اگر کیوبا کر سکتا ہے۔۔جاوید چوہدری

میاں نواز شریف علاج کے لیے لندن چلے گئے‘ آصف علی زرداری بھی چلے جائیں گے اور چودھری شجاعت حسین‘ جہانگیر ترین‘ محمد میاں سومرو‘ حفیظ شیخ اور شاہ محمودقریشی بھی علاج اور فزیو تھراپی کے لیے جرمنی‘ فرانس اور امریکا آتے جاتے رہیں گے‘ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اس ملک کی اشرافیہ پاکستان کو صحت کے لیے محفوظ اور جدید ملک نہیں بناتی‘ ہم 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں لیکن آپ بدقسمتی دیکھیے‘ ہم نے آج تک اس ملک میں کوئی جدید ہسپتال نہیں بنایا۔

میاں شہباز شریف نے ”پی کے ایل آئی“ کے نام سے ہسپتالوں کا ہسپتال بنانے کی کوشش کی ‘ یہ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور سرجنوں کا ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بھی تھا اور ملک کا جدید

ترین ہسپتال بھی مگر افسوس اس کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی نظر کھا گئی‘ یہ ادارہ ڈاکٹر سعید اختر بنا رہے تھے‘ ڈاکٹر صاحب سے غلطی ہوگئی‘ یہ کھانے پر چیف جسٹس کے گھر چلے گئے‘ چیف جسٹس کے بھائی ڈاکٹرساجدنثار نے کھانے کی میز پر کہہ دیا‘ پنجاب حکومت ”پی کے ایل آئی“ کے نام سے سفید ہاتھی پال رہی ہے‘ چیف جسٹس کی طبع نازک پر ناگوار گزرا اور یہ پورے ادارے کو لے کر بیٹھ گئے‘ اگر پی کے ایل آئی بن جاتا تو آج چیف جسٹس سمیت کسی وی آئی پی کو علاج کے لیے ملک سے باہر نہ جانا پڑتا مگر افسوس ہم ذہنی اور اخلاقی طور پر بھی پست ہیں اور ہم ان باریکیوں کو جاننے اور سمجھنے کی اہلیت سے بھی محروم ہیں۔میں بہرحال میاں نواز شریف کی مثال کو غنیمت جان کر عمران خان سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں‘ حکومت پورے ملک کے لیے ”چارٹر آف ہیلتھ“ تیار کرے اور یہ چارٹر پارلیمنٹ میں لے جائے‘یہ جہانگیر ترین‘ چودھری شجاعت اور سپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن کو منانے کی ذمہ داری سونپے اور تمام سیاست دان مل کر پاکستان میں ”ہیلتھ ایمرجنسی“ نافذ کر دیں‘ آپ یقین کریں دس سال بعد کسی شخص کو علاج کے لیے ملک سے باہر نہیں جانا پڑے گا‘ ہمارے اپنے ہسپتال قوم کا طبی بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔

مجھے یقین ہے حکومت کا فوری رد عمل ہوگا ”یہ کیسے ممکن ہے؟“۔ یہ سوال 1960ءاور 1990ءمیں کیوبا کے لوگوں نے بھی حکومت سے کیا تھا لیکن کیوبن حکومت کے صرف ایک قدم نے قوم کو بھی جواب دے دیا اور پوری دنیا کو بھی حیران کر دیا۔ ”کیوبن ہیلتھ سسٹم“ اس وقت دنیا میں کام یابی کی بہت بڑی سٹوری ہے‘ ہم یہ سٹوری ڈسکس کریں گے لیکن میں اس سے پہلے آج کے زمانے کے ایک بڑے انسانی معجزے پر بات کروں گا‘ آج کا سب سے بڑا معجزہ ”ڈیٹا“ ہے۔

انسان نے سو سال میں جتنے تجربے کیے‘ وہ ڈیٹا بن کر گوگل پر پڑے ہیں‘ آپ چند گھنٹے صرف کریں اور آپ تمام معلومات حاصل کر لیں‘ آج سے چند برس قبل ”دی فکس“ کے نام سے ایک شان دار کتاب آئی ‘ یہ کتاب جوناتھن ٹیپر مین نے لکھی تھی اور اس نے ڈیٹا کے ذریعے ثابت کیا تھا دنیا کے دس ملکوں نے دنیا کے دس بڑے مسئلے کیسے حل کیے؟ میری پاکستان کی تمام جماعتوں اور حکومت سے درخواست ہے آپ اس کتاب کو سیاسی جماعتوں اور وزراءکے لیے نصاب بنا دیں‘ یہ کتاب ان کا دماغ کھول دے گی۔

دی فکس بتاتی ہے برازیل نے دس سال میں غربت ‘ کینیڈا نے امیگریشن کا مسئلہ ‘ انڈونیشیا نے دہشت گردی اورسنگا پور نے کرپشن کیسے ختم کی! بالکل اسی طرح کیوبا جیسا غریب ملک ہیلتھ سروسز میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا‘ کیسے بن گیا؟ یہ ایک دل چسپ داستان ہے‘ہماری حکومت اس پر ریسرچ کر کے پاکستان کا ہیلتھ سسٹم امپروو کر سکتی ہے‘ کیوبا کیا ہے اور کہاں ہے؟ کیوبا امریکا کے ہمسائے میں ایک کمیونسٹ ملک ہے‘ امریکا نے 1960ءکی دہائی میں کیوبا پر پابندیاں لگا دیں۔

پابندیوں کا پہلا شکار ڈاکٹرز‘ ادویات ساز ادارے اور کیمسٹ بنے‘ امریکا نے کیوبا کے طبی ماہرین کو امیگریشن دینا شروع کر دی چناں چہ چند برسوں میں کیوبا کے تمام سرجن‘ ڈاکٹرز‘ نرسز اور کیمسٹ امریکا بھاگ گئے‘ کیوبا میں صرف تین ہزار ڈاکٹرز اور16 پروفیسر رہ گئے یوں کیوبا میں طبی بحران پیدا ہو گیا‘ سوویت یونین نے کیوبا کی مدد شروع کر دی‘ کیوبانے سوچا ہم کب تک غیروں کی مدد لیتے رہیں گے چناں چہ اس نے طبی شعبے میں خود مختار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

حکومت نے نیشنل ہیلتھ سسٹم کے نام سے صحت کا ایک نظام بنایا اور پورے ملک میں نافذ کر دیا‘ یہ سسٹم 1990ءکی دہائی میں مزید بہتر بنایا گیا اور 2007ءمیں اس میں انقلابی تبدیلیاں کر دی گئیں‘ اس سسٹم نے کمال کر دیا‘ آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے جس میں کوئی پرائیویٹ ہسپتال یا کلینک موجود نہیں‘ صحت کا پورا نظام حکومت کے کنٹرول میں ہے اور تمام شہریوں کے لیے فری اور یکساں ہے‘ کیوبا صحت کو کمپیوٹرائزڈ کرنے والا دنیا کا دوسرا ملک بھی ہے۔

پورے عوام کے بلڈ سیمپلز کمپیوٹرائزڈ ہیں‘ بلڈ بینک اور گردوں کا ڈیٹا بھی نیشنل سسٹم میں موجود ہے‘ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس ڈاکٹرزقطر‘ دوسرے نمبر پر موناکو اور تیسرے نمبرپر کیوبا میں ہیں‘ امریکا میں دس ہزار لوگوں کو 24 اور روس میں 43 ڈاکٹروں کی سہولت حاصل ہے جب کہ کیوبا میں دس ہزار لوگوں کے لیے 67 ڈاکٹرز ہیں اور یہ شرح دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے‘ کیوبا میں دانتوں کی سروس تک مفت ہے‘ یہ براعظم امریکا میں ابارشن (اسقاط حمل) کی اجازت دینے والا پہلا ملک بھی تھا۔

کیوبا میں 2003ءمیں ایڈز کے 3300 مریض نکل آئے‘ حکومت نے فوری طور پر پوری آبادی کا ایڈز ٹیسٹ کیا اور ایڈز کے 3300 مریضوں کو لاس کوکاس کے علاقے میں منتقل کر دیا‘ یہ مریض اس علاقے تک محدود رہے‘ اس ایک قدم سے ملک میں ایڈز ختم ہو گئی‘ یہ لوگ اپنی ضرورت کی تمام ادویات بھی خود بناتے ہیں‘ دنیا کی تمام چھوٹی بڑی بیماریوں کے ماہرین بھی تیار کرتے ہیں‘ ملک میں جدید ترین لیبارٹریاں بھی موجود ہیں اور دنیا کے تمام نئے پرانے امراض کا ڈیٹا اور ریسرچ بھی۔

کیوبا کے ڈاکٹرز اپنی مہارت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں‘ آپ کو دنیا کے ہر طبی بحران میں کیوبا کے ڈاکٹرز نظر آئیں گے‘ ڈینگی امریکا نہیں پہنچ سکے گا‘ اس کا علاج یورپ ہی میں دریافت کر لیا جائے گا لیکن کیوبا نے اس کے باوجود اس پر ریسرچ شروع کر دی‘ حکومت کی کوشش ہے یہ لوگ دنیا کو ڈینگی کی ویکسین دیں۔ہم بڑی آسانی سے کیوبا کے ہیلتھ سسٹم کی نقل کر سکتے ہیں‘ پاکستان میں اس وقت114میڈیکل کالجز ہیں‘ ہم ان کے ساتھ سو سو نرسنگ سکولز‘ دانتوں کے میڈیکل کالجز‘ گائنا کالوجی سکولز اور متعدی امراض کے ریسرچ سینٹرز بنالیں۔

میاں شہباز شریف نے لاہور کے مضافات میں نالج ڈسٹرکٹ بنانے کا منصوبہ تیار کیا تھا‘ حکومت یہ منصوبہ نکالے اور ملک کے دس مقامات پر ”میڈیکل ڈسٹرکٹ“ بنا دے‘ پاکستان میں ہر قسم کے امراض پائے جاتے ہیں‘ یہ بدقسمتی کے ساتھ ساتھ ایک ”اپارچیونٹی“ بھی ہے‘ ہمارے طالب علموں کو ریسرچ کے لیے ملک سے باہر نہیں جانا پڑے گا‘ ہم امراض کو لیں‘ ریسرچ کریں اور علاج دریافت کرنا شروع کر دیں‘ پاکستان ”ہربل میڈیسن“ میں بھی کمال کر سکتا ہے۔

ہم ایک ایسے علاقے میں رہ رہے ہیں جس میں ایک طرف آریوودیک کی پانچ ہزار سال کی تاریخ موجود ہے‘ دوسری طرف چین اور جاپان کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں‘ تیسری طرف یونانی اور سنٹرل ایشین ادویات کی تاریخ موجود ہے اور چوتھی طرف ہمارے پاس کشمیری طریقہ علاج بھی موجود ہے لہٰذا ہم بڑی آسانی سے ہربل اور روایتی ادویات کی مارکیٹ پیدا کر سکتے ہیں‘ حکومت اعلیٰ پائے کے طبیہ کالج بنوائے‘ پرانے نسخے نکالے‘ ان پر تحقیق کرے اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی دیسی ادویات بنا کر پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرے۔

ہماری دیسی ادویات آج بھی پوری دنیا میں جا رہی ہیں‘ حکومت اگر ان کی سرپرستی شروع کر دے تو یہ ایک بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے‘ ہم اسی طرح فی میل نرسنگ اور میل نرسنگ کو بھی انڈسٹری بنا سکتے ہیں‘ ہم پوری دنیا کو نرسز فراہم کر سکتے ہیں‘ ہم فزیوتھراپی میں بھی لیڈ کر سکتے ہیں‘ ہم ملک میں فزیوتھراپی کے سو کالج بنائیں‘ لوگوں کو مساج اور فزیو تھراپی کے کورسز کرائیں اور دنیا کی بڑی مارکیٹ کھینچ لیں‘ ہم اسی طرح ادویات سازی کا کوئی ایک پارٹ لے کر دنیا کو لیڈ کر سکتے ہیں۔

ہم کیپسول کے خول ہی بنانا شروع کر دیں یا گولیوں میں استعمال ہونے والا پاﺅڈر ہی بنانا شروع کر دیں یا ہم سیال کوٹ کو ”سرجیکل ڈسٹرکٹ“ بنا کر پوری دنیا کو سرجری کے آالات ہی دینا شروع کر دیں یا پھر ہم پوری دنیا کی پٹی کی ضروریات پوری کرنا شروع کر دیں تو آپ خود تصور کیجیے پاکستان کہاں سے کہاں چلا جائے گا؟ دنیا میں چار مدر انڈسٹریز ہیں‘ غذا‘ کپڑے‘ تعلیم اور صحت‘ آپ ان میں سے کوئی ایک انڈسٹری لے لیں‘ آپ کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

ہم اگر صرف صحت پر فوکس کر لیں تو بھی لوگوں کا مقدر بدل جائے گا ‘ ملک خوش حال ہو جائے گا‘ اگر یہ نہ ہو سکا تو بھی ہماری اشرافیہ کو علاج کے لیے ائیر ایمبولینس‘ عدالت اور کابینہ کی اجازت کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا‘ ملک کے اندر ہی سب کچھ موجود ہو گا‘ میرا خیال ہے وزیراعظم اگر شوکت خانم کینسر ہسپتال بنا سکتے ہیں یا یہ اگر پاکستان کو کرکٹ میں ورلڈ چیمپیئن بنا سکتے ہیں تو پھر یہ پاکستان کو کیوبا کی طرح ہیلتھ انڈسٹری کا چیمپیئن بھی بنا سکتے ہیں بس ”اینی شیٹو“ لینے کی دیر ہے۔

اگر کیوبا جیسا غریب ملک اپنے ہیلتھ سسٹم سے پوری دنیا کو حیران کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے‘ یہ کام ایٹم بم بنانے سے زیادہ مشکل تو نہیں؟ ہم اگر ہمت کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں تو کیا ہم دنیا کی دسویں ہیلتھ پاور نہیں بن سکتے؟ کیا ہم میں اتنا بھی پوٹینشل موجود نہیں!۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاوید چوہدری

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply