فاش۔۔۔۔مختار پارس

آپ لوگ بلا وجہ مجھ ناچیز سے خفا ہو رہے ہیں۔ میں نے تو کسی کا نام بھی نہیں لیا اور نہ کسی ملک، نہ کسی شہر کا ذکر کیا ہے۔ میں نے تو فقط یہ کہا ہےکہ ہم سب شاید ایک حمام میں ہیں جہاں ستر پوشی کی  گنجائش نہیں ہے ۔ ہر شخص بڑے سکون سے ‘سوانا باتھ کے مزے لے رہا ہے۔ کوئی کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کر رہا کیونکہ سب بے لباسی کے پہناوے زیب تن کیے نہا دھو رہے ہیں ۔ ایسے میں کوئی مکمل کپڑوں میں ملبوس پاگل اس حمام میں داخل ہو جائے تو سارے برہنہ چونک کر اس نووارد کو دیکھیں گے جس نے ان کی پرائیویسی کو ڈسٹرب کر دیا ہے ۔ میرا قصور صرف اتنا ہے۔ آپ میری باتوں پہ توجہ نہ کریں، مجھے نظر انداز کر کے نہاتے رہیں۔ میں نے کپڑے ضرور پہنے ہوئے ہیں مگر میں آپ کو نہیں دیکھ رہا۔ میں تو خود اپنا تولیہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ادھر آ نکلاہوں۔ مجھے معاف کر دیں اور اپنا مٹر گشت اس گرم حمام میں جاری رکھیں۔

انسان اپنی تخلیق کے وقت برہنہ نہیں تھا۔ یہ بات سمجھنے کےلئے کہانی کو دہرانے میں کوئی ہرج نہیں ۔ جب خدا نے آدم کو سارے نام دکھا دیے تو ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ایک درخت ہے جس کے نزدیک نہیں جانا۔ اب ذرا غور سے دیکھیے کہ کائنات کی ابتدا ہو رہی تھی اور انسانی شروعات کے اصول طے ہو رہے تھے۔ روایت ہےکہ انکل آدم خاصے تابعدار انسان تھے لیکن ان کی پسلی والی سائیڈ پر تھوڑی بےچینی رہتی تھی۔ ابتدائے آفرینش کے ان لمحات میں ابلیس بھائی جان نے اماں حوا کے کان میں آ کر کہا کہ شجر ممنوعہ میں تو حسن لازوال کے نسخے ہیں اور قدرت آپ سے یہ ٹوٹکے چھپا رہی ہے ۔ یہی بات اماں حوا نے انکل آدم سے کہی جبکہ بھائی جان ابلیس پتلی گلی سے نکل گئے ۔ بتایا یہی گیا ہے کہ جیسے ہی دنیا کے پہلے انسانوں نے اس درخت کا پھل کھایا، وہ برہنہ ہو گئے۔ تو دنیا میں زندگی کا پہلا اصول یہ طے ہوا کہ جب بھی آپ حکم خدا کے منکر ہونگے، سب کے سامنے بالکل واضح ہو جائیں گے۔ پردے رکھنے والی ذات تو پردے رکھے ہوئے ہے۔ انسان خود اگر چاک گریباں ہونے کا فیصلہ کر لیں تو اس میں درزیوں کا تو کوئی قصور نہیں ۔

تو طے یہ ہوا کہ فاش ہونے کا کپڑوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ سچ تو یہ ہے  کہ پوشاکیں برہنگی چھپا ہی نہیں سکتیں ۔ زمانے کا مزاج یہ ہے کہ اگر کسی نے قیمتی کپڑا پہنا ہو تو یہ سمجھنے کےلئے کافی ہے کہ وہ یقیناً اترن ہے، یا استعماری نظام کی یا کسی غریب کی امیدوں کی۔ قدرت کا انتقام بھی دیکھیے کہ متمول لوگوں کو شوق ہی مختصر لباس کا عطا ہوتا ہے۔ چیری پھاڑی پھٹی ہوئی پینٹوں کا فیشن صرف اس بات کا انتظام ہے کہ مذموم ذرائع آمدنی سے حاصل کئے گئے کپڑوں میں جسم چھپ نہ سکے۔ لوگ تو مسجد میں منبر پر کھڑے شخص کا گریبان پکڑ لیتے ہیں کہ یہ کپڑے کہاں سے آئے ہیں ۔ مکافات عمل میں کچھ بھی راز نہیں اور کوئی یہاں چھپ نہیں سکتا۔ صرف ایک ذات ہے جو خود بھی پردے میں رہتی ہے اور دوسروں کے بھی پردے رکھتی ہے۔ یہ اعزاز صرف حضرت انسان کا ہے جسے ہر وقت یہی دھن لگی رہتی ہے کہ کب کس کے سر سے چادر کھینچنی ہے اور کب کس کا دامن تار تار کرنا ہے۔

حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ فاش کرنے اور فحش ہونے میں فرق نہیں رہا۔ کچھ عرصہ ہوا، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر فرانس میں ایک عالمی اجتماع ہوا۔ رہنماؤں کی توجہ حاصل کرنے کےلئے احتجاج بھی ہوئے۔ کسی نے کپڑے پھاڑ کر احتجاج کیا اور کسی نے اتار کر۔ کئی آبلہ پا سر ِبازار ناچ کر داد وصول کرتےہوئے پائے گئے۔ ایک مجسمہ ساز نے اس تحریک کی یاد میں پھولوں کا ایک مجسمہ تیار کر کے بھرے چوک میں ایستادہ کر دیا۔ پھول بہاروں کی ترجمانی کرتے ہوئے گل و گلزار ہو رہے تھے مگر ان کے لپٹنے میں ایک رنج اور ایک خوف تھا۔ دنیا اس گلوبل وارمنگ کی اس علامت کو دیکھنے کےلئے جمع ہو گئی ۔ اس مجسمے کو دیکھ کر عوام نے جو اجتماعی موقف اختیار کیا، وہ اجتماعی زیادتی سے کم نہیں تھا ۔ لوگوں کی حس لطیف منہ میں پلو دبا کر بھاگ گئی جب یہ کہا گیا کہ وہ مجسمہ ‘پورن آرٹ’ ہے۔ بخدا میں نے اس نقطہء نظر کے بعد اس پھولوں کے مجسمے کو اور بھی غور سے دیکھنے کی کوشش کی مگر مجھے تو کہیں سے کوئی برہنگی کی جھلکیاں نظر نہیں آئیں۔ اس وقت سے میں اس شدید تشویش میں مبتلا ہوں کہ یا تو دنیا میں معیار بلوغت بدل گیا ہے یا پھر میں ایسا بےخبر طفل مکتب ہوں کہ عالم خیر و شر میں نہ کچھ نظر آتا ہے نہ کچھ سمجھ آتا ہے۔ اس چالاک دنیا کے تیور ہی ایسے ہیں ۔ جو بھی کسی مکروہ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتاہے، دنیا اسی پر تھو تھو کرتی ہے اور اس پر ہراسیت کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔ یہاں نہ کوئی صنم کی سنتا ہے اور نہ صنم خانے کی۔ یہاں سب بھوت ہیں اور سب مبہوت ہیں ۔

میں نے اٹھارویں صدی میں تخلیق کیے گئے مصوروں کے رنگین مزاج کینوس دیکھ رکھے ہیں ۔ دیوتاؤں اور بادشاہوں کے حالات اور معاملات ان فن پاروں میں کچھ ایسے محفوظ ہیں کہ ان کے عزائم کی گواہی ان کی پوشیدگیاں دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مصوروں نے انہیں بے لباس تحریر کیا ہے کہ دیوتاؤں اور ناخداؤں کو کپڑوں میں کس نے دیکھنا ہے ۔ نور تو خود ایک لباس ہے۔ مائیکل اینجلو سے پیبلو پکاسو تک سب نے یہ طے کر دیا ہے کہ لباس کا محتاج وہی ہے جس نے کچھ چھپانا ہے۔ مصور کی نظر خدوخال میں بھی احساس و جذبات ہی ڈھونڈتی ہے۔ رنج و غم و الم نے ہر اس تصویر کو یکتا کر دیا جس میں حدود و قیود سے انسان کی جنگ جاری ہے۔ مقصد زیست اس جنگ کو دیکھنا ہے، حالت جنگ میں لباس کون پوچھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے پختہ نظر کیوں نہ ہو سکے۔ کسی کے کوہ طور سے ذرا سی بھی جھلک دکھائی دے جائے تو سب سرمے کا ڈھیر بن جاتے ہیں ۔ خدا سے اتنی تو بے نیازی سیکھ لینی تھی کہ کوئی کچھ بھی ہو، جیسا بھی ہو، ہم اس کے پاس سے چپکے سے گزر جائیں ۔ حسن بیتاب و کم یاب کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ ہم میں کیوں نہیں ۔ چاند اور چکور کے افسانے دل کا فسوں بن کر کیوں رہ گئے ہیں ۔ گہری اور اندھیری راتوں میں اٹھ کر ریاضتیں کرنے والے کیا ہوئے ۔ میرے خدا ! جانتا ہوں کہ تو ستار العیوب ہے مگر ہماری سوچ پر پڑے پردے اتارنا بہت ضروری ہے۔ کچھ ایسا کر کہ منظر صاف اور شفاف ہو جائے ۔ جانتا ہوں کہ تو مجھے ‘اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے’ والی آیت سنا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیت ٹھیک ہو گی تو ہمیں صحیح نظر آئے گا۔ مگر میں یہاں کچھ کر نہیں سکتا ۔ یہ ایک ٹیکنیکل فالٹ ہے اور اس کا سافٹ وئیر میرے پاس نہیں ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply