکنڈ میں ایک شخص امرا کی صف میں شامل ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply