ایم ٹی آئی:حقیقت اور افسانہ۔۔۔یاسمین راشد

آج کا موضوع مجوزہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن ایکٹ ہے جس پر ماضی قریب میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ٹیچنگ اسپتال صحت عامہ کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ افرادی قوت، اسٹاف کی ٹریننگ اور ریسرچ کے حوالے سے ان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ان اسپتالوں کے مسائل پیچیدہ ہیں اور ان کو حل کرنے کے لئے انتظامی حوالوں سے بہت اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ محکمہ صحت پر 230ارب روپے کی خطیر رقم سے زائد خرچ کرنے کے باوجود مسائل کا جوں کا توں ہونا، اندرونی اختلافات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے، ادارہ جاتی گروہ بندی، محکمہ میں احتساب کے نظام کا نہ ہونا اور دیگر مسائل کا ایک ایسا پہاڑ تھا جس سے مجموعی کارکردگی پر بُرا اثر پڑ رہا تھا۔ صرف ایک بستر کا سالانہ خرچہ چالیس سے پچاس لاکھ تک جا پہنچا تھا۔ اور اس کے باوجود سروس ڈیلیوری اور کارکردگی پر بہت سے سوال موجود تھے۔ تقریباً تیرہ لاکھ کے قریب افرادی قوت کی خدمات کو محض اس لیے درست استعمال نہیں کیا جارہا کیونکہ تمام اختیارات کا ارتکاز سیکریٹریٹ کے پاس تھا۔ 26ہزار کے قریب شکایتوں اور انکوائریوں کا سلسلہ حل کرنے کیلئے عملہ شب و روز مصروف تھا جبکہ دیگر بہت سے اہم کام پڑے ہوئے تھے۔ وسائل کا یہ ضیاع کوئی بھی قوم برداشت نہیں کر سکتی۔ اور سب سے بڑھ کہ عام آدمی اور مریض سب سے زیادہ متاثر ہو رہے تھے۔ سو غور و فکر کے بعد طے ہوا کہ پائیدار انتظامی اصلاحات متعارف کروائی جائیں اور صحت کے نظام میں بہتری لائی جائے۔ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن ایکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں انتظامی اور مالی حوالوں سے ایسی تبدیلیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں جو دورِ جدید کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ اسے متعارف کروانے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز سے درجنوں میٹنگز کی گئیں اور سب سے تجاویز لے کر ان کی مشاورت سے مسودہ میں بار بار ضروری تبدیلیاں کی گئیں۔ تاہم ہمیں حیرت ہوئی کہ ہمارے ساتھ بیٹھنے والے اچانک کوئی دلیل دیے بغیر احتجاج کرتے نظر آئے جبکہ ہم بات چیت کے ذریعے قانون کو سب کیلئے قابلِ عمل بنانے کی سعی کر رہے تھے اور پھر کچھ لوگوں نے ایم ٹی ایکٹ کو پڑھے اور جانے بغیر رد کر دیا جو غیر متوقع تھا۔ ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بار بار بات کی۔ سب سے ان کی ضروریات اور پیشہ ورانہ رکاوٹوں کے بارے میں تفصیلی سیشنز کئے۔ ڈاکٹرز کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہ کو ان کی تعلیم اور قابلیت کے تناسب سے بڑھایا جائے۔ اب تمام ڈاکٹرز کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا رہا ہے اور پھر تنخواہ کو بہتر کارکردگی کے بعد بڑھایا بھی جا سکے گا۔ ڈاکٹرز کو آزادی ہے کہ وہ ایم ٹی آئی کے تحت زیادہ تنخواہ پر کام کریں یا مروجہ بی پی ایس کے تحت ملازمت جاری رکھیں۔ ڈاکٹرز دونوں اقسام کے سروس اسٹرکچر میں کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اپنے لیے اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس سے بہتر آفر اور کیا دی جا سکتی ہے۔ اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ مالی اور انتظامی خود مختاری کے بغیر کارکردگی میں بہتری نہیں آ سکتی۔ اور مجوزہ قانون اصل میں ان اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے کی طرف ہی ایک قدم ہے۔
اختیارات کے ارتکاز سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل ایم ٹی ایکٹ کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے سے کارکردگی میں بہتری کے علاوہ احتساب کا موثر نظام قائم ہو پائے گا۔ اختیارات کو ادارے کے متعلقہ افسران کے سپرد کرکے اور موثر مقامی خود مختاری سے مریض کا بہتر علاج ممکن بنایا جا سکے گا۔ اس تمام عمل میں بار بار ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا اور مریض کے لیے پریشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجکاری کا لفظ ایم ٹی آئی کے ساتھ غیر مناسب طور وابستہ کیا گیا۔ یہ بات بار بار واضح کی گئی کہ اسپتالوں کو فنڈز خود حکومت فراہم کرے گی، عملے کو ملازمت حکومت ہی دے گی۔ مفت ادویات حکومت ہی فراہم کرے گی۔ مانیٹرنگ حکومت خود کرے گی، ترقیاں خود دے گی، آڈٹ خود کرے گی، کارکردگی خود جانچے گی۔ اسے پرائیوٹائزیشن کہنا نامناسب اور غلط ہے۔ تمام دنیا میں اور حتیٰ کہ درجنوں حکومتی ادارے بورڈ آف گورنرز کے تحت کام کرتے ہیں لیکن وہاں کبھی بھی اسے پرائیوٹائزیشن نہیں کہا گہا۔ لیکن یہاں احتجاج کے لیے اس نام کو بھی استعمال کیا گیا۔ یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ماضی میں اسی طرز پر ہونے والی اصلاحات اور ان کے نتائج کا مکمل مطالعہ کیا گیا ہے اور مناسب تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پچھلی اصلاحات اور قوانین کی کامیابی اور ناکامی کے تمام عوامل کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا ہے۔ بورڈ آف گورنرز کے علاوہ ون لائن بجٹ کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے۔ ادویات کی بروقت خریداری، مشینری کی بروقت مرمت اور خریداری، اور دیگر معاملات میں رکاوٹوں کو دور کرنے سے عام آدمی کو مکمل ریلیف ملے گا۔ اسپتالوں میں بروقت فنڈز کی فراہمی سے ادویات اور مشینری ہمہ وقت میسر ہوں گی۔ مالی آزادی دینے کے بعد حکومت کارکردگی کے اشاریوں کے نظام پر ان اداروں کی کارکردگی جانچے گی۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ کے ذریعے کارکردگی اور مالی معاملات کا موثر نظام قائم کیا جائے گا۔ ایم ٹی ایکٹ ابتدائی طور پر منتخب ٹیچنگ اسپتالوں میں متعارف کروایا جا رہا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد ان اداروں میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ چونکہ ٹیچنگ اسپتالوں میں میڈیکل کی تعلیم اور ریسرچ جیسے اہم کام بھی سر انجام دئیے جاتے ہیں اس لیے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہاں علمی اور پیشہ ورانہ استعداد کے حوالے سے ایم ٹی آئی سے پہلے اور بعد میں کیا فرق دیکھنے کو ملا۔ ایم ٹی ایکٹ کے تحت عملہ کو مارکیٹ بیسڈ تنخواہوں کے علاوہ کارکردگی سے جڑی ترقی اور تنخواہوں کا ایک نظام شامل ہے۔ اچھی کارکردگی والوں کے لیے بونس اور ترقی جبکہ کام نہ کرنے والوں کے لیے احتساب کا نظام بھی ساتھ ہی دیا گیا ہے۔ چند سالوں میں تاریخ اپنا فیصلہ دے رہی ہوگی۔ کامیابی اور ناکامی بہرحال تاریخ ہم سب کے حصے میں ڈالے گی۔

نوٹ: یہ کالم نویس کا ذاتی موقف ہے،اس پر کوئی اپنی رائے دینا چاہے تو اداتی صفحات حاضر ہیں۔ (ادارہ)

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply