طبقاتی نظام اور طبقاتی سیاست۔۔۔شاداب مرتضٰی

نوجوانوں اور طلباء نے حسن ناصر اور نذیر عباسی جیسے رہنما بھی پیدا کیے اور منورحسن، الطاف حسین اور شیخ رشید جیسے لیڈر بھی۔ فرانس، چلی، ایکواڈور، اسپین، ہانگ کانگ کے حالیہ احتجاجوں میں کچھ طلباء نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور کچھ اس کے حق میں کھڑے ہوئے۔ مستقبل کے سیاستدان اور سماجی و سیاسی کارکن چاہے وہ کیسے بھی ہوں آج کے نوجوانوں اور طلباء سے ہی پیدا ہوں گے۔ یہ ہر نوجوان اور طالب علم پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے سیاست کا کونسا راستہ منتخب کرتا ہے۔ چونکہ طبقاتی معاشرے میں سیاست بھی طبقاتی ہوتی ہے اس لیے کوئی بھی سیاسی راستہ غیر طبقاتی نہیں ہوسکتا۔ ہر سیاسی راستہ صرف طبقاتی سیاست کا راستہ ہی ہو گا۔ فرق یہ ہوگا کہ کون کسی طبقے کے مفاد کی سیاست کا راستہ اختیار کرتا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے جن میں بعض “سوشلسٹ” بھی شامل ہیں کہ ایک “درمیانہ” یعنی غیر طبقاتی یا بین الطبقاتی یا ماورائے طبقات سیاسی راستہ بھی ہوتا ہے جس کی سیاست غیر طبقاتی ہوتی ہے۔ یہ درمیانے طبقے کی سیاست کا راستہ ہے۔ لیکن یہ محض خام خیالی ہے کیونکہ درمیانی طبقہ بھی ایک مخصوص سماجی طبقہ ہی ہے اور دوسروں طبقوں کی طرح درمیانے طبقے کی سیاست کا محور بھی اپنے طبقے کے مفادات ہی ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر درمیانے طبقے کی سیاست سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان جاری طبقاتی جدوجہد میں کبھی سرمایہ دار طبقے کی سیاست کی جانب اور کبھی مزدور طبقے کی سیاست کی جانب ڈولتی رہتی ہے۔ اس دوہرے پن کو چھپانے کے لیے درمیانی طبقہ اپنی سیاست کو غیر طبقاتی سیاست کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کے لیے اس قسم کا بیانیہ مرتب کرتا ہے جس میں سماجی مسائل غیر طبقاتی دکھائی دیں۔

یہ ناممکن ہے کہ طبقاتی نظام اور طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے طبقاتی اتحاد کی سیاست کی جائے۔ طبقاتی جدوجہد کرنے والوں کی جانب سے سیاسی موقع محل کے اعتبار سے عارضی اور مشروط طور پر کسی ایک طبقے کے خلاف باقی طبقوں کا بین الطبقاتی اتحاد ضرور قائم کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے لیکن طبقاتی تحاد کی سیاست طبقاتی جدوجہد کا نظریاتی اصول نہیں ہو سکتا۔ طبقاتی نظام اور طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے اصولی طور پر طبقاتی مصالحت کی سیاست کرنے والے نہیں بلکہ طبقاتی جدوجہد کرنے والے سیاستدان اور کارکن پیدا کرنا ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طبقاتی نظام اور طبقاتی تعلیمی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے سرمایہ دار طبقے کی سیاست کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کی سیاست اور سیاسی رجحان کی بھی بھرپور مخالفت اور مزاحمت کرنا ہوگی تاکہ طبقاتی نظام کے خاتمے کی سیاست کے خواہشمند لوگوں کو بین الطبقاتی، ماورائے طبقات یا طبقاتی مصالحت کی یوٹوپیائی سیاست کی کنفیوزن سے بچایا جا سکے۔ اس کے لیے ان تمام سیاسی اور سماجی رجحانوں کی تنقید ضروری ہے جو بظاہر خود کو طبقاتی نظام کے خاتمے کی سیاست یعنی سوشلسٹ سیاست کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن نظریاتی، تاریخی اور سیاسی اعتبار سے ان کا کردار طبقاتی نظام کے خاتمے کی سیاسی تحریک سے یعنی سوشلسٹ انقلابی تحریک سے متصادم اور اس کا مخالف رہا ہے اور رہتا ہے۔

درمیانے طبقے کی سیاست کے ان رجحانوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں بات تو طبقاتی سیاست کی ہوتی ہے لیکن ان کا سیاسی پروگرام، مطالبے اور عملی سرگرمیاں تمام یا مختلف طبقوں کے مفادات اور حقوق کا احاطہ کرنے کی کوشش تک محدوڈ ہوتی ہیں۔ ان کا نکتہ نظر طبقاتی اور غیر طبقاتی تصورات اور خیالات کا مرکب ہوتا ہے۔ ان کی سیاسی اصطلاحیں عمومی اور غیر طبقاتی ہوتی ہیں اور اپنی سیاست کے لیے یہ آبادی کے جن حصوں اور گروہوں کے حقوق کی نمائندگی کی بات کرتے ہیں ان میں طبقاتی فرق نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اقلیتوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، انسانی حقوق، بچوں کے حقوق، سیاسی حقوق، سماجی حقوق، ثقافتی حقوق، قومی حقوق، نوجوانوں کے حقوق، طلباء کے حقوق، وغیرہ وغیرہ جیسی اصطلاحوں اور ان سے منسوب حقوق میں طبقاتی تقسیم کا فرق نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ حقوق کس طبقے کے لوگوں کے لیے؟

یہ بالکل ممکن ہے کہ سرمایہ دار یا درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد یا چند افراد اپنے ضمیر، دانش اور تجربے کی آواز پر اپنے طبقے کا نکتہ نظر چھوڑ کر غریب، مزدور طبقے کا نکتہ نظر اپنا لیں۔ البتہ یہ ناممکن ہے کہ ایسے افراد کی تقلید میں تمام سرمایہ دار یا درمیانہ طبقہ اپنا نکتہ نظر بدل کر غریب، مزدور طبقے کا نکتہ نظر اپنا لے۔ درمیانے طبقے کے کسی فرد یا چند افراد کی جانب سے طبقاتی نکتہ نظر اختیار کر لینے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ پورا درمیانہ طبقہ اپنا طبقاتی کردار چھوڑ کر مزدور طبقے کا سیاسی نکتہ نظر اختیار کر گیا ہے۔ اس کا مطلب فقط یہ ہوتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد میں ملکیتی طبقے کے چند افراد غیر ملکیتی طبقے کی جدوجہد کی جانب کھنچ آئے ہیں۔ اس لیے یہ نکتہ نظر غلط ہے کہ اگر درمیانے طبقے کے بعض افراد طبقاتی جدوجہد کی بات کر رہے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ درمیانے طبقے کی پوری سیاست طبقاتی جدوجہد کی اور خصوصا سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خاتمے کی جدوجہد ہے!

طبقاتی سیاست کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی دور کرنا ضروری ہے کہ طبقاتی سیاست ہمیشہ انقلابی سیاست ہوتی ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی سیاست بھی طبقاتی سیاست ہے کیونکہ اس کے زریعے سرمایہ دار طبقہ سماج پر اپنی طبقاتی آمریت کو مسلط رکھتا ہے۔ لیکن اس طبقاتی سیاست کو انقلابی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ رجعتی اور ردانقلابی طبقاتی سیاست ہے جو سماجی نابرابری اور استحصال کو قائم رکھتی ہے۔ اس کے برعکس مزدور طبقے کی طبقاتی سیاست دراصل انقلابی سیاست ہے کیوں کہ اس کے زریعے مزدور طبقہ سرمایہ دارانہ استحصال کا، طبقاتی نابرابری کا خاتمہ کر کے استحصال سے پاک سماج قائم کرنا چاہتا ہے۔ درمیانے طبقے کی طبقاتی جدوجہد بھی انقلابی جدوجہد نہیں ہوتی۔ سرمایہ دار طبقے اور مزدور طبقے کے بیچ میں موجود ہونے کی وجہ سے درمیانہ طبقہ اپنا طبقاتی وجود برقرار رکھنے کے لیے سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان جاری طبقاتی جدوجہد میں اعتدال اور مصالحت کی کوشش کرتا ہے۔ درمیانے طبقے کی جانب سے طبقاتی سیاست یا طبقاتی نظام کے خاتمے کی سیاست کی بات کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام اور استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خاتمے کا مطالبہ اور جدوجہد صرف اور صرف مزدور طبقے کا مفاد ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر درمیانے طبقے کے لیے مزید حقوق، استحقاق، سہولیات اور مراعات حاصل کی جائیں۔

طبقاتی نظام اور طبقاتی تعلیمی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے طبقاتی نظریہ ضروری ہے لیکن صرف طبقاتی نظریہ رکھنا ضروری نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ طبقاتی نظریہ اس طبقے کا ہو جو طبقاتی نظام کو ختم کرنے کا اہل ہے۔ طبقاتی جدوجہد اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے حوالے سے یہ سوال سب سے اہم ہے کہ وہ کونسا طبقہ ہے جو موجودہ طبقاتی نظام کو، سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کی اور اس کی جگہ غیر طبقاتی سماجی نظام کو قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے عہد میں عموما اور پاکستان میں خصوصی طور پر طبقاتی جدوجہد مزدور اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان ہے۔ اس طبقاتی جدوجہد کا فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ پاکستان کا مزدور طبقہ سیاسی طور پر اس طبقاتی جدوجہد سے کتنا باشعور اور کس قدر منظم ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے صرف مزدور طبقہ ہی وہ واحد طبقہ ہے جو اس طبقاتی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقلیت، عورت، مرد، نوجوان، طلباء، بچے، قوم وغیرہ یہ سب “طبقے” نہیں بلکہ آبادی کے مختلف گروہ یا حصے ہیں۔ سماجی انقلاب کوئی سماجی گروہ یا آبادی کا کوئی مخصوص حصہ نہیں لاتا بلکہ “طبقہ” لاتا ہے۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو طبقاتی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں انہیں مزدور طبقے کی سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ نوجوان اور طلباء مستقبل میں اپنی سیاست کے لیے کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون سرمایہ دارانہ سیاست کا رخ کرتا ہے اور کون سوشلسٹ سیاست کا.

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply