فاش ازم کی سیاست۔۔آصف وڑائچ

محسود پارٹی کا ‘پی ٹی ایم’ میں تبدیل ہونا، افغانستان کا بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارت کا پاکستان پر حملہ کرنا اور اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا۔ پھر ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کے پیچھے لگنا، بھگوڑے سرداروں کا مغربی ممالک میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مہم چلانا، راتب یافتہ دانشوروں کا سوشل میڈیا پر مخصوص بیانیے کے ساتھ پروپیگنڈا کرنا، مولانا فضل الرحمن کا ریاست کے اندر مدرسانہ  ریاست قائم کرتے ہوئے ڈنڈا بردار فوج تشکیل دینا، لبرل اور بعض مذہبی ٹھیکداروں کا ریاست کے خلاف اکٹھ اور اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر موجود بعض ویڈیوز، مختلف شخصیات کے انٹرویوز اور آرٹیکلز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چند دہائیاں قبل انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے اس ریجن کو تبدیل کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس ایجنڈے پر آج بھی کہیں نہ کہیں کام ہو رہا ہے۔

امریکیوں اور ان کے زر خرید غلام عربوں نے افغانستان کے اندر جو خونریز کھیل کھیلا اس سے پاکستان کے قبائلی عوام کو یقیناً مصائب اور تکالیف اٹھانا پڑیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ان غیر معمولی حالات کے تحت ماضی میں ہمارے بعض فوجی جرنیل بھی لالچ یا بحالتِ مجبوری اس کھیل کا حصہ بنے رہے۔ قبائلی عوام نے جو دکھ جھیلے ہیں ان دکھوں کا مداوا یقیناً ہونا چاہیے اور آج ریاست اس پہ تندہی سے کام کر رہی ہے اور اپنی ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے میں بھی انتہائی سنجیدہ ہے لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ نسل پرستی، نام نہاد لبرل ازم یا مذہب کے نام پر لوگوں کو بہکانے یا مدرسہ گردی کے  ذریعے ریاست کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اگر کوئی محروم طبقہ اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا حق ہے مگر سمجھنا چاہیے کہ اس کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ دیگر محروم طبقات کی مجموعی بھلائی کے بجائے اگر کوئی محض ایک مخصوص نسل کے نام پر ہی سیاست کرتا رہے یا مذہبی جذبات کو ابھارتا پھرے تو آج کی تاریخ میں ایسا کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ جائز مسائل ریاست کے خلاف نفرت، بغض اور ہیجان پیدا کرنے سے حل نہیں ہوتے بلکہ حکومت کے ساتھ پُر امن رابطے کے نتیجے میں حل ہوتے ہیں۔

افغانستان یا دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر اگر کوئی پاکستان کو گالی دے گا تو اسے بھی پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جائیں گے بلکہ یہاں سے بھی کرارا جواب ملے گا۔ پاکستان کو ایک بار پھر ٹوٹتا دیکھنے کے خواہش مند سمجھ لیں کہ اس بار وہ یقیناََ ناکام ہونگے کیونکہ موجودہ جیوسٹریٹجک حقائق اور ملک کا عسکری و عوامی عزم آج اس نہج پر ہے کہ انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ پاکستان کا ایک انچ بھی ادھر سے ادھر نہیں کر سکتی۔ لیکن پھر بھی اگر آپ نفاق کے نعروں سے باز نہیں آئیں گے تو پاکستان معاشی طور پر تھوڑا متاثر ضرور ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھیے کہ بھلا آپکا بھی نہیں ہو گا بلکہ آپکا نقصان زیادہ ہو گا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ‘پشتون تحفظ موومنٹ’ اور ‘انصار اسلام’ جیسی فاشسٹ جماعتیں دو چار سالوں میں اپنے ہی افراد کے ہاتھوں ختم ہو جایا کرتی ہیں مگر مرکزی ریاستیں عوام کے مجموعی شعور کی بنا پر قائم رہتی ہیں لہذا سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیجیے کہ آپ کو مسائل کا پُر امن حل چاہیے یا مزید بگاڑ۔ مسائل کا حل کسی لبرل، مذہبی یا فاشسٹ جماعت میں نہیں، مسائل کا حل صرف قانون کی بالادستی میں ہے۔ بینظیر بھٹو شہید کو یاد کیجیے جنہوں نے کبھی قوم پرستی کی سیاست نہیں کی تھی یہی وجہ ہے کہ اہلِ پنجاب نے ان کو دو مرتبہ ملک کا وزیراعظم منتخب کیا، اس کے برعکس الطاف حسین کو دیکھ لیجیے جسے قوم پرستی کی سیاست ہی نگل گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

فی الواقع پاکستان میں موروثی سیاست، فیوڈل کریسی، مُلاّں ازم اور فاش ازم آخری سانسیں لے رہے ہیں لہذا ایسے شدت پسند دانشور جو آگ بھڑکانے کی کوششیں کرتے ہیں وہ خاطر جمع رکھیں یہ71 ہرگز نہیں ہے آج حالات یکسر مختلف ہیں لہذا ان کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں گی۔
پاکستان زندہ باد!

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply