دھرتی جائے کیوں پرائے۔۔اعظم معراج/تبصرہ۔۔صائمہ انور

“دھرتی جائے کیوں پرائے؟”
ایک مقفیٰ اور مترنم سا نام دل کو چھو جاتا ہے اور جب اس کے مکمل معنی سمجھ آتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہےکہ  دھرتی کے اصل وارثوں کے ساتھ ایسا سلوک؟
کیوں؟
اور اس “کیوں” کا جواب اعظم معراج نے اس کتاب دھرتی جائے کیوں پرائے میں دے دیا ہے، کہ کس طرح “ہزاروں سال سے دریائے سندھ اور اس کے معاونین دریاؤں کےکناروں پر آباد ان دھرتی واسیوں کو جب ان کی دھرتی ماں سے ہزاروں سال پہلے آریاؤں نے ان کی زمینوں سے بےدخل کیا, تو کئی تو لڑ مرے, کچھ کو انہوں نے انتہائی  جنوب کی طرف دھکیل دیا، کچھ جنگلوں بیلوں میں بھاگ گئے، غاصبوں نے ان کو قابو کرنے کے لیے مذہب کے نام پر شودر بنا دیا ،اور پھر با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ان کے ذہنوں میں احساس کمتری بھر دیا”۔

 

دھرتی کے یہ بچے اس احساس کمتری کے بوجھ تلے دب کر نازیبا اور حقارت آمیز القابات کے ساتھ زندگی گزارتے رہتے اگر اعظم معراج کی دور اندیشی اس خطرے کو بھانپ نہ لیتی۔آپ نے اس خطے میں رہنے والے مسیحی جوانوں کو اس پستی اور اندھیرے سے نکالنے کے لیے ایک شمع “تحریک شناخت ” کے نام سے روشن کی ہے۔ جس کی لو میں بیٹھ کر موجودہ اور آنے والی نسلیں یہ جان سکیں  گی کہ اس دھرتی کے ساتھ ان کی نسبت کیا ہے، آزادی ہند، قیام پاکستان، تعمیر پاکستان اور دفاع پاکستان میں ان کے اجداد کا کردار کیا ہے ۔اور پاکستانی معاشرے میں ان کو درپیش مسائل میں سے کتنے غیروں نے پیدا کئے ہیں اور کتنے انکے اپنوں کی دین ہیں جو انکی کمزوریوں کی سوداگری میں انکی توانائیوں کا انھیں ادراک ہی نہیں ہونے دیتے۔

“دھرتی جائے کیوں پرائے” ایک کتاب نہیں بلکہ تاریخ ہے جس میں دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی پنجاب اسمبلی میں تقریر اور اس تقریر پر درختوں کے نوحے اسے منفرد بناتے ہیں ۔اور پھر ایس پی سنگھا کی 1948 میں پنجاب اسمبلی میں پڑھی گئی نظم جس میں دیہاتوں میں رہنے والے مسیحیوں کے دکھ درد نظر آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباواجداد نے اس وطن کی آبیاری کے لیے اپنے جثے سے بڑھ کر حصہ ڈالا، اور آج اس وطن میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔جوگندر ناتھ منڈل کا استعفیٰ اور نوشتہ مرگ پر پرندوں کی پنچایت۔ہر موضوع کو عرق ریزی کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے۔میں تمام مذہبی،سیاسی اور سماجی رہنمائی کے دعویداروں سے دست بستہ ملتمس ہوں ،کہ اپنے آنے والے کل کو محفوظ کرنے کے لئے اس کتاب کا خود بھی مطالعہ کریں اور دوسروں کو بھی تجویز کریں، تاکہ آپکی آنے والی نسلیں بڑے فخر اور شان کے ساتھ اس معاشرے میں جی سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صائمہ انور،  رضا کارتحریک شناخت گوجرانولہ
لیکچرار اپیکس کالج گوجرنوالہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply