خوف۔۔مختار پارس

خوف یقین کا متضاد ہے۔ خوف اگر دل میں ہو تو مردانگی بھی معدوم ہو جائے۔ نظر میں ہو تو نظروں سے گرادے اور اگر ذہن کے دریچوں میں ہو تو انسان کو خاک کر دے۔نظام یہ ہے کہ دلیروں نے ہمیشہ تاریخ لکھی ہے۔ خوفزدہ لوگ تو ہر دور میں پابند سلاسل رہے، کبھی تقصیر کے اور کبھی تقدیر کے۔ ڈر دراصل ایک حیوانی جبلت ہے جس کی بنیاد لا علمی کے وسیع و عریض ساحلوں پر محیط ہے، جہاں جہالت اور وسوسوں کی لہریں ٹھاٹھیں مارتی ہیں۔ اندھیروں سے ڈرا سی لیے لگتا ہے کہ دبیز اور گہرے سیاہی مائل سایوں کے اس پار کچھ نظر نہیں آتا۔ ڈرتا صرف وہ نہیں جو جانتا ہے۔ جو جانتا ہے اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور جانتا وہی ہے جس کے دل میں خداکا خوف خیمہ زن ہوتا ہے۔ جس کے دل میں خدا کا خوف نہیں وہ کچھ نہیں جانتا۔ جسے خوفِ خدا نہیں اسے خدا پر یقین نہیں۔

جسے حکم اذاں ملے اور اسکے قدم لرز جائیں تو پھر اسے اور کیا کہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم خاک نشینوں کو یہ سمجھ درکار ہے کہ کہنا کیا ہے۔ کسی کو غلط بات سمجھا دی تو جرم کی سزا مکافات۔ رہنمائی کرنیوالا غلط راستہ نہیں بتاسکتا۔ راستوں پر چل نکلنے والے منزلوں کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مسافروں کو رہبر مل ہی جائیں تو دونوں کی منزل آسان اور نہ ملیں بات آرزوئے شوق پہ آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ عقیدت کے سفر میں واپسی نہیں ہوتی اور اگر واپسی نہیں تو پھر قدموں میں لرزاہٹ کیسی؟ عقیدہ ہو یا عقیدت، ویرانہ ہو یا جنگل، صحرا ہو کہ شہر، مقصدِ زیست غمِ عشق ہے اور مقام راہ میں کو ئی جچتا ہی نہیں۔ کون ہو گا جو اس شیشہ گری میں آنکھ بھی جھپکے گا۔

ڈر کی مثال ایک زینے کی سی ہے جس کی سیڑھیاں کہیں نہیں لے جاتیں۔ اوپر خلاء ہے اور نیچے پاتال۔ ڈر دل سے نکل جاتا ہے جب خلاء میں سدرۃ المنتہا کی خبر ملتی ہے اور خوف آنکھ میں سے تب مرتا ہے جب خاک نشین ہونا سعادت نظر آتی ہے۔ان حدوں کو پار صرف قوت والے کر سکتے ہیں باقی تو سب سیڑھیاں اترتے چڑھتے رہتے ہیں یہ سفر اگر کروڑوں سال پر محیط ہو تو بلیک ہول کہلاتا ہے اور اگر پلک جھپکنے میں طے ہو جائے تومعراج بن جاتا ہے۔ معراج کے دروازے بندتو نہیں ہیں۔ زمانے کو مٹھی میں ملا کر ریت کے ذرے اندھیری راہوں میں اچھالیں گے تو کہکشاں وجود پذیر ہو گی۔ ہر ذرہ آفتاب بن کر چمکے گا تو عالمِ خوف میں ڈوبی عدم آباد کی طرف دیکھتی آنکھیں شاید نورِ بصیرت کو پہچان کر جگمگااٹھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرا س سے لگتا ہے جو ہمیں ہمارے خود پر اختیار سے محروم کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ جو ہمیں خود سے بیگانہ نہ کر دے وہی آقا ہے۔ جن نعمتوں سے ہم محبت کرتے ہیں ان سے جدا ہونے کے احساس سے ڈرتے ہیں اور جو ان انعامات کو عطاکرنے کی قدرت رکھتا ہے کیا اتنا بھی حقدار نہیں کہ اس سے ڈراجائے۔ اولاد جب اپنے ماں باپ سے ڈرتی ہے تو رحمتِ خداوندی کیا ارض و سمامیں جوش میں نہیں آتی ہو گی؟ ڈردلوں میں محیط ادب کی لہروں کے موجزن ہونے کا نام ہے۔ یہ تسلیم ور ضا کے طلسم میں ہو شربا سکوت کو کہتے ہیں جو آنکھ اٹھا کر تلملاہٹ کا روادار نہیں ہو سکتا۔ نہ عطا کے لمحوں میں انکار ہو سکتا ہے اور نہ خفا ہونے پر کوئی اعتراض۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈراس سے لگتا ہے جس سے محبت ہوتی ہے۔مرشد ہو یا محبوب، سا جد ہو یا مسجود، محبت کے بغیر تو کوئی کہیں کا بھی نہیں۔ خدا کا مقام نہیں کہ حزن و ملال سے اسے کوئی اندیشہ جمال ور جال ہو۔ لیکن تخلیق آدم کے سمے جو محبت کا ر فر ماتھی اس میں تو قعات تو بہرطورتھیں۔ جلاوطنی یو نہی تو نہیں ہوئی تھی۔ ہم سب خود اور خدا کے پیروکار ہیں۔ خود کو تخلیق کرتے ہیں اور خدا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ خود سے محبت کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی کہتے ہیں کہ ہم سے محبت واجب ہے۔ اپنی دنیاؤں کو کن فیکون کرنے میں ایک ساعت نہیں لگاتے۔ پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے اور اپنی تخلیق کردہ دنیاؤں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جن محبتوں نے ہمیں آ غاز دیا ہوتا ہے انہیں فراموش کر   بیٹھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آسمانوں سے زمین تک کے سفر میں محبت ہے۔ حقیقت یوں نہیں ہے کسی نے کسی سے کوئی توقع ضرور لگارکھی ہے۔ اگرچہ اس کو اس توقع کی ضرورت بھی نہیں مگر پھر بھی کہانی تو ایسے ہی لکھی گئی ہے۔ محبت کی تلاش میں ز مین کی خاک چھاننے والوں کو واپس جانا ہوگا۔ عید آتی ہے تو پردیسی خوش ہو جاتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہوں انہیں ہر خوف کی چادراتارکر واپس اپنے گاؤں جانا ہوتا ہے۔ وہ گاؤں جہاں سے وقت نے انہیں نکالاہوتا ہے اور جہاں آغاز محبت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خوف۔۔مختار پارس

Leave a Reply