المیہ ہمارے پشتونوں کا۔۔۔عارف خٹک

میرے ایک رشتہ دار کی اپنی ماموں زاد سے شادی ہوئی۔اُن کے دونوں بچے معذور پیدا ہوگئے۔ پتہ چلا کہ ننھیال کی طرف سے موروثی بیماری جو اُن کی ماں میں موجود تھی۔ یہ سب اُسی کے کارنامے ہیں۔اس سب کو جاننےکے باوجود اُن کی شادی کروائی گئی۔ اب میرا رشتہ دار دوسری شادی کرکے ایک نئی دُشمنی کا آغاز اپنے ہی گھر سے کرچُکا ہے۔

ویسے ایک المیہ تو میرے اپنے گھر میں بھی ہے۔ پتہ نہیں اس کا الزام کس پہ دھروں؟
لیکن خیر آئیے آپ کو بتاتے ہیں،کہ  جاہلانہ سوچ اور فرسُودہ رسم و رواج کیا کیا نفسیاتی اثرات ہم پر مرتب کرتی  ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے پشاور اور کوئٹہ کے پشتونوں میں عام طور پر خاندان والوں کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے،کہ بالغ ہوتے ہی چچا زاد یا ماموں زاد بہنوں کے ساتھ فی الفور شادی کروا دی جائے۔ہم پشتون لوگ عام طور پر مُشترکہ خاندانی نظام میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں سات سات چچا بمعۂ اہل و عیال مل جُل کر رہتے ہیں۔ بچپن سے ہی ہم اپنی سگی بہنوں اور چچا زاد بہنوں میں فرق نہیں کر پاتے۔ چچا زاد بھائی یا بہن کی پیدائش پر ویسی ہی خوشیاں منائی جاتی ہیں،جو اپنے سگے رشتوں پر مناتے ہیں۔ لہٰذا اپنی بہن یا چچازاد بہن کو شلوار پہنانا،اُن کو گود میں اُٹھا کر باہر کھیلنے لے جانا، بازار لے جا کر اُن کو چیزیں دلوانا، عید پر اپنی بہنوں کےساتھ ساتھ اُن کے لئے بھی چُوڑیاں،بُندے، مہندی، پراندے سمیت ہار سنگھار کا سارا سامان لینا ہمارا فرض ہوتا ہے۔ بہن سے زیادہ چچازاد کے ناز اُٹھانا، رُوٹھنااور منانا گویا ہم بھائیوں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے بہنیں بڑی ہوتی جاتی ہیں،تو ان کو اچھے بُرے کی تمیز سکھلانا یہ بھی ہماری ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔
بہنوں کو کوئی غیر بندہ ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھے۔اس واسطے ہم ہر وقت ایک بھرا ہوا ریوالور ساتھ لےکر گُھومتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ زیادہ تر ہماری اپنی جوانیاں بہنوں ہی کی نظر ہو جاتی ہیں۔
یوں ہی رشتے نبھاتے،ایک دوسرے کو رشتوں کا مان دیتے ہوئےدن گُزرتے چلے جاتے ہیں۔اٹھارہ سال بعد ایک دن شام کھانا کھاتے ہوئے جب آپ کو دسترخوان پر اپنی بہن تو نظر آجاتی ہے۔لیکن چچا زاد بہن گُل بانو کی غیر موجودگی محسوس ہونے لگتی ہے۔بےتابی سے گُل بانو کا پوچھنے پر سب آپ پر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔اور آپ ہونقوں کی طرح سب کا مُنہ دیکھنے لگ جاتے ہیں۔آپ کی حالت پر ترس کھا کے اماں آپ کو بتا دیتی ہیں،کہ بیٹا گُل بانو اب تُم سے پردہ کرے گی۔کیوں کہ وہ تیری بیوی بننے جارہی ہے۔
یہ ناروا سلوک دیکھ  کر انسان پہلی بار چرس کے سوٹے لگانے کے لئے پاگل ہونے لگتا ہے۔تاکہ خود کو اس عذاب سے دُور کر سکے۔جو بہن نُما بیوی کی صُورت میں اُس پر مُسلط کیا جانے والا ہے۔جو لڑکی اُس کی گود میں پلی بڑھی۔ جس نے ہمیشہ اس کو بھائی جان بول اور سمجھ کر ایک بڑے بھائی کا مان دیا۔ جس کو کبھی بہن سے کم نہیں سمجھا،اب وہ اس لڑکی کو بیوی کے رُوپ میں کیسے قبول کرسکتا ہے۔وہ اگر انکار کرتا ہے،تو یہاں پر پھر اُس کو پشتون ولی کے سبق سکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں۔ کہ ہم اپنی بیٹیاں پرائیوں میں نہیں بیاہتے۔ہم جائیداد میں کسی غیر کو حصہ دار نہیں بنا سکتے۔ اپنی بچی ہے،نظروں کے سامنے پلی بڑھی ہے، سو گھر کی عزت گھر میں ہی رہے،تو اچھی بات ہے،وغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کے دس بہانوں اور ڈھکوسلوں سے آپ کو بہلانا خاندان کے ہر خاص و عام بُزرگ پر فرض ہوجاتا ہے۔وہی بزرگ جو عام حالات میں کبھی آپ سے سیدھے مُنہ بات تک نہیں کرتے۔یا وہ اضافی بزرگ جن کے لئے دُکان سے نسوار کی پُڑیا تک لانے سے بچوں کو بیزاری محسوس ہوتی ہے۔وہ بھی اچانک سے ترقی کرکے ناصحین کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں۔بُرے بھلے ان سب بڑوں کے لہجے کی مٹھاس مٹھائی کے شیرے سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔لیکن تب تک،جب تک اُن کو آپ میں سعادت مندی کے جراثیم نظر آتے رہتے ہیں۔ورنہ اگر کوئی میرے جیسا باغی ہو۔تو اماں دُودھ نہ بخشنے اور ابا اماں کو چھوڑنے تک کی دھمکیوں سمیت ہر کمزور گُر آپ پر آزما لیتا ہے۔خیر جیسے تیسے کرکے شادی ہوجاتی ہے۔ گُل بانو آپ کی بہن سے بیوی کا رُوپ دھار لیتی ہے۔اور زندگی یکسانیت کا شکار ہوجاتی ہے۔اب اگر دونوں باہمت ہیں،اور اس حادثے کے بعد بھی مورال ڈاؤن نہیں ہوا دونوں کا،تو بچے پیدا کرلیتے ہیں۔وگرنہ میرے چچا زاد بھائی کی طرح پینتیس سال شادی شُدہ رہ کر بھی کنوارے ہی رہ جاتے ہیں۔ میں روز جب اپنی بڑی بہن کا سُتا ہوا چہرہ اور اپنے بھائی کی مایُوس آنکھیں دیکھتا ہوں،تو اپنے بُزرگوں کے خلاف سینہ سُپر ہونا اپنا حق اور فرض دونوں ہی سمجھتا ہوں۔
آپ بھی اپنے بڑوں کی بے جا ضد،اکھڑپن اور انا پرستی کا مقابلہ کریں ۔اور اپنے ساتھ یہ عہد کریں،کہ اپنی اولاد کو ان رسُومات کی بھینٹ ہرگز نہیں چڑھائیں گے۔جس کے نتیجے میں معذور اور اپاہج اولاد کا دُکھ جھیلنا ساری عُمر کے لئے آپ کا نصیب بن جاتا ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”المیہ ہمارے پشتونوں کا۔۔۔عارف خٹک

  1. اففففف …پھر ایک اور اندر تک جھنجوڑ دینے والی تحریر.. کتنا کچھ چھپا رکھا ہے اپنی پٹاری میں لالہ عارف خٹک- پاڑہ چنار والی اس ایک تحریر میں ڈنڈی مارنے کے علاوہ باقی سب تحریریں ہی لاجواب ہیں …

    1. عارف صاحب، ایک بہترین تحریر لکھنے پر بہت بہت مبارک ہو۔ کاش کے میرے ملک میں بسنے والے تمام لکھاری دوسرں کے طرز زندگی ، معاشرت اور رہن پر تنقید کی بجائے اپنے رہن سہن، معاشرت اور طرز زندگی پر ایسی تنقیدی تحریر کریں تو اپنی اپنی قومیت پر بہت بڑا کرم کریں گے۔
      ویسے آج کے پختون میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ وہ پچاس پہلے کی طرح نہیں سوچتے مگر جب کہ بات کچھ ہوتی ہے اسے قومیت اور خاندانی وقار کی طرف موڑ دی جاتی ہے۔ تو پھر عموماً ان کا رویہ وہ ہی برسوں پرانا والا ہوتا ہے۔
      مگر ان سب باتوں کے باوجود جو میرا پختونوں کے ساتھ تجربہ ہے۔ میں بڑے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ اگر پختونوں کو کھل کر موقع مل جائے ۔ اور انکو تعلیم کے اعلی ذرائع مل جائیں تو وہ ناصرف اپنی تقدیر بدل لیں گے ۔ بلکہ پاکستان کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ کیونکہ ایک تو محنتی بہت ہیں اور دوسرے چھوٹے بڑے کام کرنے میںشرم محسوس نہیں کرتے۔
      کوئی یہ نہ سمجھے میں کوئی پختون ہوں۔ میں ایک اردو اسپیکنگ ہوں۔

Leave a Reply to غیور شاہ ترمذی Cancel reply