اسلامی تصوف بارے ایک سیکولرموقف۔۔۔سلیم جاوید/قسط3

تصوف کی دنیا کی دوسری پرت (جسے میں “گرے زون” کا نام دیتا ہوں)، صرف ان مسلمانوں کیلئے خاص ہے جو ایک غیبی نظام کا اثبات کرتے ہیں- تصوف کے اس مرحلے کا ہدف ہے “خداکے غیبی نظام سے ارتباط”-

جیسا کہ موبائل فون کے سگنلز، ہمیں نظرنہیں آتے مگر ہم ہرلمحہ ان میں گھرے رہتے ہیں (اور یہ کہ اگر” ریسیونگ اینڈ” میں خرابی نہ ہو تویہ غیرمرئی سگنل، موبائل کے ہارڈ ویئر کو گھنٹی کی صورت متحرک کردیا کرتا ہے)، ویسے ہی ایک غیبی نظام ہمہ وقت کائنات میں جاری وساری رہتا ہے-

کائنات کے غیبی نظام کو کھوجنے والوں نے بعض کڑیاں جوڑ کر، اس کے کچھ اجزاء سے فوائد اٹھالئے ہیں – سمندر میں “بائیونسی” کاغیبی نظام موجود تھا مگرجب “دریافت” ہوگیا تواسکی بنا پر” ٹائی ٹینک” تیرائے گئے- نظر نہ آنے والی ” لیزر” کاخاص اندازمیں استعمال کرکےچٹانوں کا سینہ چیرا گیا- فزکس کے چند زاویوں پہ غوروفکر ہوا تو ہزاروں ٹن لوہے کو جہاز کی شکل میں اڑادیا گیا-(اورہنوز، عناصر کے”غیبی نظام” پہ ریسرچ جاری ہے)-

اوپرجو مثالیں عرض کی ہیں، وہ انسان کے باہرکے مادہ سے متعلق ہیں-

عرض یہ ہے کہ خود انسان کے اندر، ایٹم سے زیادہ غیبی توانائی موجود ہے(ہرانسان ایک چھوٹی کائنات ہے)- انسان کے اندر ایک شعور ہوتا ہے اورایک لاشعور- مگرہم مسلمان مانتے ہیں کہ لاشعور سے ورا بھی ایک دنیا ہے-( یہ “آئی-کیو” والی درجہ بندی سے آگے کی چیز ہے)- انسان کی باطنی دنیا میں ایٹم کے”نیوکلس”سے زیادہ بڑی طاقت پڑی ہوئی ہے- اسلامی تصوف کااصلی میدان یہی دنیا ہے- شعور کی دنیا میں “اسلام” سماتا ہے- لاشعور میں اسلام پہنچ جائے تواسے “ایمان” کہا جاتا ہے-اس سے آگے جب اسلام راسخ ہوتو اسکو “یقین ” کہا جاتا ہے- یہ ضروری نہیں کہ ہرمسلمان” یقین” تک پہنچ جائے مگرہرمسلمان کیلئے ضروری ہے کہ “یقین” تک پہنچنے کی سعی کرے(وعبدربک حتی یاتی الیقین)-

یہ کوئی حتمی فارمولا تو نہیں تاہم عمومی تجربہ یہی ہے کہ “اسلام” تک پہنچنے کیلئے “علم بذریعہ کتب وغیرہ”درکارہوتا ہے- جبکہ ” ایمان” تک رسائی کیلئے ” تزکیہ بذریعہ صحبت وغیرہ” کی ضرورت ہے –تاہم “یقین” تک پہنچنے کیلئے جو کچھ درکار ہے، وہ تصوف کاخاص میدان ہے- مگریہ خاکسار اسکو “گرے ایریا” قراردیتا ہے کیونکہ اس میدان کی مکمل راہنمائی بھی قرآن میں موجود ہے مگراکثر لوگ، قرآنی دائرے سے باہرنکل جاتے ہیں اوربڑی خطا کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں جسکا انکو شعور بھی نہیں ہوتا-(جسکے بارے آخری سطر میں کچھ عرض کروں گا)-

یہ بہت طویل موضوع ہے مگراسی صفحہ پرسمیٹنے کی کوشش کروں گا-

یہ خاکسار، انسان کے اندر کے غیبی نظام کومندرجہ ذیل پانچ جہات سے دیکھتا ہے- (ظاہرہے کہ یہ میرے ناقص فہم پرمبنی ہے تواحباب بلاتکلف اختلاف کرسکتے ہیں)-

1- غیبی نظام برائے انسانی صحت:

انسان کی دماغی وروحانی ہی نہیں، بلکہ اسکی جسمانی صحت کا بھی زیادہ دارو مدار اسکے اندر کے غیبی نظام کی صحت سے ہے- شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ ہی نہیں بلکہ بھرپور سیکس کرنا اورگہری نیند میسرآنا بھی اسکے ” اندر کے سکون” سے وابستہ ہے- اس لئے دوااورغذا کے علاج سے زیادہ ضروری کام، اپنے” لاشعورکی ٹینشن” کا علاج کرنا ہے-

2- غیبی نظام برائے مادی ترقی:

باہر کی دنیا کواندر کے غیبی نظام سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے-غیبی نظام درست ہوجائے توسالن میں ذائقہ پڑجائے گا، چاہے ابلی ہوئی دال کھائے گا-انسانی مصیبت وابتلا کاآخری تصور یہ ہے کہ ایک زندہ انسان، مچھلی کے معدے میں پہنچ جائے جبکہ وہ مچھلی گہرے سمندر میں ہو(وہاں آکسیجن کا نظام بھی نہیں یعنی “موت درموت” کا نظام)-ایسے مصیبت زدہ انسان کو بھی غیبی نظام( لا الہ الاانت سبحانک) کی مدد سے زندہ برآمد کیا جاسکتا ہے-(یہاں الفاظ نہیں بلکہ کیفیت مطلوب ہے)-

3- غیبی نظام برائے اخروی نجات:

ہم مسلمان آخرت اور جنت ودوزخ پہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان کا مادی جسم مرجائے گا تواسکا حقیقی وجود، برسرکار آجائے گا- مرنے کے بعد، ہرآدمی نے جنت یا دوزخ میں جانا ہے- جنت یا دوزخ، کوئ ٹھوس چیز نہیں بلکہ اسکے اپنے اندر بنی ہوئی کیفیات ہیں ( لازم نہیں کہ کسی کی جنت میں شہد وکھجور ہو- برگروپیزا بھی ہوسکتا ہے)- یہ جنت ودوزخ، یوں تو ساری زندگی، انسان کے اندر لاشعور سے پرے بنتی رہتی ہے مگرخاص کراخیروقت کی کیفیت کا اثرزیادہ ہوتا ہے( اس لئے موت کت وقت خدا کی رحمت سے امید رکھی جائے)- وہ لوگ جو اس دنیا میں جنت ودوزخ نہیں بنا کرگئے تو انکی روح( لاشعور سے پرے کی ایک چیز)، پنڈولم کی طرح متذبذب رہے گی( جو ایک اور بڑی مصیبت ہوگی)- پس مرنے کی بعد کی زندگی کے قرار کیلئے بھی “تصوف” ایک اہم آلہ ہے(دھیان رہے کہ ” اہم آلہ” کہا ہے نہ کہ لازمی عنصر )-

4- غیبی نظام برائے اسلاف واخلاف:

انسان کے ساتھ جو واقعات پیش آتے ہیں، اسکا تعلق آباء واجداد کے دنیاوی اعمال سے بھی ہے-مادی طور پرمرنے کے بعد بھی انسان کا اپنی نسل سے روحانی تعلق قائم رہتا ہے اور اسکی آل اولاد کو جو تکلیف پہنچتی ہے، اسکا درد اورذلت اسکو وہاں بھی پہنچتی ہے(اورمادی سے دنیا سے ہزار گنا بڑھ کرپہنچتی ہے- خدائی عدل کا یہ ںظام موجود ہے)- جیسے دنیاوی طورپر، ایک سفید فام فیملی کے ہاں کالا بچہ پیدا ہوا تو” ڈی این اے” سے معلوم ہوا کہ اسکے والدکی پردادی نے کسی حبشی سے مجامعت کی تھی جو چوتھی نسل میں جاکر ظاہر ہوئی- اسی طرح، آباؤاجداد نے کوئی  ظلم کیاہو تو اسکا اثربھی اسکی ساتویں نسل تک پہنچ کرظاہرہوسکتا ہے-( موجودہ نسل کا اگر خود کوئی قصور نہیں تو اسکا درد، اسکے ظالم اجداد کو ٹرانسفر کرنے کے بعد، اس کی اپنی تکلیف کیلئے الگ سے کمپنسیٹ کیا جائیگا)-

اوپرجو کچھ کہا، اگراحباب کو سمجھ میں آرہا ہے تو اسکو اب الٹا کرکے دیکھ لیں-وہ ایسے کہ اس دنیا میں اگر ایک آدمی، اپنا اندرونی نظام “نورانی” بنا لے تووہ اپنی کیفیات کو، اپنے مرے ہوئے آباء واجداد کو”ٹرانسفر” کرسکتا ہے- مزید یہ کہ مراہوا انسان اگروہاں جنت میں پہنچ گیا(یعنی سکون میں پہنچ گیا) توپھروہ بھی اپنی طاقت یہاں کسی بندے کوٹرانسفرکرسکتا ہے- خاکسار، دورد شریف کی تشریح یوں ہی کرتا ہے- یعنی ایک مسلمان ، جناب محمد کی روح کیلئے اپنی عاشقانہ کیفیات ٹرانسفر کرتا ہے جس سے روح محمد کو مزید ترقی ملتی ہے( آت محمدالوسیلۃ ولٖفضیلہ)- پھر یہ روح مبارک، اپنی تجلی اس امتی کو واپس بھیجتی ہے جسکا ظاہری نور، اس بندے کے چہرے پرنظر آتا ہے اورغیبی طور پر، اسکو دنیاوی امور میں مدد ملتی ہے-(ظاہر ہے کہ یہ نظام بھی “رب واحد” کا ترتیب دیا ہوا ہے جو کسی کیلئے، کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ سے اسے موقوف کرنے کی اتھارٹی رکھتا ہے)-

5- غیبی نظام کی ایک پانچویں جہت بھی ہے جو پبلک میں نہیں عرض کرنا چاہتا اور نہ یہ ہرکسی کے کام کی بات ہے-(طئی فی الارض، موت صغیرو کبیر وغیرہ)-

خیر، اب اس بات پہ آتے ہیں کہ “غیبی نظام سے ارتباط” کرنے کا کیا طریقہ اختیارکیا جائے؟-

غیبی نظام سے استفادہ کا سب سے سے بڑا ذریعہ “دعا کرنا” ہے-” دعا” ہی اصل عبادت ہے-پچھلے دنوں کسی نے اولادکی تربیت بارے ایک کتاب کا بتایا- عرض کیا کہ اولادکی تربیت کیلئے بھی اصل ذریعہ ” دعا” ہے (سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی؟)- تصوف کیا ہے ؟ قوتِ دعا کا بڑھانا- صورتحال کچھ یوں ہے کہ جتنا آپکی دعا قوی ہوگی، اتنا ہی آپکا غیبی نظام سے ارتباط زیادہ ہوگا- جتنا آپکا غیبی نظام سے ارتباط ہوگا، اتنا ہی آپکی دعا طاقتور ہوگی(اوریہ ایسی چیستان ہے کہ خود کو دعا کیلئے تیار کرنے کیلئے بھی دعا ہی مانگی جائے گی- کیسے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے)- اس پہیلی پہ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس یہ سمجھیے کہ سرمایہ ہوگا تو بزنس شروع ہوگا اور بزنس ہوگا تو سرمایہ آئے گا-

بہرحال، دعا کی طاقت بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ، خدا کا ذکر ہے-(اپنے اندر کے اطمینان کیلئے بھی اورمصائب وبلا سے نکلنے کیلئے بھی)- مگریہ”ذکرکرنا”، اصلاً ایک کیفیت کا نام ہے( دل” یار”ول تے ہتھ “کار”ول)-زبانی ذکر، فقط اس اندرونی کیفیت تک پہنچنے کی پہلی سیڑھی ہے- اس کیفیت تک پہنچانے کیلئے، صوفیاء حضرات نے بعض طریقے وضع کئے ہوئے ہیں مگرجب آدمی کے دل کو کسی انتہائ پریشانی کی بنا پر کوئی ٹھیس لگ جائے تو وہ ازخود ہی اس کیفیت تک پہنچ جاتا ہے اور یوں غیبی نظام اسکی طرف متوجہ ہوجایا کرتا ہے-(خدا مضطردل کی پکار کوسنتا ہے چاہے کافرہی کیوں نہ ہو)-

دعا کی طاقت بڑھانے کا دوسرا ذریعہ “صبر اور نماز” ہے- مگرخاکسار کے نزدیک یہ دونوں باتیں فقط استعارہ ہیں- صبر کا مطلب رک جانا( خواہشات اور لذات سے) اور نماز کا مطلب نیکی کے کاموں میں لگ جانا ہے-یعنی گناہوں سے بچنے میں یا طاعات میں لگنے سے بھی غیبی نظام کے ساتھ ارتباط پیدا ہوجاتا ہے-( غیبی نظام کے کارندے ہروقت کے حاضرباش کی سفارش ومعاونت کرتے ہیں- کہتے ہیں کہ یہ ایک مانوس آوازہے)-

دعا کی طاقت بڑھانے کا تیسرا ذریعہ اپنے مادی بدن کو پگھلانا ہے کہ فاقہ سے باہرکا جسم کمزور ہوگا تواندرکی روح ابھرآئے گی- روزہ رکھنے سے ایک مقصود یہ بھی ہے-( رسول خود قصداً بھی فاقہ فرماتے تھے)- ظاہر ہے کہ یہ بھی “گرے ایریا” ہے کیونکہ بغیرکسی راہنما کے، ایسی کوشش”بیک فائر ” بھی کرسکتی ہے-

آخری گزارش یہ ہے کہ غیبی نظام سے ارتباط کا سب سے قوی اور گارنٹی شدہ طریقہ، خلق خدا کی مدد وغمخواری کرنا ہے- میں تفصیل میں نہیں جاتامگراشارتاًبخاری شریف کی ایک حدیث کا حوالہ دیتا ہوں- تین آدمی، پہاڑی کی غار میں پھنس گئے تھے- اس غارکادہانہ، ایک چٹان نے بند کردیا تھا- ظاہری اسباب میسر نہ ہونے کی بنا پر، تینوں نے اپنے”اعمال” سے اس چٹان کو ہٹایا- پہلاعمل اپنے گھروالوں سے حسن سلوک تھا(ماں باپ کاخیال رکھنا)-دوسرا عمل، اپنے خاندان پرمہربانی تھی( مجبورکزن کی مالی امداد)، تیسرا عمل جسکی وجہ سے راستہ مکمل کھل گیا تھا ، وہ عمومی خلق خدا کا بھلا چاہنا تھا( مزدورکی اجرت سنبھلانا)- دیکھیے کہ ان تینوں اعمال میں، نماز، روزہ، تہجد وغیرہ کا واسطہ نہیں دیا گیا بلکہ “معاملات” کا واسطہ دیا گیا جس نے “غیبی نظام ” کو متحرک کردیا تھا-پس خدا کے غیبی نظام سے اصل ارتباط، خلق خدا کی خیرخواہی کرنا ہے جسکے بعد”دعا” کیلئے ہاتھ اٹھانے کی بھی حاجت نہیں رہتی-

زیرنظر بحث ہنوز تشنہ ہے مگرمیں اسے یہیں ختم کردیتا ہوں- اس نصیحت کے ساتھ کہ تصوف کے اس پہلومیں اس بات کا بہت دھیان رکھیے گا کہ غیبی نظام سے ارتباط کا ایسا کوئی بھی طریقہ جو قرآن سے ثابت نہ ہو تو اس سے پرہیز کیجئے گا- خاکسارکے آبائی شہرکلاچی میں انگریز کے زمانے کی ایک گریجویٹ صاحب، تصوف کی لائن پہ چل نکلے تھے(انکا مزار مرجع خلائق ہے)-انہوں نے صوفی اعمال بارے ایک کتاب لکھی تھی جس میں “روحانی” کو قابو کرنے کے طریقے بھی بتائے تھے-خاکسار نے وہ کتاب دس برس کی عمرمیں پڑھی تھی جس میں سے ابتک یہ بات یاد ہے کہ بزرگ کی قبرپرگھوڑے کی طرح سوار ہوکر، اسم ذات کی ضربیں لگائی جائیں تواس بزرگ کا”روحانی” آپکے کنٹرول میں آجائے گا- ایسی خرافات سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ تصوف میں قرآنی اعمال کے علاوہ کسی عمل میں نہ لگاجاوے- خاکسار مکررعرض کرتا ہے کہ میرا پروفشنل صوفیاء سے کوئی باقاعدہ ربط ضبط نہیں رہا ہے( اور نہ ہی ایسا تعلق رکھنے کی کوئی خواہش ہے)تاہم اپنے عمومی تجربہ کے پیش نظریہ نصیحت کروں گا کہ تصوف کے اعمال واشغال سیکھنے کی اگر خواہش ہو تو صرف “دیوبندی صوفیاء” سے تعلق رکھیں-(ضروری اگرچہ یہ بھی نہیں)-

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply