خان کا نیا نعرہ کیا ہوگا؟۔۔۔سلمیٰ اعوان

دو تین دن پہلے جیسے ہی میاں نواز شریف کی ائیر ایمبولینس ہوا میں بلند ہوئی مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ہماری حکومت کے کرپشن کے خلاف جنگ کے غبارے میں سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے پر قرائن سے لگتا ہے کہ میا ں کا یو ں باہر جانا تحریک انصاف اور اس کی حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ حالات کے اندر جھانکا جائے تو اس کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔سب سے بڑی تو یہی ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ کے جس بیانیے پر اس حکومت نے اپنی تحریک چلائی، لوگوں کی توجہ کھینچی ،اُن کی حمایت سمیٹی اور کامیاب ہوکر تخت پر بیٹھی ۔مگر کوئی ٹھوس عملی کام کرنے کی بجائے لفظوں ،تقریروں، کرپشن کرپشن کی رٹ لگانے میں ہی ساری توانیاں صرف کرتی رہی ۔کیا ہم نے یہ نہیں دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ تمام ادارے یا ایجنسیاں جنھوں نے اس کرپشن مہم میں بنیادی کردار ادا کرنا تھا کس معیار کے تھے۔ اب اُن کی اہلیت کے بارے کیا حاشیہ آرائی کروں بہتر ہے بات کرنے سے چپ ہی بھلی۔ مجھ ایسی سادہ لوح کو بھی اتنا تو پتا ہے کہ White Collar کرائم کو پکڑنے کے لیے نہایت ہی قابل اور اہل افراد کی ضرورت ہوتی ہے جن کا علم خالی معاشیات تک ہی محدود نہ ہو بلکہ وہ ٹیکنالوجی اور منی لانڈرنگ کی جدید ترین ٹیکنیکی سے بخوبی واقف ہوں۔ اب آپ ان کی احتسابی ٹیم پر بھی ذرا نظر ڈالیے اور بتائیے کہ آپ کو ان میں ایک بھی ایسا نابغہ نظر آتا ہے جو مندرجہ بالا صلاحیتوں کا حامل ہوبس ذاتی جمع خرچ کبھی سوئیس بنکوں میںلوٹی دولت کے خواب دکھاتے ہیں اور کبھی احتساب کے نتیجے میں اربوں نکلوانے کی باتیںکرتے لیکن کارکردگی صفر +صفر=صفر

بندہ تو بعض اوقات بے اختیار خود سے کہتا تھا۔ کہ کیاانھوں نے فضول رٹ لگا رکھی ہے۔ کوئی ٹھوس کام کرنے کی بجائے بلاوجہ ہی لوگوں کو پاگل اور بیوقوف بنا رہے ہیں ۔سچی بات ہے اب یہ حکومت کی اس محاذپر ناکامی اور نا ہلی تو پہلے ہی عیاں تھی مگر شاید والدمعاملہ بھی کہیںکسی امید کی ڈوری کے ساتھ بندھا ہواٹکتا تھا۔ میاں جی کی اڑان نے اُسے ختم کردیا۔ اب سوال ہے کہ حکومت کے پاس کیا چیز باقی ہے جس پر اس نے ہانک لگا کر اپنا منجن بیچنا ہے۔

دوسرا پہلو جو شاید ظاہر اً اتنا اہم نہ ہو لیکن یہ حقیقت میں کافی وزن رکھتا ہے ۔حکومت اور مقتدارات کے درمیان تعلقات کی نوعیت۔ابھی تک تو چلیے کسی نہ کسی طرح کچھ اختلاف، کچھ نکتہ چینی، کہیں تھوڑی سی مفاہمت، کہیں درگزری سے معاملہ چل رہا تھاگھسٹ رہا تھا۔مگر اب کیا ہو گا؟ کون سا طرز عمل اپنایا جائے گا؟ مرضی کے خلاف ریلیف تو دینا پڑا۔ کچھ آثار تو جناب وزیراعظم کی حویلیاں مانسہرہ موٹروے کے افتتاح پہ اُن کی تقریر سے ہی واضح ہو رہے تھے۔ لہجے میں جیسے آگ برس رہی تھی جو حکمران کی فراست کی کمی کی عکاسی کرتی تھی۔ جناب خان صاحب نے عشق تو بہت سے کیے ہوں گے اتنا تو اُن کو بھی پتا ہو گا کہ محبوب کا مزاج بدلتے دیر نہیں لگتی اور محبوب بھی اتنا کڑوا کہ اللہ کی پناہ ۔مزید رائے یہ ہے کہ محبوب کے ایک اشارے پہ قربان ہونے کے لیے یہ ہماری سیاسی اشرافیہ لائن لگا کر کھڑی ہوئی ہے۔اگر کوئی شک ہوتو میاں صاحب کی اڑان دیکھ لیں ۔تو ان حالات میں اگر انھوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تویہ رومانس کتنا عرصہ اور چلے گا۔ عوام کا مہنگائی نے حشر کردیا ہے۔

کاش کرپشن کے خلاف ہی اس جنگ کو انھوں نے صحیح طریقے سے لڑاہوتا تو شاید آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔ کہتے ہیں کہ لڑائی کے بعد جو مُکّایاد آئے وہ اپنے ہی منہ پہ مار لینا چاہیے۔ تو اس حکومت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے اب اگر چوروں ڈاکوؤں اورلٹیروں سے لوٹی ملکی دولت کا ایک روپیہ بھی برآمد نہیں کراسکے تو نہ سہی۔ کم از کم اس احتساب اور کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹنا تو بند کردیں اور کچھ توجہ گورنس اور حالات کو بہتری کی جانب لے جانے پر توجہ مذکور کریں۔ اب بھی اگر ایسا نہ ہوا تو ان کا انجام بتانے کے لیے کسی آئین سٹائین کے دماغ کی ضرورت نہیں۔ابھی بھی اگر یہ نہ سمجھے اور اِدھر اُدھر اول فول ہانکتے رہے کام اور Performanceاور ڈیلیوری پہ زور نہ دیا تو خالی کرپشن کے خلاف جنگ کے نعرے سے تو اگلے چھ مہینے بھی نکالنا مشکل نظر آرہا ہے ۔ رومانس کب تک چلے گا۔
اب آخر میں کہنا تو یہی ہے کہ 72سال میں ہماری اشرافیہ نے تمام تجربات کر لیے ۔ہمارے مقتدر ادارے مکمل مارشل لا سے لے کر ہائی برڈ جمہوریت تک سب ذائقوں سے آشنا ہوگئے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تلخ اور تباہ کن نتائج ہر دفعہ بھگت کون رہا ہے؟ بیچارے عوام ،مظلوم عوام۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اب یہ جان لینا چاہیے کہ سسٹم روک کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی بجائے اگر حکومتیں منتخب کرنے کا حق صرف عوام کو سونپا جائے تو وہ ایک دو بار کی غلطی کے بعد خودہی حکمرانوں کا تیا پانچہ کرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی بالغ ہوتی جائےں گی۔
جیسے گندے پانی کو شفاف کرنے کا عمل مختلف مراحل سے گزرتا گزراتا بالآخرپانی کو پینے کے قابل بنادیتا ہے ۔یہی مثال سیاسی حل کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply