• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/تیسری ،آخری قسط

مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/تیسری ،آخری قسط

سماج اپنی اخلاقی زندگی میں کسی ایک شخص کی عقل سے بنائی گئی قدروں پر نہیں چلتے۔ سماج چاہے امریکی بھی ہوگا اس میں وجدان ہمیشہ کارفرما رہے گا اور اسی وجدان سے نت نئی اخلاقیات تخلیق ہوتی رہیں گی۔ اگرچہ فلسفیوں کی لکھی ہوئی اخلاقیات کو اِمپوز کیا جاتارہے گا لیکن حقیقی جبلی اخلاقیات کی پیدائش سے پھر بھی کسی معاشرے کو مکمل طورپر محروم نہ کیا جاسکےگا۔

پھر اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نےنہایت واضح الفاظ میں اور بار بار کہا ہے کہ کائنات کے پست وبلند کو اس لیے تسخیر کرو کہ یہ تمہیں خدا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ بالفاظ دیگر قران نے سائنسدانوں کو بھی خدا کے متلاشی قرار دیاہے۔ ایک سائنسدان جب کوئی تجربہ کرنے لگتاہے تو اس کے دل میں ایک نہایت گہرا ایمان موجود ہوتاہے کہ کائنات میں ایک عالمگیر سچائی کارفرماہے۔ یہ عالمگیر سچائی اُس سائنسدان کی نظر میں ایک ایسا قانون ہے جو کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی تجربے کو انجام دیتے وقت سب سے پہلے یہی یقین اُس کا کُل سرمایہ ہوتاہے کہ یہ عالمگیر قانون یا یہ ناقابلِ تبدل صداقت ضرور اس کے تجربات کی تہہ میں موجود ہوگی۔ ایک سائنسدان کی خاموش دعا یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جب تجربہ انجام دے تو بالاخر ضرور اُس عالمگیر صداقت یعنی اس غیرمبدل قانون کو پھر سے دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائے جسے اس کے ساتھی سائنسدانوں نے تاریخ میں پہلے بھی متعدد بار دریافت کیا تھا۔ اگر اس سائنسدان کو اپنے تجربہ میں وہی عالمگیر قانون نہ مل پائے تو وہ ہمیشہ یہی کہتاہے کہ اس کا تجربہ ناکام ہوگیا۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ عالمگیر سچائی جس کی اُسے تلاش تھی، وہ سچائی ہی غلط ہے۔اس سائنسدان کی طرح ہرعام انسان بھی اپنے ماحول میں غوروفکرکے ذریعے اُسی بنیادی سچائی کو دریافت کرتےہوئے جہانِ صفات سے فقط ذات کی طرف سفر کرتارہتا ہے۔ ایسے ہرمسافرکو بقولِ قران، خداخود راستہ دکھاتاہے ۔

مولانا روم ؒ نے اس فرق کو جو ایک صوفی اور سائنسدان کے درمیان ہے بہت خوبصورت طریقے سے واضح کیاہے۔ یعنی صوفی اور سائنسدان ایک ہرن کے دو ایسے شکاری ہیں جن میں سے صوفی براہِ راست وجدان کے ذریعے یعنی ہرن کی بُوئے ناف کو سُونگھ سُونگھ کر ہرن تک پہنچنا چاہتاہے جبکہ سائنسدان ہرن کے قدموں کے نشانوں پر چلتاہو ا اُس کی طرف بڑھ رہاہے۔ اورجو ہرن کی بُوئے ناف کی مدد سے ہرن تک پہنچنا چاہ رہاہے وہ بہرحال قدموں کے نشانوں کوڈھونڈ کر خدا تک پہنچنے والے سے پہلے پہنچ جائےگا۔

راہ رفتن یک نفس بربُوئے ناف
خُوشترازصد منزلِ گام و طواف

چنانچہ خدا کی ذات کے خلاف ایسا کوئی آرگومنٹ موجود ہی نہیں ہے جسے مذہب پرحملہ سمجھاجائے۔ یورپ کے ملحدین نے چرچ کے ہزارسالہ مظالم کے خلاف ری ایکشن دکھاتے ہوئے انسانی حقوق کے بڑے بڑے فلسفے تخلیق کردیے۔ وہ نہیں جان سکے اور (غصے کی حالت میں) جان بھی نہیں سکتے تھے کہ خدا کی ذات اُن کے اعتراضات کا نشانہ نہیں بن سکی۔ وہ چرچ سے ناراض تھے اور اِس لیے اُنہوں نے مذہب کے خلاف بحیثیتِ مجموعی اپنا غصہ نکالا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اخلاقیات جیسی چیز کو آپ ایک کرسی میز پر بیٹھ کر لکھ دیں اور پھر پوری انسانیت کےلیے لازمی قرار دے دیں کہ یہ ہے جی، آپ کے لیے اب نئی اخلاقیات، جو ہم نے اپنی عقل کو استعمال کرکے ایجاد کی ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جان سٹورٹ مِل کی اخلاقیات میں اُن چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جاسکے جو صدیوں کے وجدان کا نتیجہ ہیں؟ ہم انسان ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں تو کبھی خشکی اورسردمہری سے ہتھیلی کوسیدھا رکھتے ہیں۔ کبھی دوسرے شخص کی ہتھیلی کو تھوڑا سا دبا دیتے ہیں۔ ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے کوئی ایک بھی دبا دی جائے یا فقط سیدھی ہی رکھی جائےتو سامنے والے کو ایک الگ قسم کا اخلاقی پیغام ( میسج) منتقل ہوجاتاہے۔ کیا جان سٹورٹ مل جیسا کوئی فلسفی عقل سے اخلاقیات وضع کرتے ہوئے اتنی باریکی میں جاسکتاہے؟

یہ مِل کی اخلاقیات ہی ہے جسے ’’گریٹرگُڈ‘‘ یا عظیم تر مفاد کی اخلاقیات کا نام دیا جاتاہے۔ کیا اسی گریٹر گڈ کے تصور کی وجہ سے ہی جاپان پر امریکہ نے بم نہیں گرایا تھا؟ آج تک امریکہ کے پاس یہی ایک جواز ہے کہ اگر اس وقت بم نہ گرایا ہوتا تو ہٹلر(جوفقط ایک شخص تھا) زمین کو تباہ کردیتا۔ امریکہ نے تو فقط ایک شخص اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے جب پورے افغانستان اور آدھے پاکستان کو تباہ کیا ، تب بھی اس نے یہی کہا تھا کہ اگر اسامہ کو نہ مارا گیا تو دنیا تباہ ہوجائےگی، چنانچہ گریٹرگڈ کے لیےباقی معصوموں کی جانوں کو قہر کی دیوی کی بھینٹ چڑھاناہوگا۔ مِل کی اسی گریٹر گڈ کی تھیوری کی مدد سے امریکہ نے فقط ایک شخص صدام حسین کو پکڑنے کے لیے پورے عراق کو آگ لگادی۔ دیکھاجائے تو امریکہ تو جان سٹورٹ مِل کی اخلاقیات کو پندرھویں صدی کے کیتھولک چرچ سے بھی زیادہ بُرے طریقے سےا ستعمال کررہاہے۔ اُن کے گستاخ تو فرداً فرداً جلتے تھے، جبکہ اِن کے پیغمبر یعنی مِل کی مصنوعی اخلاقیات کے گستاخوں کے تو، پورے کے پورے ممالک کو جلاکرراکھ کا ڈھیر بنادیاجاتاہے۔

جان سٹورٹ مِل کی حقوقِ انسانی والی اخلاقیات چند انسانوں کی عقلوں کا نتیجہ ہے اور عقلیں بھی ایسی جو مذہب سے ناراض تھیں اوراُنہوں نے قسم اُٹھارکھی تھی کہ وہ وجدانی اخلاقیات جو مذہب کے ذریعے صدیوں میں انسانوں پر وارد ہوئی، اُسے تو وہ دُور سے بھی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ ایک فلسفی نے لکھا، ’’ اگر ہم نے اُس اخلاقیات کو پکارا تو پادری پھر اپنی جھولیوں میں بائیبل اُٹھا کر بھاگے چلے آئیں گے کہ لوجی! ہمارے پاس ہے وہ اخلاقیات‘‘۔

یورپ کے مفکرین تو مذہب سے ناراض تھے۔ مذہب سے ناراض لوگوں کو مذہبی اخلاقیات کی قدروقمیت کا اندازہ کیسے ہوسکتاتھا؟ اخلاقیات تو ہمیشہ وحی اور وجدان کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اخلاقیات اگر کسی ایک نبی یا رشی منی کی وحی و الہام کا نتیجہ نہ ہو تب بھی وہ عام انسانوں کی وحیوں اور الہاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اخلاقیات تو کسی درخت کی شاخوں کی طرح معاشرے میں خود بخود پھوٹتی ہے۔ فقط آنکھوں کے اشاروں میں کتنے ہی اخلاقی پیغامات موجود ہوسکتے ہیں، یہ جان لینا عقلی اخلاقیات کے بس کاروگ ہی نہیں ہے۔

یورپ کے ناراض مفکرین نے پچھلے تین ساڑھے تین سو سالوں میں جتنی بھی اخلاقیات وضع کی وہ تمام کی تمام مذہب سے نفرت کا ردِ عمل ہے۔ مثلاً یورپ نے ’’نیشن سٹیٹ‘‘ کا نظریہ کیوں اختیار کیا؟ نیشن سٹیٹ سے پہلے پورا یورپ ایک ہی قوم تھا، یعنی عیسائی قوم۔ جب اُنہوں نے عیسائیت سے ناراض ہوکر اس مشترکہ اوربڑی قومی شناخت کو خیرباد کہہ دیا تو ان کے پاس قومی شناخت کا ایک ہی راستہ رہ گیا تھا، نیشن سٹیٹ۔ یعنی جو جہاں کا رہنے والا ہے، اس کی قومی شناخت اسی علاقہ سے ہوگی۔ یہ ڈینش ہے، یہ نارڈک ہے، نارویجن ہے، یہ فرنچ ہے، یہ سوِس ہے، یہ انگریز ہے وغیرہ جیسی تمام قومی شناختیں نیشن سٹیٹس کی شناختیں ہیں۔ جہاں کا جوکوئی رہنےوالا ہے، وہیں کی زبان، ثقافت، رنگ، قبیلہ اور رسم و رواج ہی اس کی شناخت ہوگا۔ یورپ بیسیویں صدی کے اوائل میں مذہب سے ناراضی کےاسی فیز میں تھا جب اقبال نے یورپ میں یہ اشعار کہے تھے،

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہی زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اقبال نے یورپ کے نیشن سٹیٹ کے اس تصور کو شاخِ نازک کہہ کر پکاراتھا۔ کیا اقبال سے بڑا بھی کوئی فلسفی ہوگا جس کی پیشگوئی یوں سوفیصد درست ثابت ہوئی ہو؟ ان اشعار کے کہنے کے کچھ ہی عرصہ بعد یورپ میں پہلی جنگِ عظیم لڑی گئی جس میں ڈیڑھ کروڑ انسان مارے گئے اور پھر جلد ہی دوسری جنگِ عظیم لڑی گئی جس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔ پورا یورپ جل کر راکھ ہوگیا۔ سات کروڑ انسان زندہ جل گئے۔ ہرطرف غربت ناچنے لگی اور لوگ گلی کوچوں میں ایک دوسرے کوقتل کرنے لگے۔اور پھر جب یورپ سنبھلا تو اُسے اتنا نقصان اُٹھا کر ’’تھوڑی تھوڑی اور کچھ کچھ‘‘ سمجھ آئی کہ الگ الگ قبائل کی صورت تو وہ ہمیشہ ہی آپس میں لڑتے رہیں گے۔ آج جس یورپی یونین کو ہم جانتے ہیں، ذرا سا غور کریں تو یہ مشترکہ شناخت کی طرف وہی سفر ہے جسے چار صدیاں پہلے وہ عیسائیت کی صورت پیچھے چھوڑ آئےتھے۔ جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ بن رہی تھی تو اقبال نے یہ اشعارکہےتھے،

تفریقِ مِلل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
مکےّ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمیعتِ اقوام کہ جمعیت ِ آدام؟

یعنی ملّتوں کو تقسیم کرنا فرنگیوں کی دانائی کا مقصود ہے، اس کے مقابلے میں اسلام کا مقصود تو انسانوں کی واحد ملت بناناہے اور یہ کہ مکے نے اقوامِ متحدہ کے مرکز یعنی جنیوا کو حج کے موقع پر یہ پیغام دیاہے کہ کیا اقوام کی جمیعت بننی چاہیے تھی یا آدم یعنی انسانوں کی؟

اقبال نے پہلی جنگِ عظیم سے پہلے ہی طبلِ جنگ سُن لیاتھا۔ اقبال نے واپس آکر یہاں کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ مذہب سے اپنی شناخت ہمیشہ قائم رکھیں۔ اگر اُنہوں نے بھی یورپیوں والی غلطی کردی تو پھر وہ بھی جنگلوں اور صحراؤں میں بھٹکتے پھریں گے، اصلی اور جینیوئن اخلاقیات کی تلاش میں۔ یورپ کی اخلاقیات جو مذہب کے خلاف ردِ عمل کی اخلاقیات تھی میز اور کرسی پر بیٹھ کر وضع کی گئی اور انسانی حقوق کو پہچانا گیا تو عقل کے ذریعے جمع تفریق کرکے۔ جبکہ اخلاقیات تو پورے معاشرے کی مشترکہ وحی ہوتی ہے، جس میں گاہے بگاہے مصلحین کی طرف سے ریفارمیشن کا قدرتی عمل جاری رہتاہے اور وہ ہمیشہ ہی پھلتی پھولتی چلی آئی ہے۔

یورپ نے مذہب کے خلاف ردعمل کے طورپر سب سے پہلا اور بڑا جو نظریہ اختیار کرلیاتھا اسے ہم فلسفہ کی زبان میں وجودیت کہتے ہیں۔ اس میں انسان پر توجہ مرکوز کردی گئی تھی کیونکہ انسان پر مسیحیت نے بڑے مظالم ڈھائے تھے۔ وجودی مزاج نے مزید ترقی کی تو وہ کبھی مارکسزم میں ڈھل کر وارد ہوا اور کبھی افادیت پسندی (یوٹیلیٹیرنزم) میں ڈھل کر۔ جمہوریت بھی اسی وجودی سوچ کی پیداوار تھی جوانسانی حقوق کا مسلسل شور مچارہی تھی۔ ان تمام اخلاقی اور سیاسی نظاموں نے اصلی انسان کو اُدھیڑ کررکھ دیا۔

مغرب سے مسیحی عقائد کا جنازہ نکلا تو وہاں مسیحی اخلاقیات کے باقی رہنے کا جواز بھی نہ رہا۔ وہ تمام اعلیٰ انسانی شرف ہا جو کبھی اعلیٰ اجتماعی سماجی، وحی کے نتائج میں انسانی تہذیب کا حصہ بنے تھے، دھیرے دھیرے مفقود ہونے لگے۔ انسان ترقی کے نام پر واپس جانوروں جیسی زندگی کی طرف بڑھتاچلاگیا۔ اس تنزلی میں بعض اعمال تو جانوروں سے بھی بدتر ہوتے چلے گئے۔ ہپی کلچر، گے کلچر، لزبین کلچر، نیچرل لائف، جانوروں کی آزادی جیسی آزادی اور ہرفرد کی اپنی ذاتی زندگی کا حصار بڑے بڑے انسانی المیوں کے طورپر مصنوعی انسانی اخلاقیات کا حصہ بنتے چلے گئے۔ شرف ہائے انسانی ، اقدار، روایات، آداب اور تہذیبِ نفس جیسی نایاب دولتیں جو غیرمختتم سلسلۂ قربانی و ایثار سے ہزاروں سال سے وجود میں آئی تھیں، دھیرے دھیرے مفقود ہوتی چلی گئیں اور یورپ عیسیٰ کی روحانیت سے مکمل طورپر محروم ہوگیا۔

چنانچہ سچ تو یہ ہے کہ جتنا آرگومنٹ تھا عیسائیت کے خلاف، فی زمانہ سارے کا سارا اُٹھا کر اسلام کے خلاف جڑدیاگیا۔ مذہب اسلام کے خلاف آرگومنٹ کی ضرورت تھی تو نیا آرگومنٹ ڈیولپ کیا جاتا۔ پرانا آرگومنٹ کیوں استعمال کیا گیا اور وہ بھی جُوں کا تُوں؟ پھر اسلام اورعیسائیت میں بہت کچھ فرق تھا۔ مذہب ِ عیسائیت کے خلاف جو آرگومنٹ یورپ کے مذہب مخالفین نے صدیوں کی محنت سے تیار کیاتھا، وہ فقط مذہبِ عیسائیت کی مخالفت کا کام ہی ٹھیک سے انجام دے سکتا تھا، نہ مذہب اسلام کی۔ دورحاضر سے پہلے اسلام کے خلاف کسی بھی بیانیہ ساز کو کبھی کسی آرگومنٹ کی ضرورت پیش ہی نہ آئی تھی تو تاریخ میں ایسا کوئی آرگومنٹ موجود ہی کیونکر ہوتا؟

Advertisements
julia rana solicitors

ادریس آزاد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply