پردیسیوں کے نام۔۔عامر عثمان عادل

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے

ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو !

قطر ائیر ویز کا طیارہ لاہور ائیر پورٹ سے پرواز بھرنے کو تیار تھا۔ مسافر اپنی مشکیں کسے بیٹھے تھے ۔ اور ہمارے اندر اتھل پتھل جاری  تھی ۔ طیارہ رن وے پر پھسلنے لگا اور ادھر دل تھا جیسے ڈوب ڈوب جا رہا ہو ۔ ایک خفیف سے جھٹکے سے جہاز نے زمین چھوڑی اور آسمان کی جانب بلند ہونے لگا ۔ اور ادھر بے اختیار اس احساس نے دل دماغ کو جکڑ لیا جیسے اپنا سب کچھ پیچھے رہ گیا ہو ۔ متاع جاں ، سکون ، جگر پاروں کی صورت بچے ، وفا شعار شریک حیات ، جگری دوست اور سب سے بڑھ کر رگ و پے میں لہو کی صورت دوڑنے والا وطن۔

دل کو بہت سمجھایا کہ گنتی کے چند دنوں کی بات ہے مگر وقت رخصت کی اس کیفیت سے نکلنا اپنے بس میں کہاں تھا . ایسا پہلی بار تو نہیں تھا ہو رہا ۔ جب بھی کوئی  بین الاقوامی سفر درپیش ہوتا ہے دل کی یہی حالت ہوتی ہے ۔ آنکھوں میں اشک لئے میں یہ سوچنے لگا کہ ہم تو محض ایک دو ہفتوں کے لئے پیاروں سے جدائی  اختیار کرتے ہیں وہ بھی تو ہیں جو مہینوں اور سالوں کے حساب سے اس عذاب کو سہتے چلے آ رہے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ بس کچھ دن کی عارضی جدائی  کے بعد پھر سے اپنے اہلِ  خانہ اور دوستوں سے آن ملیں گے تو ان پہ کیا گزرتی ہو گی جن کے مقدر میں سالوں کے حساب سے جدائی  لکھ دی گئی ہے ۔

کیا ہر بار اسی آگ میں جلنا پڑتا ہے انہیں؟ جب بھی یہ چھٹی کاٹ کر وطن سے کوسوں دور سفر پہ روانہ ہوتے ہیں ۔ جہاز کے اڑان بھرتے ہی ان کا دل کسی زخمی پرندے کی مانند پھڑپھڑاتا ہو گا اور آنکھوں سے اشکوں کی جھڑیاں رواں ،دل کی بھی خوب کہی صاحب دل تو یہ کہیں پیچھے ہی چھوڑ آتے ہیں کسی حویلی کے صحن میں ،گاؤں کی گلیوں میں،اور اس سمے ایک ایک کر کے ان کی آنکھوں کے سامنے وہ دلربا چہرے آتے ہیں جن کے ساتھ ان کی زندگی جڑی ہے ماتھے پر دعاؤں بھرے بوسے کے ساتھ رخصت کرتی ماں کا چہرہ ، شفقت پدرانہ سے زور سے سینے لگانے والے باپ کا چہرہ، آنکھوں میں اداسی افسردگی لئے اشکوں کو چھپاتی بیوی کا چہرہ ، آنگن میں اٹھکیلیاں کرتے بچوں کا چہرہ ، بابا کی گود سے چپکی ننھی پری کا چہرہ ،ان سارے چہروں کے تصور ، کانوں میں گونجتی آوازوں اور میٹھی یادوں کی کسک سے لڑتے لڑتے جہاز کے پہیے ایک نئی منزل کو جا چھوتے ہیں، اور یہ اپنی ہتھیلی کی پشت سے نم آنکھوں کو پونچھ کر اپنا سامان سنبھالے نڈھال قدموں سے اس قید خانے کی جانب بڑھنے لگتا ہے جہاں اب اسے پھر دن رات بیگار کاٹنا ہے ان کی خاطر جو فاصلوں کے اعتبار سے تو کوسوں دور مگر دل کے بہت قریب ہیں۔

آفرین ہے ان  پردیسیوں پر جو ہجر کا عذاب سہتے ہیں صرف اپنے پیاروں کی خوشیوں کی خاطر اپنا آپ مار دیتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ ایک کہانی وابستہ ہے کسی نے اپنی بہنوں کو عزت کے ساتھ رخصت کرنا ہے تو کوئی  چھوٹے بہن بھائیوں کے روشن مستقبل کی خاطر خود کو دن رات جلاتا ہے کسی کو اپنے ماں باپ کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانا ہے تو کسی کو برس ہا برس سے طاری غربت سے لڑنا ہے کسی کو بیوہ بہن کے یتیم بچوں کا سہارا بننا ہے اور کوئی  بیمار ماں باپ کے دوا دارو کی خاطر اوور ٹائم لگاتا ہے۔
پردیس کاٹنا آسان نہیں اور یہ قربانی صرف پردیسی ہی نہیں دیتا بلکہ اس سے وابستہ پیارے بھی کیسی مجبوریاں ہیں۔
کوئی  نو بیاہتا سہاگن جس کے ہاتھوں کی مہندی ابھی خشک نہیں ہوتی کہ اس پہ ہجر کا رنگ چڑھ جاتا ہے سیاں جی کی چھٹی ختم اور وہ برہا کی ماری کسی کی ماں ہر پل بیٹے کی سلامتی کے لئے مضطرب رب سے یہ فریاد کرتی رہ جاتی ہے کہ جیتے جی اس کا راج دلارا ایک بار مل جائے،توتلی زبان سے بابا کی رٹ لگانے والا ترستا رہ جاتا ہے کہ اپنے بابا کے کندھوں پہ سواری کرے۔
بابل کی دہلیز سے رخصت ہوتی بہن اس انتظار میں رہتی ہے کہ اس کا ویر سر پہ ہاتھ رکھ کر گھر سے وداع کرے لیکن بھائی  خود آ جاتا تو اس کے ہاتھ کیسے پیلے ہوتے،صاحب آفرین ہے ان پردیسیوں پر پہاڑ جیسا کلیجہ ہے ان کا،دوسروں کی خوشیوں کی خاطر اپنی ہر خواہش قربان کرنے والے یہ لوگ قابل قدر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شالا مسافر کوئی  نہ تھیوے
ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو !

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply