پاکستان اور لیفٹ ونگ ۔۔۔ وقاص احمد

پاکستان میں ستر سال میں بدقسمتی سے لیفٹ کی کوئی ایک پارٹی بھی ایسی نہیں رہی جو مارکسسٹ پارٹی کی کم سے کم تعریف (یعنی لینسسٹ سٹالنسٹ ماڈل یا لینسسٹ ٹراسٹکائیٹ ماڈل) پہ پورا اترتی ہو اور پاکستان میں وفاق کی سطح پہ نہ سہی ،کم سے کم صوبائی سطح پہ ہی تھوڑا لمبے عرصے کے لئے وسیع تر تنظیمی ڈھانچہ قائم رکھ پائی ہو ۔
یہاں تک کہ سوشل ڈیموکریسی کے ڈھیلے ڈھالے مجروح شدہ تصور پہ قائم پیپلز پارٹی کی ابتدائی شکل بھی اپنی خام حالت سے بہت جلد بتدریج ایک بورژوا سیاسی پارٹی میں بدل گئی جو اب شاید سرمایا درانہ کنیزئین ماڈل پہ یقین رکھتی ہے ۔
اس مسلسل ناکامی کی بنیادوں میں دوسری وجوہات کے ساتھ سب سے بڑی وجہ لیفٹ کی شناخت کا علم اٹھائے لیڈران تھے۔ان لیڈران کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ایک وہ جو اکیڈیمیا اور ادب کا بھرپور حصّہ تھے مگر عملی کام کی طرف ان کی توجہ یا محنت اس درجہ کی نہیں تھی جو حقیقی سیاسی پارٹی کی تشکیل کے لئے ضروری تھی ۔دوسرے وہ جو جنہوں نے طلبہ سیاست سے جنم لیا مگر ان کا نظریاتی رسوخ اس درجے کا نہیں تھا۔نتیجہ یہ رہا کہ لیفٹ کو ایسے بہت کم افراد میسر رہے جو ان دونوں محازوں پہ بھرپور طریقے سے لڑنے کا ہنر جانتے ہوں ۔یہی وجہ رہی کہ لیفٹ کی سیاست عملی طور پہ جن افراد کے ہاتھ رہی ،وہ طلبہ سیاست کی حرکیات سے ہی نہیں نکل سکے اور قومی سطح کی پارٹی کی تشکیل کے لئے جس تدبر ،حکمت عملی اور مسلسل کوشش کی ضرورت تھی ،وہ ناپید رہی۔

طلبہ سیاست کے اثر کے مقید لیڈران اقتدار پہ قبضے کے لئے چور راستوں کے لئے سرگرم رہے ،اسی جلد بازی نے انہیں نظریاتی مفاہمتوں پہ مجبور کیا۔کبھی اپنی طاقت میں اضافے کے لئے فوج کی طرف ان کی نظر اٹھی تو کبھی بورژوا سیاسی لیڈران کو تحریک کے امین بناتے رہے ۔
اس حقیقت کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ 69 کی تحریک کو سمبھالنے کے لئے لیفٹ کی مین سٹریم پارٹی تو کجا ،کچھ دوررس سوچ اور صلاحیت کے لیڈران بھی دستیاب نہیں تھے اور تحریک پکے ہوئے پھل کی شکل میں ایوب خان کی کابینہ کے ایک فرد کی گود میں جا گری۔

لیفٹ اپنی اس ستر سالہ نا اہلی کے دفاع میں ریاست کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور مظالم کا بطور خاص ذکر کرتا ہے۔ مگر یہ نہایت حیران کن بات ہے کہ لیفٹ کے پاس اپنی قربانیوں کی کہانیاں سنانے کے لئے حسن ناصر کے علاوہ کوئی بڑی مثال نہیں ۔

یاد رہے کہ جماعت اسلامی بھی پاکستان میں رجعت پسند سوچ کی بنیادی نمائندہ ہونے کے باوجود تشکیل کے ابتدائی تیس سال تک ریاستی مخالفت کا شکار رہی ۔۔اس کے باوجود ستر کی دہائی تک جمیعت اور مدر پارٹی جماعت اسلامی نا صرف پاکستانی سیاسی منظر نامے پہ جگہ بنائے رہے بلکہ اپنے تنظیمی نظم کو بھی مضبوط بنیادوں پہ استوار رکھا ۔جماعت کو ریاستی کمک ستر کی دہائی کے بعد ملنا شروع ہوئی ۔اگر قربانیوں کی بات کی جائے تو جماعت اسلامی اور جمیعت غلط طور پہ ہی سہی مگر ایسے مخلص اور جوشیلے نوجوانوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے جنہوں نے بعد میں ہزاروں کی تعداد میں افغانستان اور کشمیر میں اپنی جانوں کی قربانی دی ۔ان نوجوانوں تک پہنچنے میں لیفٹ بری طرح ناکام رہا حالانکہ ان نوجوانوں میں سے بیشتر کا تعلق معاشرے کے پست طبقات کے ساتھ تھا جن کو فطری طور پہ لیفٹ کی مزاحمت کا حصّہ ہونا چاہیے تھا۔کیوں کہ لیفٹ کے پاس ہی وہ سلوگنز تھے جن کی طرف ایسے نوجوانوں کو کشش ہونی چاہیے تھی ۔وجہ یہی ہے کہ ان نعروں کو کبھی ان طبقات تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں ہوئی ۔

اس مظہر کی وجوہات میں جائیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ستر سے پہلے لیفٹ کی قیادت اپنے پڑوس میں موجود دو regional طاقتوں سے مسلسل دیکھی یا ان دیکھی حمایت سے مستفید ہوتی رہی ۔یہی وجہ تھی کہ اس عرصے میں لیفٹ کو پنپنے کے لئے سازگار ماحول میسر رہا مگر بدقسمتی سے اس ماحول سے اس لئے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا کہ پاکستان میں لیفٹ اپنی اندرونی عوامل سے کہیں زیادہ بیرونی حمایت پہ انحصار کرتا تھا ۔۔اسی انحصار نے لیفٹ کی تحریک میں کسی بھی قسم کی خود انحصاری کی خوبی کو پیدا ہونے سے نا صرف روکے رکھا بلکہ جب دو علاقائی سوشلسٹ طاقتوں میں نزاع پیدا ہوا تو پاکستان میں بھی اس کی وجہ سے لیفٹ میں شدید polarization پیدا ہوئی ۔
بعد میں سوویت کی پسپائی اور چین میں اصلاحاتی ایجنڈا کے فروغ نے جب لیفٹ کو بیرونی مدد سے محروم کیا تو طلبہ سیاست میں مقید رہنما بھی غیر نظریاتی پن ،بے صبری اور چھوٹے چھوٹے مفادات سے محرومی کے باعث مایوسی اور بددلی کا شکار ہوئے جس سے تائبین اور این جی او کلچر کے مقلدین کا ایک بڑا طبقہ پیدا ہوا ۔جس نے لیفٹ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔باقی جو بچے ،انہوں نے سرمایا دارانہ لبرل فکر سے ہاتھ ملا لیا ۔گنے چنے باقی بچے لوگوں میں کچھ فل ٹائمر تنظیم اور روزی روٹی میں فرق بھول گئے۔اب حالات یہی ہیں کہ مسلسل زوال شدہ معاشرے میں موجود بے چینی کے سبب لیفٹ کے نظریات آج بھی نوجوان کو متوجہ کرتے ہیں مگر اوپر بیان کئے گئے عوامل کی بنا پہ رہبری کا بوجھ بھی اسی نوجوان کے کاندھے پہ آ گیا ہے ۔یہ تحریر اسی نوجوان سے با مقصد مکالمہ کی کوشش ہے کہ پاکستان میں لیفٹ کی تاریخ سے حاصل شدہ اسباق کو سامنے رکھا جائے ۔میرے خیال میں ماضی سے جو سیکھا جا سکتا ہے ۔اس میں تین نکات واضح ہیں۔

ایک یہ کہ جدید دور میں تحریک کو قومی بنیاد پہ خود مختار بنایا جائے جو اب کسی بھی ہمسایہ سوشلسٹ طاقت کی غیر موجودگی کی وجہ سے آسان ہے نیز ہر قسم کے بیرونی عناصر یعنی این جی او فنڈنگ یا براہ راست بیرونی فنڈنگ کی کسی بھی شکل سے پرہیز کیا جائے ۔

دوسرا یہ سمجھا جائے کہ لیفٹ کا بنیادی کام ابھار پیدا کرنا نہیں بلکہ ایسی پارٹی کا قیام ہے جو کسی بھی عوامی بے چینی سے ابھرتی تحریک کو سمبھال سکے ۔۔اگر آج پھر شور شرابہ سے کوئی تحریک جنم لے بھی لے تو لیفٹ کی کوئی پارٹی ایسی صلاحیت نہیں رکھتی کہ اسے انقلاب میں بدل سکے ۔۔نتیجہ پھر سامراج کے حق میں اور انارکی کی صورت نکلے گا ۔

تیسرا ،نظریات اور مقاصد پہ ہر طرح کے سمجھوتوں اور revision سے پرہیز کیا جائے ۔سمجھوتوں کی نفی کی ایک شکل کم سے کم مین سٹریم لیفٹسٹ پارٹی کی تشکیل تک بورژوا پارٹیوں سے اتحاد کا کلی انکار ہے ۔اسی طرح نام نہاد اصلاحات کا راستہ انقلاب کے سفر کے آخری مرحلے یا انقلاب کے مکمل ہونے کے بعد سرمایا دارانہ دنیا میں بقا کے سوال سے جڑا ہے ۔جس مرحلے تک پہنچے ہی نہیں ۔اس کی بحث دراصل سرمایا دارانہ نظام میں چند سلوگنز کی بنیاد پہ اپنی جگہ پیدا کرنے کے مقصد کو پورا کرنے کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔اس لئے مارکسزم میں اصلاحاتی ایجنڈا کو مسترد کرنا دوسری شکل ہے ۔

آخری بات یہ کہ تاریخ سے واضح ہے کہ انقلابی پارٹی کی تعمیر مشکل ترین اور کٹھن ترین کاموں میں سے ایک ہے ۔یقیناً اس کام کے لئے بے پناہ عزم ،ہمّت ،اور قربانیوں کی ضرورت ہے ۔اسی لئے گنتی کی چند پارٹیاں ہی دنیا میں آج تک اپنا تشخص قائم رکھنے میں کامیاب رہی اور نہایت کم انقلاب کی منزل پا سکیں ۔۔مگر جب فیصلہ کر لیا کہ یہی مشکل اور اہم ترین کام کرنا ہے تو پھر اس نوعیت کی ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کی صلاحیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : یہ گفتگو ایک غیر کیمونسٹ فرد کے ذاتی خیالات ہیں۔جو کسی بھی طرح خود کو لیفٹ کی تاریخ پہ اتھارٹی نہیں سمجھتا ۔یہ محض باہر سے نظر ڈالتے ایک عام فرد کا سادہ سا تاریخی تجزیاتی موقف ہے۔اسے لیفٹ کے اندرونی دائرے کی بحث کے طور پہ سمجھنے سے گریز کیا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply