دیکھ مگر پیار سے۔۔انفال ظفر

میں کل گھر سے نکلا۔بازار سے کچھ چیزیں خریدنی تھیں۔راستے میں اچانک ایک ٹریکٹر ٹرالی پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔”دیکھ مگر پیار سے”۔حیرانگی تو شائد کچھ زیادہ نہ ہوئی کیونکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی چند مزیدار اور مزاح سے بھر پور سطریں میں ٹرکوں،گاڑیوں،رکشوں پر لکھی پڑھ چکا ہوں۔جن میں مشہور “ویکھی جا پر چھیڑیں نہ”،اگ گڈی بم ڈرائیور”,جنوں میرے نالے محبت ہووے گی او آپ آئے گا” ہیں۔ایک انکل جو سائیکل پر سوار تھے جن سے میری چند دن پہلے بازار میں ہی ملاقات ہوئی تھی ۔ان کی عمر بھی لگ بھگ ساٹھ سال تھی انکی سائیکل کےمڈگارڈ(Mudguard) پر لکھا تھا”لو از لائف”(Love is life)۔اللہ اکبر انکل سے جب اس بات پر استفسار کیا کہ انکل کیا یہ آپ نے لکھوایا ہے یا آپ کے کسی فرزند نے کیونکہ ہماری نوجوان نسل ہی زیادہ تر ایسے کارنامے سر انجام دیتی یے۔میں انکل کا جواب سن کے ہنسا بھی اور ششدر رہ گیا۔انکل نے کہا بیٹا یہ میں نے ہی لکھوایا ہے۔اس کے بعد میرے پاس کوئی سوال نہ بچا۔سوچا کہ انکل یا تو آزاد ہیں یا پھر ان کی بیگم کا ان پر کوئی اختیار نہیں۔

میرے گاؤں کو جو سڑک جاتی ہے وہ تقریباً 10فٹ چوڑی ہے اور دونوں اطراف کا کچا راستہ جو گاؤں والوں کا فٹ پاتھ ہوتا ہے،دونوں کو ملا کر سڑک کی چوڑائی 12فٹ بن جاتی ہے۔یہ سڑک تقریباً 2کلومیٹر لمبی ہے۔اگر کوئی دو بڑی چیزیں ٹریکٹر ٹرالی یا گدھا گاڑی آمنے سامنے سے آجائیں تو دونوں میں سے ایک کو قربانی دینا پڑتی ہے اور چند سیکنڈ کیلئے گاڑی کو سڑک کے ساتھ بہتی کھال میں اتارنا پڑتا ہے۔اور جو گاڑی پیچھے سے آرہی ہو اس کو راستہ ملنے کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔اسی سڑک پر میرا سامنا ایک ایسی ہی مخلوق سے ہوا جنہوں نے ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے لکھوایا تھا “ہارن دو راستہ لو”۔سوچا ہارن دوں تو راستہ مل جائے شاید۔۔میں نے فوراً موٹر سائیکل سے ہارن بجانا شروع کر دیا۔صاحب نے اونچی آواز میں گانا لگا رکھا تھا-ٹریکٹر پر نہ کوئی سائیڈ مرر تھا نہ ہی میرے پاس کوئی ایسا طریقہ تھا جس سے میں اسے کراس کر سکتا تھا۔میں ہارن پہ  ہارن بجاتا رہا مگر مجال کہ ان کے کان پر جوں رینگی ہو ۔آخر کار ہار مان لی اور ان کے  پیچھے پیچھے مجبوری میں چلتا رہا۔جب کھلا روڈ آیا تھا تو پوچھا۔بھائی یہ ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے جو لکھوایا ہے اس پہ عمل بھی کر لیا کرو۔اس نے کہا میں اَن پڑھ ہوں۔میں وہیں خاموش ہوگیا اور سلام کر کے آگے  چل دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اتنے سارے سوالات اور ان کے  جوابات۔میں نے تحقیق شروع کی۔اپنے شفیق استاد باغ علی پنوار مرحوم کے پاس گیا۔پوچھا باغ صاحب “اے جیہڑی گڈیاں دے پچھے تسی لکھدے او اے توانوں کون دسدا اے یا جیہڑا آپ آندا اے او لکھواندا اے” باغ صاحب بولے “میرے کولے کجھ مشہور شعر تے کجھ فقرے لکھے پئے نے اگر کوئی نہیں دسدا تے میں ایناں تو ویکھ کے آپ لکھ چھڈنا واں” مجھے کچھ سوالوں کے جواب مل گئے مگر ساتھ ہی ایک نئے سوال نے جنم لیا کہ باغ صاحب جنہوں نے مجھے خوش خطی کی اصلاح دی اور ان کی وجہ سے میں نے کئی مضامین لکھنے کے مقابلے بھی جیتے۔وہ بھی اللہ اکبر ہیں۔میرا یہاں اللہ اکبر کا مطلب کہ اللہ نے دنیا میں مزاح بھی پیدا کیا ہے۔ دوسری طرف مجھے ان ٹرک ڈرائیوروں کو ضرور سراہنا پڑے گا جنہوں نے ٹرکوں کے عقب میں اچھی اچھی پینٹنگ بنوائی ہوتی ہیں۔اور جب ہم وہ پینٹنگ دیکھتے ہیں تو مصور کو دل سے دعا اور داد دیتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگوں نے اچھے اچھے مقولے اور محاورے یا اشعار لکھوا رکھے ہوتے ہیں۔یہ سب لوگ قابل تعریف ہیں۔ جس طرح کی تبدیلی پاکستان میں آرہی ہے امید ہے ہمیں مزید مزاح سے بھر پور سطریں ٹرکوں اور گاڑیوں کے شیشوں پر لکھی ہوئی ملیں گی۔

Facebook Comments

Anfalzafar
میں یو ای ٹی میں انجنیئر نگ کاطالب علم ہوں۔میرے مطابق لکھاری یا ادیب کا لکھنے کا مقصد واہ واہ حاصل کرنا یا شہرت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ لکھے تو مقصد ہو کہ پڑھنے والے کی اصلاح ہو ،پڑھنے والے کو تحریر سے علم ملے وہ محظوظ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply