گل سکینہ: 5سالہ بچی کا ریپ کے بعد قتل کیسے ہوا؟۔۔حمزہ ابراہیم

ضلع کرم کے  گاؤں پیواڑ میں پانچ سالہ بچی گل سکینہ 13۔نومبر۔2019 کو صبح سات بجے گھر سے نکلی اور گھر کے قریب ہی لڑکیوں کے سکول خیریت سے پہنچ گئی۔ سکول میں ٹیچر نے حاضری لگائی۔ وہ سکول کے حاضری رجسٹر میں آج بھی حاضر ہے۔ ساڑھے دس بجے تفریح کا وقفہ ہوا۔ لیکن معمول کے برعکس وقفے میں گل سکینہ گھر نہیں آئی ۔وقفے کے بعد ساری لڑکیاں سکول میں دوبارہ واپس حاضر ہوئیں مگر گل سکینہ سکول واپس نہیں آئی، سکینہ کہاں گئی؟ کسی کو کچھ  پتہ نہیں تھا۔

سکول کی ٹیچر ز کی ذمہ داری ہے کہ وقفے کے بعد حاضری دوبارہ لیں۔ لیکن لاپرواہی کی وجہ سے ایسا  نہیں ہوا، لہذا ریکارڈ میں کسی کا وقفے کے بعد واپس آنا درج نہیں البتہ سکول کی ٹیچرز گواہ ہیں کہ سکینہ وقفے کے بعد نہیں لوٹی۔ سکول چوکیدار،  جو گل سکینہ قتل میں یقیناً ملوث ہوسکتا ہے، اس کے بارے میں بہت سے شواہد ہیں جن کا ذکر نہایت ضروری ہے۔

جب سکول کی چھٹی ہوئی تو گل سکینہ کے خاندان والے چوکیدار کے گھر  گئے، جو سکول کے اندر ہے، اور چوکیدارسے پوچھا کہ کیا وجہ ہے گل سکینہ وقفے کے دوران گھر نہیں آئی؟ اور اب جب سکول کی چھٹی ہوئے کئی گھنٹے گزرچکے ہیں،  تب بھی سکینہ گھر واپس نہیں آئی؟ چوکیدار کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں تھا اور مبہم باتیں کر کے  ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔گل سکینہ کے خاندان والے نااُمید ہوکر سکول سے واپس گھر گئے اور گاؤں میں تلاش کرنا شروع کیا۔ امام بارگاہوں اور مسجدوں سے اعلانات ہوئے مگر سکینہ کا کوئی اتا پتا نہیں چلا۔

تین بج گئے ۔گل سکینہ کا خاندان ایک بار پھر چوکیدار کے گھر گیا اور کہا کہ ہم نے گل سکینہ کو سکول بھیجا تھا،  اب ہم اس وقت تک سکول سے واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمیں گل سکینہ زندہ یا مردہ نہیں ملتی۔اب چوکیدار نے جو ترکیب لڑائی  وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔چوکیدار نے کہا کہ آؤ مل کر ڈھونڈتے ہیں۔

اب سب سکول کے اندر ڈھونڈنا شروع ہوئے، تو چوکیدار نے کہا کہ “آؤ اس تالاب میں ڈھونڈتے ہیں”۔  تالاب کا ڈھکن اٹھا کر گل سکینہ مل تو گئی اور سکول کے لباس میں بستہ بھی ابھی تک کندھے پر باندھے ہوئے تھی، گویا تفریح کے وقفے میں گھر جا رہی ہو،  لیکن ننھی پری کے جسم میں جان نہیں تھی، گل سکینہ کی زندگی کا چراغ گل ہوچکا تھا۔

چوکیدار کے گھر والوں نے  گاؤں میں ہر کسی کو یہ بتانا شروع کیا کہ گل سکینہ مرگی کی مریض تھی اور بچوں کے ساتھ چھپن چھپائی  کھیل رہی تھی۔ چھپن چھپائی کھیلتے وہ تالاب میں گر گئی اور فوت ہو گئی۔ اگر چوکیدار  کے گھر والوں کی یہ بات مان لی جائے تو بچوں سے بھی تحقیقات ضروری ہیں۔  جو بچے گل سکینہ سے کھیل رہے تھے وہ سکول ہی کے بچے ہوں گے نیزبہت سے لوگوں نے بچوں کو یہ کھیل کھیلتے دیکھا بھی  ہوگا۔ ان کو بھی سامنے آنا چاہیے تاکہ پتا چلے کہ آیا تفریح کے وقفے کے دوران واقعی طور پر کچھ بچے گل سکینہ کے ساتھ اس تالاب کے آس پاس کھیل رہے تھے یا نہیں ۔

اگر مان لیا  جائے کہ گل سکینہ مرگی کی مریض تھی اور کھیل کھیل میں تالاب  تک پہنچی تو بھی تالاب کا ڈھکن اتنا بھاری ہے جو ایک پانچ سالہ بچی نہیں اُٹھا سکتی۔اگر بچی نے تالاب کا ڈھکن اُٹھایا بھی اور اندر کود گئی تو پھر بھی وہ بھاری ڈھکن واپس نہیں رکھ سکتی۔ یہ وہ شواہد ہیں جو کہ آج بھی محفوظ ہیں اور جن  کا فارنزک اور سائنٹیفک تجزیہ نہایت ضروری ہے۔

گل سکینہ کی لاش تالاب سے ملنے کے بعد گل سکینہ کو  تدفین کیلئے غسل دیا جارہا تھا کہ ریپ کا شک ہوا تو ہسپتال پہنچا کر معائنے کا فیصلہ ہوا۔گل   سکینہ ہسپتال پہنچائی گئی اور چار ڈاکٹرز نے رپورٹ میں ریپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ :
“مریضہ گل سکینہ دختر وارث علی عمر 5 سال سکنہ پیواڑ کا مردہ حالت میں معائنہ کیا گیا۔ بظاہر جسم پر کوئی زخموں کے نشانات نہیں تھے تاہم بڑے پیشاب کے مقام پر شدید زخم موجود تھے اور بڑی آنت کھلی تھی۔ پردہء بکارت موجود نہیں تھا”۔

جس سے صاف ظاہر ہے کہ  بچی کا ریپ کیا گیا ہے۔ گل سکینہ کے خاندان والوں کا الزام ہے کہ یہ جرم چوکیدار وغیرہ نے  سکول کے اندر کیا ہے۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق تین ملزمان پر شک ہے اور دو خواتین سمیت ڈیڑھ درجن افراد زیر حراست ہیں۔ تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے اور ڈی این اے سیمپل لاہور بھیج دیئے گئے ہیں جن کی رپورٹ  ایک ہفتے بعد موصول ہو گی۔

گُل سکینہ اب ہمارے درمیان نہیں رہی، پانچ سال پہلے جب سکینہ کی ماں اس دنیا سے جارہی تھی تو انہوں خاندان سے ایک ہی وصیت کی تھی کہ “میری گُل جیسی سکینہ کا بہت خیال رکھیں”۔

بےرحم معاشرے کے بھیانک جرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ ہوگیا۔کیاگل سکینہ کے قاتل کیفرکردار تک پہنچ پائیں گے؟ یہ اب تحقیقات کرنے والوں اور حکام  بالا کی دلچسپی پر منحصر ہے۔
گل سکینہ کے دادا گل علی اور چچا نوروز علی نے قوم اور حکام بالا سے التجا کی ہے کہ گل سکینہ قتل کیس کی اعلی سطحی تحقیقات کی جائیں اور قاتلوں کو عبرتناک سزا دی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے!

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply