الحاد آباد۔۔۔۔مبشر زیدی

ان لوگوں نے پہاڑوں کے دامن میں ایک نیا شہر بسایا جس کا نام اتفاق رائے سے الحادآباد رکھا گیا۔ آہستہ آہستہ اس کی آبادی بڑھنے لگی اور کئی لاکھ تک پہنچ گئی۔ دستور کے مطابق اس کی انتظامیہ، ظاہر ہے کہ ملحدوں پر مشتمل تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ شہر میں مذہبی لوگ نہیں تھے۔ یقیناً تھے لیکن وہ خود کو ظاہر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ اگر کبھی بحث مباحثہ ہوتا اور وہ اس میں شرکت کرنا چاہتے تو اس طرح گفتگو کرتے، جیسا کہ اہل مذہب کا خیال ہے کہ۔۔۔ جیسا کہ مذہب پرست سمجھتے ہیں کہ۔۔۔ جیسا کہ مذہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ۔۔۔ سمجھ دار لوگ سمجھ تو جاتے لیکن ان کی محتاط گفتگو کی وجہ سے کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔
الحاد آباد میں کوئی عبادت گاہ نہیں تھی۔ عام دنوں میں صبح یا شام کو یا جمعہ کی دوپہر کوئی اجتماع نہیں ہوتا تھا۔ سورج نکلنے سے چھپنے تک کوئی بھوکا پیاسا نہیں رہتا تھا۔ عید کا دن یا شب برات نہیں آتی تھی۔ خوشی یا غم کا کوئی جلوس برآمد نہیں ہوتا تھا۔ خوشی ہر دن منائی جاتی۔ واحد جلوس یکم مئی کو نکالا جاتا جس میں پورے شہر کے لوگ شرکت کرتے۔
شہر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کے کان میں اذان نہیں دی جاتی تھی۔ شادی کے لیے نکاح نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ کسی کا انتقال ہوجاتا تو نماز جنازہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔
لوگ بسم اللہ کہے بغیر لقمہ توڑ لیتے تھے۔ جانور کو ذبح کرتے ہوئے اللہ اکبر نہیں کہا جاتا تھا۔ گفتگو میں انشا اللہ ماشا اللہ کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ مخرب اخلاق بات سن کر لاحول پڑھنا اور گناہ کرنے کے بعد استغفراللہ کہنا ممنوع تھا۔ رخصت ہوتے وقت کسی کے منہ سے خدا حافظ نہیں نکلتا تھا۔
کتابوں کی دکانوں پر کوئی مذہبی رسالہ یا جنتری نہیں ملتی تھی۔ جزدان میں داس کیپٹل رکھی جاتی تھی۔ سارتر کو قومی فلسفی قرار دیا گیا تھا۔ برٹرینڈ رسل کے مضامین لازمی نصاب میں شامل تھے۔
سب لوگ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن الحادآباد اسمبلی کے ایک رکن نے توہین الحاد کے قانون کی تجویز پیش کی۔ قاعدے کے مطابق مسودہ قانون کی نقول تمام ارکان کو پیش کی گئیں۔ اس میں کئی نکات توجہ طلب تھے۔ مثلاً یہ کہ کوئی شخص خدا یا مذہبی ہستی کا نام نہیں لے گا کیونکہ اس سے ملحدوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایسے نام لینے والے کو کم از کم دس کوڑے مارنے اور ایک سال قید کی تجویز دی گئی تھی۔
ایک شق تھی کہ کوئی ادیب، شاعر، صحافی اور بلاگر ایسا کوئی شعر یا نثر پارہ یا خبر یا ٹوئیٹ نہیں لکھے گا یا ایسی تقریر نہیں کرے گا جس میں مذہب کی طرف کوئی اشارہ ہو یا مذہبی اصطلاح استعمال کی گئی ہو۔ ایسی مطبوعات کو ضبط کرنے، ایسی ویب سائٹس پر پابندی لگانے اور مجرم کو عمر قید کی سفارش کی گئی تھی۔
ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنواتے وقت ہر شخص کو اعلان کرنا پڑے گا کہ وہ ملحد ہے یا نہیں۔ جو ملحد نہ ہونے کا اعتراف کرے گا، اس کی شناختی دستاویز پر اس کے اقلیتی فرد ہونے کی نشاندہی ہوگی۔
اعتدال پسندوں نے مجوزہ قانون کی سختی سے مخالفت کی لیکن اسمبلی میں ان کی تعداد کم تھی۔ اصلاح پسند تعداد میں زیادہ تھے۔ رائے شماری ہوئی تو اکثریت نے قانون منظور کرلیا۔ میڈیا نے اس کی خوب تشہیر کی۔ ٹاک شوز میں کئی دن تک اس پر تبصرے ہوتے رہے۔
روادار سمجھے جانے والے لوگوں نے اس قانون کی منظوری پر افسوس کا اظہار کیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ شدت پسندی کا مظہر تھا۔ ایسے لوگ نہ صرف میڈیا کے ٹاک شوز اور بڑے ہوٹلوں کے سیمناروں بلکہ بلکہ گلی محلے کی بیٹھکوں میں بھی یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ پرانا زمانہ اچھا تھا اور نئے دور میں معاشرہ نہ جانے کہاں جارہا ہے۔ ایسی باتیں خاص طور پر ان لوگوں کے سامنے کی گئیں جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ چھپے ہوئے مذہبی ہیں۔ ان کے پاس ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ہر قانون درحقیقت ایک پھندا ہوتا ہے جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں۔ وہ قانون بھی ایک پھندے کے طور پر بنایا گیا تھا۔ جلد اس میں ایک شکار پھنس گیا۔
پروفیسر مبشر علی زیدی نطشے یونیورسٹی میں جرات رندانہ کے استاد تھے۔ انھوں نے لیکچر دیتے ہوئے طلبہ کو بتایا کہ جرات دکھاتے ہوئے عظیم تر مقاصد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اپنی ذات کو لاحق خطرات کی پروا نہیں کی جاتی۔ اس کے لیے انھوں نے سقراط، مسیح اور حسین کی مثالیں پیش کیں۔
لیکچر سننے والوں میں ایک طالب علم شریر طبیعت کا تھا۔ پروفیسر زیدی اس کی شرارتوں پر کئی بار سرزنش کرچکے تھے۔ گزشتہ سیمسٹر میں اس کے نمبر بھی کم آئے تھے۔ اس نے پرنسپل کے پاس جاکر شکایت کی کہ پروفیسر زیدی مذہب پرست ہیں کیونکہ وہ مسیح اور حسین کا نام لیتے تھے۔
شکایت سنگین تھی۔ پرنسپل نے پروفیسر زیدی کو فوری طور پر شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ طالب علم چونکہ ایک ملحد طلبہ تنظیم کا رکن تھا، اس نے اپنے رہنماؤں کے ساتھ تھانے جاکر ایف آئی آر کٹوادی۔ پولیس نے پروفیسر زیدی کو ان کے گھر سے حراست میں لے لیا اور صحافیوں کو فون کرکے بتایا کہ ملزم کو کل صبح عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
شرپسند پروفیسر زیدی کی گرفتاری سے مطمئن نہیں ہوئے۔ انھوں نے ایک لائبریری کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کردیا کہ پروفیسر زیدی نے توہین الحاد کی ہے۔ گھنٹے بھر میں شہر کا شہر تھانے کے باہر جمع ہوگیا۔ جذباتی لوگ ’’گستاخ الحاد کی ایک سزا، سر تن سے جدا۔۔۔ کافر کافر مذہبی کافر۔۔۔ حرمت الحاد پر جان بھی قربان ہے‘‘جیسے نعرے لگارہے تھے۔
ہجوم بڑھتا دیکھ کر پولیس اہلکاروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ پچھلے دروازے سے فرار ہوگئے۔ مشتعل افراد تھانے میں گھس گئے اور انھوں نے عمارت کو آگ لگادی۔ آگ لگنے سے حوالات میں موجود واحد قیدی زندہ جل گیا۔
یہ خبر الحادآباد کے سب سے بڑے چینل کے نیوزروم میں پہنچی تو لوگ افسردہ ہوگئے۔ پروفیسر زیدی ڈائریکٹر نیوز سمیت کئی صحافیوں کے دوست تھے۔ ویسے بھی یہ پروگریسو لوگ، امن پسند لوگ، عوامی مفاد کے علمبردار لوگ کسی کے مرنے پر خوش نہیں ہوتے۔
تھانے کی وڈیو ملنے کے بعد بلیٹن پروڈیوسر نے ڈائریکٹر نیوز سے پوچھا، سر خبر تیار ہے۔ بس یہ بتادیں کہ پروفیسر زیدی کو ہلاک لکھیں یا جاں بحق یا شہید؟ محتاط ڈائریکٹر نیوز کچھ دیر سوچ میں ڈوبے رہے۔ سادہ کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں کھنچتے رہے۔ پروڈیوسر ان کے سامنے چپکا کھڑا رہا۔ آخر انھوں نے سر اٹھایا اور کہا، ’’پروفیسر زیدی کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے اشتعال پھیلے گا۔ خبر میں بس اتنا بتادو، ایک تھانے پر شرپسندوں کا حملہ اور توڑپھوڑ، آگ لگانے سے ایک حوالاتی زندہ جل گیا۔‘‘

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply