• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/قسط1

مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/قسط1

سچ تو یہ ہے کہ جتنا آرگومنٹ تھا عیسائیت کے خلاف، سارے کا سارا اُٹھا کر اسلام کے خلاف جڑدیاگیا۔ مذہبِ اسلام کے خلاف آرگومنٹ کی ضرورت تھی تو نیا آرگومنٹ ڈیولپ کیا جاتا۔ پرانا آرگومنٹ کیوں استعمال کیا گیا اور وہ بھی جُوں کا تُوں؟ پھر اسلام اورعیسائیت میں بہت کچھ فرق تھا۔ مذہب ِ عیسائیت کے خلاف جو آرگومنٹ یورپ کے مذہب مخالفوں نے صدیوں کی محنت سے تیار کیاتھا، وہ فقط مذہبِ عیسائیت کی مخالفت کا کام ہی ٹھیک سے انجام دے سکتا تھا، نہ کہ مذہبِ اسلام کی مخالفت کا۔ دورحاضر سے پہلے اسلام کے خلاف کسی بھی بیانیہ ساز کو کبھی کسی آرگومنٹ کی ضرورت پیش ہی نہ آئی تھی چنانچہ تاریخ میں ایسا کوئی آرگومنٹ موجود ہی نہیں ہے۔

عیسائیت کے خلاف تو ایسے کسی آرگومنٹ کی یورپ کے لوگوں کو شدید ضرورت رہی تھی۔ کوئی چیز یا کوئی تصور وہیں پیدا ہوگا جہاں اُس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یورپ کے لوگ اپنے مذہب کی شدت اور نارروا سلوک سے تنگ تھے۔ یورپ میں مذہب کے دور کو ڈارک ایجز کیوں کہاجاتاہے؟ فقط اِس لیے کہ وہاں مذہب کے نمائندوں نے طوفان مچا رکھاتھا۔ کتنی صدیوں تک یورپ میں مذہب کے نمائندوں نے باقاعدہ حکومت کی۔ چرچ جس کسی کو چاہتا بادشاہ بنادیتا اور جس کسی کو چاہتا آگ کے الاؤ میں جھونک دیتا۔ چرچ نے یورپ میں پورے ہزار سال تک ظلم و استبداد کی وہ داستانیں رقم کیں کہ جنہیں پڑھ کر آج بھی انسانیت شرمندہ ہوکر منہ چھپانے لگتی ہے۔ چنانچہ یورپ میں مذہب کے خلاف فضا پیدا ہوجانا ضروری ہوگیاتھا۔ یورپ کے لگ بھگ سارے فلسفے مذہب کے ری ایکشن کے طورپر پیدا ہوئے۔اسلامی ممالک کی تاریخ بالکل بھی یورپ جیسی نہیں ہے۔

یورپ میں چرچ نے پورے ایک ہزار تک لوگوں کو زندہ جلایا۔ بڑے بڑے نامور سائنسدانوں کو زندہ جلایا گیا۔ برونوایک بڑا سائنسدان تھا جسے کیتھولک چرچ نے فقط یہ کہنے کی پاداش میں زندہ جلادیا تھا کہ زمین سُورج کے گرد گھومتی ہے۔ برونواورگیلیلو نے مل کر ہی کائنات کے’’ہیلیوسینٹرک‘‘ ہونے کی بات کی تھی۔ چرچ کو یہ بات کفریہ کلمہ(بلاسفیمی) محسوس ہوئی اور برونوکوجلتی ہوئی لکڑیوں کے ڈھیر پر باندھ کر بھُون دیاگیا۔ اسلام میں تو بلاسفیمی کا تصور تک موجود نہیں ہے۔ صدیوں سے عرب، فارسی اور اُردوشعرأ خدا کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے تھے۔ اگر ایسا ایک بھی جملہ ڈارک ایجز کے دوران عیسائیوں نے سن لیا ہوتا تو اُن شعرأ کو زندہ جلادیا جاتا۔ اسلام میں تو ایسے خیالات کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا جاتاہے۔

برونو کے بعد گیلیلو بھی مارا جاتا لیکن وہ اس لیے بچ گیا تھا کہ اس نے چرچ سے معافی مانگ لی تھی۔ڈاکٹرڈریپر اور بریفالٹ نے بے شمار واقعات رقم کیے ہیں جنہیں پڑھ کر رُوح کانپ جاتی ہے۔ جون آف آرک پندرہویں صدی کے ابتدائی نصف میں ایک لڑکی تھی جس نے چرچ کے ظلم و ستم کےخلاف آواز اُٹھائی۔جون آف کو بھی زندہ جلا دیاگیا۔ ڈاکٹر ڈریپر نے لکھاہے کہ ۱۰۳۰ تک فرانس کے دریائے ساؤن کے کنارے انسانی گوشت بیچنے کی کتنی ہی دکانیں تھیں۔ فرانس کے فلپ نامی ایک بادشاہ کو جب چرچ نے سزا سنائی تو فرد جرم میں ایک یہ جرم بھی لکھا تھا کہ ’’یہ مسلمانوں کی طرح بار بار ہاتھ منہ دھوتاہے‘‘۔ کنٹربری کا لاٹ پادری جب چرچ سے نکلتا تو اس کی قبا پر سینکڑوں جوئیں چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ لندن میں لوگوں کو مکان بنانے کا ڈھنگ تک نہیں آتا تھا۔ بے ترتیب اور ایک دوسرے کے آگے پیچھے مکانات بنالیتے۔راستے نہ بنائے جاتے اور بارش میں اُن کے لیے چلنا محال ہوجاتا۔ گھروں کے آگے رفع حاجت (یعنی واش روم) کےلیے بیٹھ جاتے تھے۔ برتن میں پانی ڈال کر اسی میں کُلیاں کرتے اسی میں ناک صاف کرتے اور اسی پانی سے منہ دھوتے۔ ۔ کتنی لائبریریاں جلائی گئیں، کتنے لاکھ کتابیں جلادی گئیں، کتنے لوگوں کولکڑیوں کے الاؤ پر باندھ کر بھُون دیاگیا، اس کا کچھ حساب ہی نہیں۔ صرف پندرھویں صدی کے پہلے نصف میں چرچ نے سترہزار انسانوں کو زندہ جلانے کی سزا دی۔ ہالی وُڈ نے ڈارک ایجز میں مسیحیت کے مظالم پر بے شمار فلمیں بنائی ہیں، جن میں یہ سب کچھ دکھایا گیاہے۔

یورپ تو مذہب کی زیادتیوں سے ڈسا ہواتھا۔ وہاں مذہب کے خلاف اتنا بڑا ری ایکشن پیدا ہوجانا قدرتی امر تھا۔ جونہی مارٹر لوتھر کی پروٹیسٹنٹ تحریک کے بعد یورپ کے لوگوں کو ذرا کھل کر سانس لینے کا موقع ملا اُنہوں نے پوری قوت سے اپنے ری ایکشن کا اظہارکیا۔ بڑےبڑے فلسفی پیدا ہوئے جو مذہب کے خلاف لکھتے تھے۔ ڈیوڈ ہیوم سے کسی نے اس کی آخری خواہش پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ’’میں اپنی آنکھوں سے چرچ کا زوال دیکھنا چاہتاہوں‘‘۔ یورپ کاکون سا ایسا ملحد فلسفی ہے جس نے ری ایکشن میں آکر نہیں لکھا؟ کوئی ایک نام بھی نہیں لیا جاسکتا۔ ڈیوڈہیوم سے برٹرینڈ رسل تک، سب فلسفیوں نے بنیادی طور ’’ری ایکشنری‘‘ فلاسفی ہی لکھی۔ جان سٹورٹ مِل جس کے نظریۂ آزادی، فریڈم آف سپیچ یا فیمنسٹ تصورات کو آج اتنا عروج حاصل ہے اور جس کے انسانی حقوق کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل کیاگیا ہے، مکمل طور پر ری ایکشنری فلسفی تھا۔ اِسی طرح جرمن کا نیٹشے کہا کرتاتھا’’خدا قتل ہوگیا ہے‘‘۔ایک بار کسی پادری نے نہایت غصےمیں اس سے پوچھاکہ ’’خدا کو کس نےقتل کیا ہے؟‘‘ تو نیٹشے نے اسی پادری کی طرف اُنگلی اُٹھا کر کہا، ’’تم نے‘‘۔ پھر اس نے کہا، ’’کیا تم نے اُسے خود اپنے ہاتھوں سے سُولی پر نہیں لٹکایا تھا؟‘‘ یوں گویا نیٹشے مسیحی تصورِ خدا کو نشانہ بنارہاتھا۔

غرض یورپ کا مذہب مخالف آرگومنٹ سارے کا سارا نہ صرف ری ایکشنری ہے بلکہ فقط عیسائیت کے خلاف ہے۔ جب یہ آرگومنٹ ہے ہی فقط عیسائیت کے خلاف تو اسلام کے خلاف کیسے استعمال کیا جاسکتاہے؟ آج تک جتنے بھی مسلمان، عہدِ حاضر کے ملحدین کے آرگومنٹ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں وہ بنیادی طورپر عیسائیت کا دفاع کررہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ جن دلائل سے اسلامی عقائد کا رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ تمام کے تمام دلائل بنیادی طورپر عیسائی عقائد کے خلاف دیے گئےتھے۔ اسلامی عقائد کے خلاف تو آج تک ایک بھی آرگومنٹ نہیں دیا گیا۔ مثال کے طورپر وجودِ خدا یا پیغمبرِ خدا یا پیغامِ خدا کے خلاف جتنے آرگومنٹ سامنے آتے ہیں وہ سب کے سب مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔ یہاں مشرق میں تو یہ آرگومنٹ موجود نہیں تھے اور آج بھی نہیں ہیں۔ حیات بعدازممات، قبر، عذابِ قبر، آخرت، جنت جہنم، اِن سب عقائد کےخلاف آنے والے دلائل فی الاصل عیسائی عقائد کے خلاف لائےگئے دلائل ہیں نہ کہ اسلامی عقائد کے خلاف۔

یعنی کیا خُدا اپنی مثیل پیدا کرسکتاہے؟ کیا خُدا اپنی نقل پیدا کرسکتاہے؟ اگر وہ اپنی نقل پیدا کرسکتاہے تو کیا اُس کی نقل دوسرا خدا نہ ہوگی؟ اور اگر وہ اپنی نقل پیدا نہیں کرسکتا تو پھر اس کی قدرت کمزور ٹھہرے گی۔

اگر خدا قادرِ مطلق ہے تو پھر وہ بُرائی کو کیوں نہیں روکتا۔ ایسا شخص جو بُرائی کو روک سکتاہو لیکن نہ روکے وہ یا تو برائی میں شریک ہے یا پھر بُرائی کو فی الاصل روک ہی نہیں سکتا۔

خدا علیم و خبیر ہے تو پھر اس کے علم میں ہمارے مستقبل کا علم بھی ہے ۔ اگر اس کے علم میں ہمارے مستقبل کا علم بھی ہے توپھر ہمارے اختیار کا کیا مطلب ہوا؟

خدا کا علم محدود ہے؟ یا لامحدود؟ اگر لامحدود ہے تو کیا خدا کو اپنے علم کی حد معلوم ہے ؟اگر نہیں معلوم تو کیا یہ جہالت نہیں کہ خدا کو اپنے علم کی حد معلوم نہیں؟

کیا خدا اتنا بھاری پتھر بناسکتاہے جسے وہ خود نہ اُٹھا سکتاہوں؟

اس قسم کے کتنے ہی سوالات ہیں جو یورپ کے مذہب مخالف آرگومنٹ کا حصہ ہیں۔ ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہوجاتاہے کہ یہ تمام آرگومنٹ فقط مذہبِ عیسائیت کے عقائد پر تنقید تھا نہ کہ اسلامی عقائد پر۔ ذرا سا غورکریں تو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ تمام اعتراضات خدا کی ذات پر نہیں ہیں بلکہ خدا کی صفات پر ہیں۔ قدرت، خدا کی ایک صفت ہے۔ علم خدا کی ایک او رصفت ہے۔ رحمت، ربوبیت، رحیمیت، قہر، جباریت وغیرہ یہ سب تو خدا کی صفات ہیں نہ کہ ذات۔ اسلام کے مطابق یہ تو اسمائے حسنیٰ ہیں نہ کہ اسمائے ذات۔اسمائے حسنیٰ کیا ہیں؟ وہ تمام اچھے اچھے نام جو خدا کو دیے جاسکتے ہیں۔ خدا کے ایسے تمام اچھے اچھے ناموں پر غورکریں تو فوراً معلوم ہونے لگتاہے کہ یہ سب تو بنیادی طورپر انسانی صفات تھیں۔علم کی ہمیں ضرورت ہے۔ رزق، رحم، معافی، ربوبیت اور مغفرت کی تو ہمیں ضرورت ہے۔ اِسی طرح قدرت کی تو ہمیں ضرورت ہے۔ جو کام ہم نہیں کرسکتے ہم اُسے ایک بڑا اور مشکل کام قرار دیتے ہوئے خدا کے ساتھ ایک اور صفت کا اضافہ کردیتے ہیں۔ الغرض خدا کے صفاتی ناموں کی تو پوجا تک بھی جائز نہیں ہے اسلام میں۔ خدا کی صفات کی پوجا ہی تو کرتے تھے باقی تمام مذاہب۔ مثلاً ہندوؤں میں دُرگا دیوی خدا کی صفتِ قہاریت کی علامت ہے۔ جب کوئی ہندو دُرگا دیوی کی پوجا کرتاہے تو فی الاصل وہ خدا ہی کی ایک صفت کی پوجا کرتاہے۔ رحمت، انسان کی صفتِ پدری ہے۔ انسان کو رحیم باپ کی ضرورت ہے جسے ہم اُردو میں شفیق باپ کہتے ہیں۔ عیسائیت نے خدا کی اِس صفت کو باقی صفات پر غالب کردیا اور اسی ایک کی پوجا کرتے کرتے خدا کو فادر اور فادر کو خدا بنادیا۔ اور اِس کے ساتھ شامل کیا بھی تو ماں کی محبت کو، اور یوں عیسیٰ و مریم میں خدا کو پرسونیفائی (مجسم) کردیاگیا۔ عیسائیوں کا خدا تو بالکل ویسا ہے جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔

وہ دلائل جو یورپی ملحدین نے خدا کے خلاف دیے وہ دلائل خدا کی صفات کے خلاف ہیں۔ خدا کی ذات کے خلاف تو آج تک کوئی دلیل کہیں سے نہیں دی گئی۔ مثلاً ’’ خدا قدرت رکھتاہے تو برائی کو روک کیوں نہیں دیتا‘‘ یہ دلیل خدا کی صفتِ قدرت کے خلاف ہے نہ کہ ذاتِ خداکے خلاف۔ جبکہ خدا کی صفتِ قدرت توہماری وجہ سے پہچانی گئی ہے۔ اگر زمین پر کوئی بھی انسان نہ ہوتا تو کس کو ضرورت تھی کہ وہ قدرت، رحمت، مغفرت وغیرہ کی بات بھی کرے؟ پوری کائنات میں سے آج تمام انسانوں کو خارج کردیں تو خدا کی زیادہ ترصفات خود بخود قابلِ ذکرہی نہ رہیں گی۔ مثلاً علم کی ہم انسانوں کو ضرور ت ہے۔ ہم خدا کو علیم مانتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان بھی کائنات میں باقی نہ رہے تو خدا کے علیم ہونے کا کیا مطلب رہ جائےگا۔ خدا کی ایسی تمام صفات کو علامہ اقبال نے بتکدہ قرار دیاہے۔ بالِ جبریل کا پہلا شعر ہی یہی ہے،

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغہ ہائے الاماں بُتکدۂ صفات میں

اگر ہندو دُرگاماتا کی پوجا کرتاہے اور عیسائی فادر کی، تو یہ دونوں خدا کی صفات کی پوجا کرتے ہیں۔پاربتی محبت کی دیوی ہے اور لکشمی دولت و عظمت کی ۔ مریم خداوندِ یسوع مسیح کی ماں اورصفتِ ربوبیت سے مالامال ہے۔ سونے چاندی کے پیچھے دن رات گزاردینے والا کاروباری شخص بھی خدا کی ہی صفات کے پیچھے دوڑرہاہے۔ اگرصفات کی پوجا شرک نہ ہوتی تو دنیا کا کوئی مذہب بھی اسلام سے مختلف نہ ہوتا۔

اکبربادشاہ کو آٹھ سال کی عمر میں بادشاہت مل گئی اوراس کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ اس مسئلے کا حل اکبر نے یہ نکالا کہ دنیا جہان کے علمأ کو اپنے دربار میں جمع کرنا اور اُن سے سیکھنا شروع کردیا۔ کیا ہندو، کیا عیسائی ، کیا مسلمان۔ دھیرے دھیرے اکبر پر واضح ہوا کہ مذاہب تو سارے ایک جیسے ہیں۔ سب ہی خدا کو کائنات میں جاری و ساری سمجھتے ہیں اور سب کے مطابق ہی ہرشئے میں خدا ہے۔ چنانچہ اکبر کے ذہن میں ایک بالکل نیا مذہب ایجاد کرنے کا اچھوتا آئیڈیا آیا۔ اس نے دینِ اکبری کی بنیاد رکھی اور اعلان کیاکہ کائنات کی ہرشئے میں خدا ہے اس لیے ہر شئے خدا کی طرح محترم و مقدس ہے۔ دینِ اکبری کے پیروکار ایک سُؤر (خنزیر) کے سامنے بھی ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جاتے تھے کہ اِس میں خدا کاجلوہ ہے اور اِس لیے اِس کی پوجا بھی جائز ہے۔آج ہمیں معلوم ہے کہ اکبر نے یہ مذہب اپنی سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایجاد کیا تھا۔ عین اکبر کے دور میں اکبر کی اِس ایجاد کے خلاف ایک نہایت مضبوط سیاسی تحریک نے جنم لیا۔ یہ تحریک مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ نے شروع کی۔ اُنہوں واضح کردیا کہ خدا کی صفات ، خدا کی ذات سے الگ ہی

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہںے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply