عشق تو سر ہی مانگتا ہے میاں ۔۔۔فاخرہ گُل

مذہبی تعصب کی بنیاد پر ناروے میں ہونے والے حالیہ واقعے پر جس طرح ایک شخص عُمر نے جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاُس فعلِ قبیح کو روکا وہ قابلِ ستائش ہے عُمر کی جگہ اگر ایمان رکھنے والا کوئی بھی انسان ہوتا تو یقیناً اپنی آنکھوں کے سامنے اس بے حرمتی کو برداشت نہ کر پاتا.

یوں تو اس طرز کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی یورپی ممالک میں ایسے کئی واقعات پیش آتے رہے ہیں جنہیں آزادی اظہار کی سُرخ چادر میں لپیٹ کر اُنکی حوصلہ افزائی کی گئی مگر فرق یہ ہے کہ اُن تمام واقعات میں تمام مُسلمانوں کا غم و غصہ کسی سے مخفی نہ تھا جبکہ ناروے کے واقعے میں گو کہ جن گستاخوں نے قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی اُن کے غلط ہونے اور سخت سے سخت سزا سُنانے پر تو سب متفق ہیں مگر اس فعلِ بد پر ردِّعمل دینے والے نوجوان کےلیے کونوں کھدروں سے اگر مگر کی چہ مگوئیاں سُنائی دے رہی ہیں،مثلاً عُمر نے اُس شخص پر حملہ کر کے قانون ہاتھ میں لیا۔۔
عُمر کے اس اقدام سے ہم شدت پسند مانے جائیں گے
عُمر نے مذہبی ہم آہنگی کی کوششوں کو نقصان پہنچایا
عُمر نے اُن مُلحدین کی کوششوں کو کامیاب کردیا جو یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مسلمان امن پسند نہیں ہیں
عُمر کو قانونی کاروائی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا
عُمر پر یہ اور اس جیسے مزید کئی اعتراضات کرنے والوں کی لِبرل سوچ اپنی جگہ موجود لیکن عُمر کا عشق اپنی جگہ بُلند حیثیت ہے اور رہے گا۔

زیادہ افسوس اس بات پر بھی ہوا کہ یہ اعتراضات کرنے والے بھی ہم مسلمان ہی ہیں یعنی آپکے خیال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے سامنے کوئی قرآن کریم نذرِ آتش کرے یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی گستاخی کرے تو بڑے سکون اور خاموشی سے سینے پہ ہاتھ باندھے ہم یہ تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور انتظار کریں کہ جب وہ ملعون یہ تمام گستاخیاں کر چکیں تب ہم خراماں خراماں چلنے کے دوران جُملوں کو ترتیب دیتے ہوئے پولیس اسٹیشن پہنچیں آرام سے کُرسی سنبھالیں ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائیں اور پھر دھیرے دھیرے بتانا شروع کریں کہ
“جناب بات دراصل یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ہمارے مذہبی جذبات مجروح کر دئیے ہیں لہذا آپ سے درخواست ہے کہ کچھ کیجیے “۔

درخواست کے بعد پولیس کے صاحب بہادر پہلے تو گہری سانس لیں پھر ہماری “مثبت” سوچ کے مطابق آزادی اظہار کے چند جُملے کہہ کر مکمل کاروائی کی یقین دہانی کرتے ہوئے باہر کے دروازے کی طرف اشارہ کر دیں اور بس پھر کیا ۔۔

ہر طرف ہمارے ڈنکے بجنے لگیں لوگ ہمارا ذکر کرتے ہوئے سَر دُھنیں کہ واہ جی واہ کیا ہی امن پسند لوگ ہیں اور یہ مسلمان کتنے زبردست اور شائستہ مزاج قوم ہیں کہ اُنکے سامنے اُنکی مقدس کتاب جلائی گئی اور یہ تھانے جا کر دو سطریں لکھوانے کے بعد نمازیں پڑھنے لگے
ویسے ایک بات تو بتائیے
خدا اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان مال اولاد تک قربان کرنے کا دعوٰی کیا صرف دعوٰی ہی ہے؟؟
خدا اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی ہر چیز یہاں تک کہ اپنے والدین سے بھی زیادہ چاہے جانے والی بات بھی بس بات ہی ہے ناں؟؟؟
غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں
غلامئی رسول میں موت بھی قبول ہے
جو ہو نہ عشقِ مصطفٰی تو زندگی فضول ہے
یہ اور اس جیسے کئی جذباتی جُملوں کو زیادہ سیریز لینے کی ضرورت تو نہیں ہے؟؟
مثال کے طور پر ذرا تصور کیجیے کہ شہر کے بیچ چوراہے میں چند بدمعاش افراد آپکی بہن کا دوپٹہ کھینچ لیں تو آپ کیا کریں گے؟
یا چند بااثر افراد دنیا کو تو چھوڑیں صرف آپکے ہی سامنے آپکی والدہ کیساتھ نازیبا حرکات کرنے کی کوشش کریں تو آپکا ردِّعمل کیا ہوگا ؟
کیا آپ تب بھی خاموشی سے پہلے اُنہیں اُنکی شیطانی حرکات مکمل کرنے دیں گے اور اُسکے بعد تھانے جا کر رپورٹ لِکھوائیں گے؟؟
نہیں ناں؟؟
چونکہ آپکی غیرت جاگ جائے گی ، خون کھول اُٹھے گا اور آپ یہ بات برداشت ہی نہیں کر پائیں گے کہ آپکی آنکھوں کے سامنے کوئی آپکی عزت پہ ہاتھ ڈالے، لہذااگر آپکا بس چلے تو ایسی غلیظ حرکت کرنے والے کی جان بھی لینے سے دریغ نہیں کریں گے
ایسا ہی ہو گا ناں؟؟
اور ہونا بھی چاہیے کہ یہ ہی غیرتمند ہونے کی نشانی ہے، ماں نے آپکو اس لیے پیدا نہیں کیا تھا، بہن نے آپکے لاڈ اس لیے نہیں اُٹھائے تھے آپکی سلامتی کی دعائیں اس لیے نہیں مانگی تھیں کہ کل کو آپ اُنہی کی عزت کے محافظ نہ بن سکیں۔
تو پھر ذرا سوچیے کہ وہ تو محض دنیاوی رشتے ہیں جن کی عزت و حُرمت کے لیے ہم جان پہ کھیلنے کو تیار ہوتے ہیں تو پھر کہاں خدا اُسکی کتاب اُسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُنکی حُرمت ، عزت اور تقدّس۔۔۔۔
جس شخص میں رتی برابر بھی غیرتِ ایمانی موجود ہو کیا وہ اپنے سامنے یہ سب ہوتا دیکھ سکتا ہے؟
کہ دو یہ گُستاخِ نبی سے غیرتِ مُسلم زندہ ہے
دین پہ مَر مِٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

اور یہی جذبہ ہمیں امانت کے طور پر اپنی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کرنا ہے اور اُنہیں سمجھانا ہے کہ ہم مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسی عشق کا تو فرق ہے کہ ہم اپنی پاک ہستیوں و مقدسات پر فلمیں و کارٹون نہیں بناتے اُنکا مزاح نہیں کرتے بلکہ اُنکے نام کی تکریم کی خاطر جانیں لُٹا کر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے زندہ قرار پاتے ہیں کیونکہ عشقِ مجازی ہو یا حقیقی اسکا تو پہلا اصول ہی یہ ہے کہ جس سے عشق کرو اُسکی عزت اپنی جان سے بڑھ کر یوں سمجھو کہ دنیا عَش عَش کر اُٹھے بصورتِ دیگر عشق میں مصلحتیں آڑے آنے لگیں تو عشق عشق نہیں رہتا شق ہو جاتا ہے
لہذا میری درخواست ہے کہ عشقِ الٰہی اور ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر موجودہ نسل کے ذہنوں کو مصلحت پسندی سکھانے سے گریز کیا جائے اور اسی مصلحت پسندی کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ایسی تمام تحریروں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو مسلمان نوجوانوں کو بے حرمتی قرآن و گستاخی رسول پر خاموش رہنا سکھائیں ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سب ایک عام سی بات ہو جائے گی۔

ذراسوچیے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے قرآن پاک کو جلتا دیکھ کر خاموش رہنے والوں کے پاس روزِ قیامت اللہ کو دینے کے لئے کونسا جواب ہو گا اور بتانے کو کیا عذر ہو گا جسکے باعث وہ خاموش تماشائی بنے رہے اور کُچھ نہ کر پائے؟؟
خدارا دین کے معاملے میں اپنے احساسات کو منجمد مت کیجیے بلکہ اپنے جذبہ ایمانی کی حرارت اپنی نسلوں میں منتقل کیجیے آنے والے تاریک دور میں اپنے حِصے کا چراغ جلا جائیے تاکہ نہ صرف اندھیروں کا مقابلہ کر سکے بلکہ دوسروں کے لئے روشنی کی کرن ثابت ہو شوریدہ ہوا کے خوف سے چراغ بغل میں دبا کر اندھیروں میں رہنے کی عادت ڈال کر اُن پر ظلم مت کیجیے کہ آگے جا کر جواب تو آپکو دینا ہی ہے، اپنا بھی اور اپنے کئے تمام اعمال کا بھی ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ ہمارا خاتمہ اپنے نام لیواؤں کیساتھ کرے مگر یہ مت بھولئیے کہ ہم تو اُس مذہب کو ماننے والے ہیں جس میں اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کا نام بلند رکھنے کی خاطر کربلا میں پورا کا پورا خاندان لُٹا دیا جاتا ہے مگر کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا جاتا ، مگر خیر۔۔۔عقل والے کیا جانیں کہ
عشق تو سر ہی مانگتا ہے میاں
عشق پر کربلا کا سایہ ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply