بلوچستان کو مکالمے کی ضرورت ہے۔۔۔رحیم بلوچ

بلوچستان کی حالیہ اور سب سے زیادہ تباہ کن مزاحمتی تحریک کو دو دہائیاں پوری ہونے کو ہیں۔ اس سے پہلے جو تحریکیں چلی ہیں، وہ ایک مختصر مدت کے بعد اعلانیہ یا غیراعلانیہ ختم ہوئی ہیں، یہ تحریک سابقہ کی نسبت اگرچہ مدت کے اعتبار سے طویل ہے، لیکن یہ بھی اُسی انجام سے دوچار ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس پانچویں تجربے کی ناکامی اُن لوگوں کے لیے ایک سبق ہونی چاہیے جو بلوچستان کے مسائل کے حل مسلح مزاحمت میں ڈھونڈتے ہیں۔

تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ بلوچستان کی معاشی، سیاسی و ثقافتی پسماندگی میں سب سے زیادہ ہاتھ شدت پسندی کا ہی رہا ہے۔ شدت پسندی کی وجہ سے بلوچستان ایسے لیڈر نہ پیدا کر سکا جو سرداروں و مفاد پرستوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو اور عام لوگوں کی زندگی میں بہتری لائے۔ بلکہ انھی حالات کی وجہ سے بلوچستان کی پارلیمنٹ میں اکثر بیشتر غیر روایتی سیاستدان گئے ہیں۔ اور پہاڑوں میں جذباتی نعرہ باز مورچہ زن ہو گئے ہیں۔

نتیجتاََ بلوچستان کے عوام ایک ایسی جنگ میں پس رہے ہیں کہ نہ وہ اس میں شامل ہیں اور نہ ان کی ہمدردیاں اس میں شامل کرداروں کو حاصل ہیں۔ دو دہائیوں کے دوران دنیا کے لوگوں و ممالک نے ذاتی و اجتماعی حوالے سے جو ترقی کی ہے، اُن سے آج کا ہر شخص تقریباََ واقف ہے۔ اور اس دوران جو مواقع بلوچوں نے ضائع کیے ہیں، وہ مواقع اگرچہ بہت حد تک اب بھی موجود ہیں، لیکن جو وقت چلا گیا ہے، وہ اب موجود نہیں۔ میری خواہش ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ حالات کی ضرورت بھی یہی ہے کہ بلوچستان میں ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے جو علیحدگی پسندی اور شدت پسندی سے ہٹ کر ہو۔

وہ تمام مفروضے جو علیحدگی پسندی سے جڑے خیالات رکھنے والوں نے گھڑے ہیں اور پنجابی دشمنی پر مبنی نسل پرستی اور بغض و نفرت کے جو جذبات ابھارے ہیں، اُن تمام پر مکالمہ اور مباحثہ وقت کی ضرورت ہے۔ بطور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کے، مجھ سمیت ہر شخص کی یقینا یہ خواہش ہو گی کہ بلوچستان میں اسے امن ملے۔ اسے سیاست کرنے کا حق ملے اور دستیاب ذرائع سے وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق فائدہ اٹھائے۔

لیکن بدقسمتی سے ایسے معاملات پر بلوچ لکھاری کم ہی قلم اٹھاتے ہیں۔ عام لوگ جو کہ خود کو ایک بند گلی میں پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں، اُن کی رہنمائی کے لیے نہ دانشورانہ محاذ پر کوئی موجود ہے اور نہ سیاسی محاذ میں ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود ہے جو ترقی پسندانہ سوچ رکھتا ہو اور اس کا مقصد عوام کی خدمت ہو۔

اس مزاحمتی تحریک نے نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کو سیاسی و معاشی طور پر نقصان پہنچایا ہے، بلکہ بلوچستان کو بھی بانجھ بنا دیا ہے۔جب سے یہ تحریک شروع ہوئی ہے، ذاتی حوالے سے اگرچہ بلوچستان میں بہت سارے نوجوان کردار سامنے آئے ہیں، لیکن ایسا کوئی قابلِ ذکر چہرہ سامنے نہیں آیا ہے جو اُن فرسودہ خیالات و افکار کے مقابلے میں نئی سوچ کو پروان چڑھا سکے۔ وہ فرسودہ خیالات جنھیں ترقی یافتہ دنیا سالوں پہلے ترک کر چکی ہے لیکن بلوچستان کا ”انقلابی“ اب تک ان سے چمٹا ہوا ہے۔ ہزاروں تعلیم یافتہ لوگوں کے قتل کا سبب بھی یہی فرسودہ خیالات ہیں۔ ہزاروں ٹیچرز اور ڈاکٹرز، جن کا تعلق بلوچ سوسائٹی سے بھی تھا اور دوسروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد بھی اس فہرست میں شامل ہیں، انہی فرسودہ سوچ رکھنے والے مزاحمت کاروں کی اندھی نفرت کا نشانہ بنے ہیں۔ بلوچستان سے باہر چند لبرل اور ترقی پسندخیالات رکھنے والے لوگ بھی ان مسلح لوگوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں شدت پسندی کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا مطلب عام بلوچوں کے ساتھ ظلم ہے۔ شال سے لے کر گوادر تک، تمام لوگ اس مزاحمتی تحریک سے تھک چکے ہیں۔ انھیں شدت پسندوں کے مطالبات سے کوئی ہمدردی و تعلق نہیں۔ عام لوگوں کی دلچسپی و فکر مندیاں بالکل مختلف ہیں۔ عام لوگ ایک متبادل بیانیہ چاہتے تھے اس لیے شروع میں بلوچستان میں جاری تحریک سے جڑنے کے لئے جزوی طور پر دلچسپی دکھا رہے تھے۔ لیکن جلد ہی عام لوگوں پر یہ بات واضح ہو گیا کہ جنھیں وہ اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں، اصل میں وہ غیر منظم ٹولہ ہے، اس ٹولے میں یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ رہنمائی کر سکے۔

بلوچستان میں عوام مزاحمت کاروں کے ساتھ نہیں، بلوچستان پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر بھی ایسی کوئی جماعت موجود نہیں جو ان حالات میں عوام کی نمائندگی کرسکے۔ مزاحمت کاروں کی شدت پسندی اور سیاسی سرگرمیوں، ووٹ، الیکشنز سے نفرت اور ان سرگرمیوں میں شریک ہونے والوں کی اغوا و قتل کی وجہ سے بلوچستان میں سیاسی عمل شدید متاثر ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سیاسی عمل کو زندہ رکھنے اور شدت پسندی کے خیالات کی بیخ کنی کرنے کے لیے مکالمہ کی ضرورت ہے۔ میں یہ کالم اس امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ سنجیدہ طبقہ بلوچستان کے معاملات میں ایک سنجیدہ مکالمے کا آغاز کرے گا۔
ادارے کا نوٹ:
مذکورہ تحریر کے مندرجات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس میں بعض متنازع باتیں کی گئی ہیں۔ اس تحریر کی اشاعت کا مقصد بلوچ سماج میں منجمند مکالمے کی فضا کو بحال کرنا ہے۔ اس موضوع پر کسی بھی فریق کے مؤقف لیے حال حوال کا پلیٹ فارم حاضر ہو گا۔ بشرطیکہ ذاتیات سے گریز کرتے ہوئے سنجیدہ، بامعنی اور مدلل گفتگو کی جائے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply