خوف ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس نے اپنے گرد قائم وہ خول توڑنا ہے۔ خول جو بس یونہی، اچانک عدم سے وجود میں آیا تھا۔ اسے وہ لمحہ اب بھی یاد تھا نصف گھنٹے جس سے قبل وہ آزاد تھا۔ اس لمحے کے نصف گھنٹے بعد سے اس کی آزادی ایک انجانے خوف کے ہاتھوں مغلوب ہوچکی ہے۔ خوف جو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر چکا ہے۔ خوف جو اس کو وہ کچھ دکھا رہا ہے جو عام حالات میں وہ نہیں دیکھتا۔ خوف جس کے تیس منٹ اس کے کرۂ حیات میں ایک دراڑ ڈال گئے ہیں۔ خوف جس کی یہ دراڑ وہ بس کسی بھی طرح پر کرنا چاہتا ہے۔ خوف جس کا یہ خول وہ توڑ دینا چاہتا ہے۔

اسے وہ لمحہ اب بھی یاد ہے۔ وہ انسانی معاشرتی رشتے نبھانے کی غرض سے سڑک پر اپنی گاڑی میں چند دوستوں کی جانب رواں دواں تھا۔ شہر کی مرکزی مسجد اس کے دائیں جانب جبکہ بائیں جانب پرسکون سمندر موجود تھا۔ دن بھر نیند میں ڈوبی رات تب انگڑائی لے کر اپنے گھنے سیاہ بال شہر پر پھیلانے کو تھی۔ سفید سنگ مرمر کی روشنی میں نہائی مسجد کی عمارت جیسے انگڑائی لیتی اس رات سے معاشقہ چلانے کو بیتاب تھی۔ سمندر جانے کب سے رات دن کی چھپن چھپائی دیکھ کر کسی سفید باریش بزرگ کی طرح متانت بھری پرسکون مسکراہٹ سجائے بیٹھا تھا۔

سب خوبصورت تھا۔

اس کے آگے کئی گاڑیاں خود پر مختلف نام سجائے طبقاتی تفریقات کے تکبر میں غرق رواں تھیں۔ اس کو مگر گاڑیوں کے رنگ نسل سے کہیں زیادہ اندھیرے میں ان کی سرخ روشنیاں پرکشش لگ رہی تھیں۔ وہ فاسٹ لین میں انہی روشنیوں میں گم اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا کہ اچانک۔۔۔

اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں اور دماغ کے درمیان رابطہ جیسے منقطع ہوگیا ہو۔ اسے رنگ دکھائی دے رہے تھے مگر ان رنگوں سے بننے والی تصاویر اور متحرک نظاروں میں جیسے کوئی فرق آنے لگا ہو۔ اسے لگا جیسے اس کا ارتکاز پورے منظر کی بجائے صرف سامنے چلنے والی گاڑی پر پھنس گیا ہو۔ جیسے اچانک دائیں بائیں کے مناظر اس کے جسم کے ساتھ آمیزش کر بیٹھے ہوں۔

اس کا دل دہلنے لگا۔ دماغ کے اس حصے میں جس کا تعلق بینائی سے ہوا کرتا ہے کوئی مسئلہ کھڑا ہوا تھا شاید۔ وہ سوچ سکتا تھا مگر منظر پوری طرح سمجھنے میں دقّت پیش آرہی تھی۔ وہ گاڑی کی رفتار کم کر کے کسی طرح سلو لین میں لے گیا۔ اندازے سے موبائل اٹھایا مگر اس کی توجہ بری طرح خراب ہوچکی تھی۔ نجانے کس طرح آخری ملایا ہوا نمبر ملا کر اس نے کسی کو تیار رہنے کو کہنا چاہا مگر یہ کیا۔۔۔ الفاظ بھی پوری طرح اس کا ساتھ دینے سے انکاری تھے۔ اٹک اٹک کر۔۔۔ رک رک کر۔۔۔ کسی طرح بس وہ یہی کہہ پایا کہ “تیار۔۔ رہو میں۔۔ آرہا۔۔ ہوں۔۔ ہم نے ہسپتال۔۔”

گاڑی سے اترتے ہوئے اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کا جسم پوری طرح اس کے قابو میں نہیں۔ اس کو بچے یاد آرہے تھے۔ اسے یوں لگ رہا تھا گویا گھر سے نکلتے وہ آخری بار اپنے چھ ماہ کے بیٹے کو گود میں لے پایا ہو۔

رفیق اس سے سنتے تھے کہ زندگی حسین ہے، رنگین ہے۔ یہی حسن یہی رنگ مگر تب اس کی چشم زدن پر ایک خوفناک عفریت بن کر ناچ رہا تھا۔ وہ بینا تھا مگر یہی بینائی اس کی رگوں میں دوڑتے خون کے دباؤ کے ساتھ شیطانی اٹکھیلیاں کرنے کے درپے تھی۔ اسی دباؤ کے باعث خون کا کوئی دوڑتا بھاگتا قطرہ اس لمحے اس کے دماغ کی کسی نازک سی شریان سے گتھم گتھا ہو بیٹھا تھا۔ وہ اس لمحے میں مقید ہو کر رہ گیا تھا۔

وہ اس لمحے کی قید سے آزادی حاصل کرنے کے لیے نفس کی وحشت کے خلاف مدلل مقدمہ لڑ رہا ہے۔ نفس ہے کہ بے خوفی کے حق میں دلائل رد کیے جا رہا ہے۔ باشعور نفس سے لڑائی کی قیمت نفس ہی کو تو ادا کرنی ہوتی ہے کہ ہار بہرحال نفس ہی کی ہوا کرتی ہے۔ وہ خود کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ لمحہ جو گزر چکا اب نہیں آئے گا کہ وہ تو فقط لہو کے ایک قطرے کی مہم جوئی تھی۔ کیا بعید اگلی بار لہو کا یہ جوش اس کے جسم کی کسی ایک یا دونوں جانب ہوش کا گلا گھونٹ ڈالے، جواب بھی اندر سے کہیں سوچ کی بازگشت کی صورت میں آیا کرتا ہے۔ وہ خوف زدہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: مورخہ ۱۲ نومبر ۲۰۱۹ کو راقم الحروف مائنر سٹروک transient ischemic attack (TIA) کے خوفناک تجربے سے گزرا۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply