الفاظ کی اہمیت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ انسانوں نے صدیوں کے ارتقا سے ابلاغ کا جو موثر ترین ذریعہ اپنایا اور الفاظ کا ہی تھا۔ خیال ذہن میں جنم لیتا ہے اور الفاظ خیال کو مجسم کر دیتے ہیں۔ اب چاروں جانب لفظوں کے ذریعے مجسم ہوتے خیالات کااظہار کرنے والے موجود ہیں اور میری سماعتوں کو اس کرب سے گزارا جا رہا ہے کہ آج اگر اعزرائیل صور پھونک دے تو مجھے وہ آوازبھی فی زمانہ بولے جانے والے لفظوں کے مقابلے میں دلکش محسوس ہو۔ بدل لحاظی، بد تمیزی اور بد گمانی کو نیا عروج عطا کیا جارہا ہے۔ سیاسی انا کے خول میں مقید بونی روحیں کسی مخالف کا سچ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جھوٹی سیاسی انا کی تسکین کےلیے بدبودار الفاظ کو رواج دیا جا رہا ہے، ناگوار اور فتنہ پرور سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ چھوٹی سوچ کا انسان بڑا خیال پیدانہیں کر سکتا اور چھوٹا خیال پژمردہ لفظوں سے ہی بیان ہوتا اور ہو رہا ہے۔
لفظ گلاب بھی ہو سکتے ہیں اور کیکٹس بھی، لیکن المیہ یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ گلاب سارے مرجھا گئے اور سماعتوں کےچیتھڑے کرنے کو کیکٹس باقی رہ گئے۔ لفظ وعظ بھی ہیں اور مداری بھی۔ اور لفظ ہی ہیں جو تماشا لگا دیتے ہیں۔ وہی تماشا جو اب ہر روز لگایا جا رہا ہے۔ کسی دوسرے کی سیاسی عصبیت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ کسی کے جائز مقام کو تسلیم نہ کیا جائے تواپنی ہی ذات میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ وہ بے چینی فرسٹریشن میں بدل کر جب پراگندہ الفاظ کی صورت میں سب کے سامنے آتی ہے تو بولنے والے کا اُجلا چہرا بھی مسخ ہو جاتا ہے۔ پھر وہی سوچ اور وہی الفاظ جب دھرائے جاتے ہیں تو دھرانے والوں کے اجلے اورشفاف چہرے بھی مسخ ہوتے جاتے ہیں۔ ایک زومبی جب کسی نارمل انسان کو کاٹتا ہے تو وہ انسان بھی زومبی بن جاتا ہے۔ پھربظاہر وہ دوسرے انسانوں سے کتنا ہی مشابہت کیوں نہ رکھتا ہو لیکن وہ انسان نہیں رہتا۔
یہ شعور ہے جو ایک انسان اور جانور میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ شعور کے بعد وہ شعوری الفاظ جو انسان بولتا ہے وہ اس کو باقی انسانوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ فلسفی، شاعر، ناول نگار یا ڈرامہ نگار ان سب کو ان کے لکھے اور بولے ہوئے الفاظ ہی ان کو باقی لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ میں بھرے بازار میں پھیپھڑوں کا زور لگا کر کسی کو گالی دوں گا تو یہ گالی میری پہچان بن جائے گی۔ یہ گالی مجھے وہاں موجود سینکڑوں لوگوں سے ممتاز کر دے گی۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ اب میں ہذیان بکوں یا گالی دوں؟ میرے علم اورمرتبے کا تقاضا ہے کہ میں بات میں اپنا اسلوب مت بھولوں۔ میں اپنی تعلیم اور تربیت کو سیاسی محبتوں اور نفرتوں کی بھینٹ نہ چڑھاؤں۔ میرے اساتذہ نے، میرے والدین نے، میرے مطالعہ نے مجھے یہ نہیں سیکھایا کہ کسی پہ راہ چلتے آواز لگا کر ممتاز ہوں جاؤں۔
لیکن آپ سب کو کیا ہوتا جا رہا ہے؟ جھوٹی سیاسی انا کے خول میں دڑاڑ پڑتی دیکھ کر آپ کیوں بدبودار لفظ بولنے لگے؟ آپ نے یکسر اپناتعلیمی حسب نسب کیوں بھلا دیا۔ علاج کے لیے باہر جانے والا شخص آپ میں سے بہت سوں کی ملبوس سوچ کو ننگا کر گیا۔ اب آپاپنی پراگندہ سوچ کو بیمار ضمیر کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں فکر کی کوئی بات نہیں وزیراعظم بھی تو ایسا ہی سوچتااور بولتا ہے۔ اب سوچ کا ننگ اور فکر کا افلاس جو لفظوں سے عیاں ہے وہ کوئی مرض نہیں رہا۔ میں جس معاشرے میں جی رہاہوں وہ اپنی ذہنی اور دوسرے کی جسمانی بیماری کو بیماری سمجھنے سے ہی قاصر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں