فیض: رحلت کے پینتیس سال بعد۔۔۔۔شاہد ملک

فیض احمد فیض کی پینتیسویں برسی پہ بین الاقوامی جشن کی جھلک دیکھ کر نومبر 1984 ء کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اُس صبح فیض کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے مَیں روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایک کم پڑھے لکھے کارکن سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک راہگیر نے پوچھا ’کہدی گل پے کردے نیں؟‘ ’فیض احمد فیض دی‘۔ ’اوہ کون سن؟‘ ’اوہ۔۔۔ اوہ اک دانا آدمی سی‘ اخباری کارکن نے ’دانا‘ کی ’نا‘ کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔ اُس روز ایک بظاہر کم پڑھے لکھے انسان کی زبان سے ’دانا آدمی‘ کی ترکیب سُن کر مجھے پہلی بار لگا کہ ہر پڑھا لکھا یا ڈگری یافتہ شخص دانا نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے، لیکن خود فیض کی دانائی کو ہم کسِ زمرے میں ڈالیں۔ روایت سے جڑا ہوا نئے تخلیقی تجربات کرنے والا شاعر، جرات مند صحافی یا ایک ادبی پِیر جس کے پردہ کرتے ہی اُس کی ڈھیری پہ ماڈرن مجاوروں نے قبضہ کر لیا ہے؟

اگر اسے گستاخی نہ سمجھا جائے تو فیض احمد فیض کی نظریاتی وفاداری کا موضوع جو اُن کے ہوتے ہوئے بھی متنازعہ تھا، دنیا سے چلے جانے پر بتدریج زیادہ گہرا سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔ اِس ضمن میں قریبی ساتھی احمد ندیم قاسمی کی ’میرے ہمسفر‘ تو بعد میں شائع ہوئی، لیکن اِس سے بہت پہلے ستر کی دہائی میں فیض کے عزیز دوست اور ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ کے مصنف ڈاکٹر ایوب مرزا نے اُن کی سیاسی وابستگی پر اپنی بین السطور رائے دے دی تھی۔ اِس پر جانے پہچانے کالم نویس اور مترجم خالد حسن نے شخصی خاکوں کی اپنی پہلی کتاب میں مصنف کا ’توا‘ لگانے کی کوشش کی اور لکھا: ’مجھے علم ہے کہ ڈاکٹر ایوب مرزا فیض کے مداح ہیں اور بچوں کے بہت بڑے ڈاکٹر۔ مَیں اُن کی جگہ ہوتا تو اپنے مقدس پیشے پہ دھیان دیتا اور دماغ میں وہ خیالات کبھی نہ ٹھونستا جن کے سمجھنے کی مجھ میں اہلیت نہیں‘۔

اچھا ہوا کہ فیض احمد فیض نے سوشل میڈیا کا عہد نہ دیکھا، وگرنہ معترضین اور چاہنے والے دونوں اُن پہ ایسی ایسی رائے زنی کرتے کہ جس کی تصدیق یا تردید فیض کا مزاج تھی ہی نہیں۔ ایک مرتبہ خالد حسن نے دائیں بازو کے ایک موقر اخبار کا نام لیا تو مزے کا مکالمہ ہو گیا۔ ’فیض صاحب، یہ آپ کو ہمیشہ سُرخ دانشور یا انڈو سوویت لابی کا نمائندہ کہتے ہیں مگر آپ نے کبھی جواب نہیں دیا‘۔ ’بھئی وہ بھی (مراد تھی اخبار والے) ہمارے دوست ہیں، اُن کا کام بھی چلتے رہنا چاہیے‘۔ اِسی طرح حفیظ جالندھری کے انتقال پر راولپنڈی کی ایک محفل میں بعض نوجوان دوستوں نے مرحوم کے بارے میں کچھ چبھتی ہوئی باتیں کہیں تو فیض آدھ گھنٹے تک چُپکے بیٹھے رہے۔ پھر دوبارہ چُپ ہونے سے پہلے ایک بلیغ جملہ کہہ دیا ’ساڈے دوست سن، چنگے بھلے ہوندے سن۔ پاکستان بنن توں بعد پتا نئیں کیِہہ ہوگیا؟‘

ویسے جس واردات پر فیض احمد فیض کے جیتے جی فیس بُک اور واٹس ایپ پہ گھمسان کا رن پڑتا وہ جنرل ضیاالحق سے اُن کی ملاقات ہے۔ مجھ جیسے فیض پرستوں کے لیے یہ حیرت کا مقام تھا کہ فلسطینیوں کے جریدہ ’لوٹس‘ کا مدیر، یاسر عرفات، ایڈورڈ سعید اور محمود درویش کا ساتھی اور لبنان کی خانہ جنگی کا چشم دید گواہ پاکستان لوٹے اور جنرل ضیا سے ملنے پہنچ جائے۔ ’بھئی، یہ اُس دن کا قصہ ہے جب اسلام آباد میں جوش ملیح آبادی کا انتقال ہوا۔ مَیں نے ملتے ہی کہا کہ ملک کی ایک بڑی تخلیقی شخصیت کے جنازے پر حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ کہنے لگے کہ واقعی کوتاہی ہو گئی۔ ساتھ ہی پوچھا کہ میرے لائق کوئی کام؟ ہم نے کہا کہ ہمیں پاکستان آتے جاتے بہت تنگ کیا جاتا ہے۔ بولے اب نہیں ہوگا۔ اتنی دیر میں چائے کی پیالی ختم ہو گئی اور ہم چلے آئے۔ بس اتنی سی بات تھی‘۔

جوش صاحب کا احترام ایک تو اُن کی ادبی حیثیت اور بزرگی کے پیشِ نظر تھا۔ دوسرے سرینگر میں فیض احمد فیض اور ایلس جارج کی تقریبِ نکاح کے شرکاء میں جعفر علی خاں اثر، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور ڈاکٹر نور حسین کے علاوہ جوش ملیح آبادی بھی تھے۔ نکاح کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اثر لکھنوی اور ڈاکٹر تاثیر تعارف کے محتاج نہیں۔ ہاں، ڈاکٹر نور حسین ہمارے خالد حسن کے والد تھے او ر اُن کی اہلیہ میرے ابا کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ ابا جان کو لاہور میں ڈاکٹر صاحب ہی نے فیض، اُن کی بیگم اور ساس سسر سے ملوایا تھا۔ چنانچہ میرے اپنے گھر میں فیض کا چرچا اِسی حوالے سے ہوتا۔ ابتدائی پاکستان ٹائمز کی معیاری صحافت اور وہ سچائیاں جنہیں رقم کرنے کی خاطر شاعر کو اپنی انگلیاں خونِ دل میں ڈبونی پڑیں، یہ دھیرے دھیرے سمجھ میں آئیں۔

آج تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے ہمارے معاشرے میں بعض دوستوں کو میرا یہ کہنا عجیب سا لگے گا کہ شعوری طور پہ فیض احمد فیض کا ذکر ایک سات سالہ لڑکے نے پہلی بار الطاف حسین قریشی کے اردو ڈائجسٹ میں پڑھا تھا۔ منتخبہ نمونہء کلام سے پہلے عنوان کے الفاظ تھے ’فیض جس کی آنکھ قطرے میں دجلہ دیکھتی ہے‘۔ والد سے پوچھا دجلہ کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے تھوڑی سی وضاحت کی۔ مجھے معانی کی گہرائی میں پہنچے بغیر یہ امیج بہت اچھا لگا۔ اِس موقع پہ انہوں نے دو باتیں اور بتائیں۔ ایک تو یہ کہ فیض کی پہلی کتاب ’نقشِ فریادی‘ اول اول کشمیری محلہ سیالکوٹ والے دوست الطاف سے لے کر پڑھی تھی۔ دوسرے، فیض احمد فیض کو چند سال پہلے جیل میں ڈال دیا گیا تھا کیونکہ یہ لوگ جموں و کشمیر میں جنگ بندی کے خلاف تھے۔ یہ دوسری بات اُس وقت کچھ سمجھ میں آئی، کچھ نہیں آئی۔

قطرے میں دجلہ دیکھنے سے لے کر ’ہم دیکھیں گے‘ کی سوگ میں ڈوبی ہوئی لَے تک بیس برس کا وقفہ ہے۔ اِس نظم کو قبولیتِ عام کا درجہ بعد میں ملا۔ لیکن مَیں نے صبحِ انقلاب اور یومِ حشر کو یکجا کر دینے والا یہ الوہی پیغام اول اول پاک ٹی ہاؤس لاہور میں یومِ مئی کے اجتماع میں سنا جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پہ چڑھے ستائیس دن ہوئے تھے۔ آواز تھی اقبال بانو کی اور دھُن بنائی تھی اسلامیہ کالج سول لائینز کے شعبہء طبیعات میں دائمی مسکراہٹ والے اسرار احمد نے۔ اِس مختصر سے اجتماع میں حبیب جالب نے تازہ کلام سنایا اور پروفیسر امین مغل نے تقریر کی۔ ضیاالدین ڈار، قیصر ذوالفقار بھٹی، انتظار مہدی اور طاہر یوسف بخاری کرسیوں کی ایک ہی قطار میں بیٹھے تھے۔ ہم عام جیالوں سے پختہ تر شعور رکھنے والے لوگ سہی، لیکن اُس وقت سبھی کو لگا کہ فیض ہمارے قافلہء درد کے سالار بن گئے ہیں۔

آج فیض احمد فیض کی رحلت کے پینتیس سال بعد ایک بدلی ہوئی دنیا میں ہم فیض کو ری وزٹ کریں تو کیسے کریں؟ مطلب یہ کہ ہمارے تجزیے کا ڈھانچہ کیا ہونا چاہئیے؟ یارِ عزیز ثقلین امام نے، جو انگلستان میں بیٹھ کر اچھے اچھے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں، اِس مرتبہ لیفٹ اور لبرل کے تقابلی جائزے کی غرض سے جن خد وخال کی نشان دہی کی، وہ دلچسپی سے عاری نہیں۔ جیسے یہی کہ لیفٹسٹ سرمایہ داری کا مخالف اور سامراج دشمن ہوتا ہے جبکہ لبرل سرمایہ داری کا حامی اور سامراج نواز ہوتا ہے۔ لیفٹسٹ کی سوچ بین الاقوامی ہوتی ہے اور لبرل کی قوم پرستانہ۔ اِس سے بھی نمایاں نکتہ جس پہ ہر ’دانا آدمی‘ کے ورلڈ ویو کا دارومدار ہوگا، ایک ازلی و ابدی فرق ہے، وہ یہ کہ لیفٹسٹ کا بنیادی ہتھیار طبقاتی جدوجہد ہے اور لبرل کا طبقاتی اشتراک۔ یہاں یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ ’ثقلین میاں مروا دیا‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

اِس جدول کو سامنے رکھ کر آج تاریخ میں اپنے پیر و مرشد کو کہِیں فِٹ کرنے کی کوشش کروں تو دُور سے انہی کی آواز سنائی دے گی کہ بھئی تم نے گڑ بڑ کردی۔ سوچتا ہوں کہ پینتیسویں برسی والا فیض فیسٹول اُن کے جیتے جی ہورہا ہوتا تو کیا نقشہ بنتا۔ وہی کہ ہم مزدور کسان پارٹی کے سُرخے میجر اسحاق اور افضل بنگش کے نام پہ سی آر اسلم اور عابد منٹو کی سوشلسٹ پارٹی کے سُرخوں سے وہابی سُنی لڑائی کی طرح دوست و گریباں ہو رہے ہوتے کہ فیسٹول منانا نظریاتی طور پہ جائز ہے یا نہیں۔ خود فیض کو ڈھونڈنے نکلتے تو پتا چلتا کہ آپ تو میاں محمد بخش کے عرس کی طرح دستار بندی سے فارغ ہو کر دولہا بنے بیٹھے ہیں۔ اپنی بھتیجی ناعمہ کے اصرار پر فیسٹول میں جانے کے لیے نکل تو پڑا ہوں مگر بابا گرونانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن اور بابا فیض احمد کی پینتیسویں برسی پہ دوبارہ ایک معجزے کی تمنا ہے کہ الحمرا پہنچوں تو ساری انگریزی فقرے بازیاں اور بازاری پوسٹر پھولوں کی ڈھیر ی میں تبدیل چکی ہوں۔

Facebook Comments

شاہد ملک
ورکر گورنمنٹ آف پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply