• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فیملی پلاننگ ، ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔۔۔سلیم جاوید/تیسری،آخری قسط

فیملی پلاننگ ، ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔۔۔سلیم جاوید/تیسری،آخری قسط

فیملی پلاننگ ، ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔۔۔سلیم جاوید/قسط1

فیملی پلاننگ ، ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔۔۔سلیم جاوید/قسط2

رسول خدا نے اپنے صحابہ کو ایک نصیحت کی تھی (جسکا پس منظر یا پیش منظر تو ہم نہیں جانتے) جو لفظ بہ لفظ  یوں رپورٹ کی گئی ہے –

عن معقل بن يسار قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم  :  ”  تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم ” . رواه أبو داود والنسائي

ترجمہ :  حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنیوالی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا –

برادران کرام!

رسول اکرم کی اس نصیحت کا ایک خاص ٹارگٹ ( ہدف ) ہے –  یہ ہدف  ” مسلمانوں کی کثرت ” نہیں بلکہ ان مسلمانوں کی کثرت ہے جورسول کیلئے قابل فخر ثابت ہوں-

بروزمحشر (جو کہ رزلٹ کا دن ہے ) ، امت کی تعداد کی خالی کثرت بھی کوئی قابل فخر بات ہوسکتی ہے بھلا ؟ – کیا یہ الکشن میں ووٹ گنے  جارہے ہیں ؟ –

اگر ایسی بات ہے توپھر ہم ہار ہی گئے کیونکہ قیامت تک ، تعداد میں غیرمسلم ہی زیادہ رہیں گے ( بلکہ آخری زمانہ میں تو دنیا بھر میں ایک ہی کلمہ گو باقی رہ جائے گا ) –

اسلام ، ” کوانٹٹی  ” کا نہیں بلکہ ”  کوالٹی ”  کا دین ہے – زیادہ نمازیں نہیں بلکہ اچھی نمازیں مطلوب ہیں ( کتنی نمازیں  واپس منہ پہ مار دی  جاتی ہیں )-  زیادہ روزے نہیں بلکہ معیاری روزے مقصود ہیں ( کئی لوگوں کے روزے  فقط  فاقہ شمار ہوتے ہیں ) –

یوں تو کامن سینس کی بات ہے مگرایک مثال سے  مزید واضح کرتا ہوں-

مدارس سے سالانہ امتحانات کے نتیجہ کا دن  ہے –  دو عدد سکول ہیں جن میں  باہمی مقابلہ ہے اور دونوں کے پرنسپل  صاحبان بھی موجود ہیں –

ایک پرنسپل کے سکول میں ایک ہزار بچے  پڑھتے ہیں جن میں سے 10 بچے پاس  ہوئے اور 990 فیل ہوگئے –

دوسرے پرنسپل کے سکول میں کل  سو بچے پڑھتے ہیں جن میں سے  80 پاس اور 20  فیل ہوگئے-

بتایئے کہ دونوں میں سے کونسا پرنسپل فخر محسوس کرے گا اور کس تعداد پر؟

کل بچوں کی تعداد ، پاس ہونے والوں کی اور فیل ہونے والوں کی تعداد آپ کے سامنے ہے- کیا کل تعداد پر یا پاس شدہ کی تعداد پر فخر کیا جائے گا ؟- لہذا کثرت کا حقیقی معنی سمجھا جائے – ( خدا معاف کرے ، ہمارے جیسے کروڑوں امتی  دھڑا دھڑ پیدا کردیئے جائیں تومیرا نہیں خیال کہ یہ نمونے پیش کرکے ، رسول خدا ، دوسرے رسولوں پر فخر کا اظہار کریں  گے ) –

حدیث شریف میں مگر بڑی  وضاحت سے” زیادہ بچے ”  پیدا کرنے کی  بابت حکم موجود ہے –

آیئے اسکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں –

دیکھئے ، بغیر کسی خاص مقصد  /  وجہ  /  ہدف یا علّت کے نہ تو کوئی حکم دیا جاتا ہے اور نہ ہی نصیحت کی جاتی ہے –  حکمیہ  جملہ البتہ تین صورتوں میں بیان ہواکرتا ہے – کبھی تواس جملے میں ” مجرد حکم ”  ہی دیا جاتا ہے –  ( کھانا کھایا  کرو) –  کبھی اسکے ساتھ  علت یا  ہدف  بھی بیان کردیا جاتا ہے (  تاکہ صحت مند  رہو)  اور کبھی اسی جملے میں ہدف  کو حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بتادیا جاتا ہے – (ایک سیب روزانہ )-

جب ایسا کوئی  تفصیلی جملہ سامنے آجائے  جس میں ”  حکم ، ہدف اور اس ہدف کو حاصل کرنے والے ذرائع یا اسباب ”  یعنی تینوں باتیں  بیان کی گئی ہوں تو اس حکم میں اصل چیز ” ہدف  ” ہی ہوتا  – اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے بتائے گئے  ذرائع ، اصل حیثیت نہیں رکھتے –

ایک حکمیہ جملہ دیکھئے :  ”  روزانہ دس گھنٹے پڑھا  کرو تاکہ کلاس میں فرسٹ  آجاؤ “-

اس حکم میں ہدف  کیا ہے ؟ –  فرسٹ پوزیشن لینا

اس ہدف کو حاصل کرنے کا ذریعہ یا سبب کیا ہے ؟ –  دس گھنٹے پڑھنا-

اس حکم میں اب اصل حیثیت کس بات کو حاصل ہے ؟-  اس پر خود سوچیے-

اگر دس گھنٹے پڑھنے سے بندہ بیمار ہوجانے اور پھر فیل  ہوجانے کا ڈر ہو تو کیا  کیا جائے گا ؟- کیا  پھر دس گھنٹے سے کم پڑھنے والا  نافرمان شمار ہوگا ؟-  ( میرا تو خیال ہے کہ کمزور لڑکے کو دس گھنٹے پڑھنے پر مجبور کرنے والا استاد ہی نافرمان یا کم از کم بیوقوف شمار ہوگا )-

چنانچہ مذکورہ بالا حدیث میں بھی ایک  ہدف بیان ہوا ہے اور  ایک اسکا ذریعہ بیان ہوا ہے-

ہدف ہے  ” تم جیسوں  کی کثرت ”  یعنی  ” صحابہ  جیسوں کی کثرت ” –  بالفاظ دیگر ” امت کے قابل فخر طبقہ کی کثرت ” ( کیونکہ جو طبقہ مخاطب تھا ، وہی معیار ہے ) –

اگرذرا سا بھی سوچا جائے تو بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں دراصل ، بچوں کی تعداد کا نہیں بلکہ انکی صفات کا ایشو ہے – یہی ہدف  تاقیامت رہے  گا مگر زمان ومکان کے لحاظ سے اسباب میں فرق آتا جائے گا-

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے زمانہ نبوت میں کیا اسباب بتائے گئے تھے : زیادہ بچے پیدا کرنا-

فرض کریں کہ کسی خاص زمانہ یا خاص سوسائٹی میں اگر زیادہ  بچے پیدا کرنے سے ” قابل فخر طبقہ ” کم ہوتا ہو جبکہ کم بچے پیدا کرنے سے یہ ہدف زیادہ حاصل ہو تواس صورت میں منشائے حکم کیا ہوگا ؟-  ذریعہ بدل کر ہدف کو حاصل کرنا یا ہدف کو چھوڑ کرذریعہ کو پکڑے رہنا؟-

برادران کرام !

مجھے امام ابوحنیفہ صاحب سے اس بنا پر عقیدت ہے کہ وہ  شرعی احکام کے اصل  اہداف پرغور کیا کرتے تھے –  بوجوہ ، ہمارے زمانہ کے علما ئے کرام ، ” اہداف ”  کی بجائے ”  ذرائع ” کوترجیح دینے لگ گئے جسکی  وجہ سے عجیب صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ہے –  تفصیل کا موقع نہیں مگر اس ضروری امر کو واضح کرنے ( اور اپنا سیکولر نقطہ نظر بیان کرنے  کیلئے) ، ایک اور حدیث شریف آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں – اس حدیث کو  شریعت اسلامی کی ایک بڑی عظیم اساسی رولنگ قرار دیا جاتا  ہے-

ملاحظہ کیجئے –

عن أبي سعيدٍ الخدري رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:

من رای منکم منکرا ، فلیغرہ بیدہ فان لم یستطع  فبلسانہ ، فان لم یستطع فبقلبہ ، وذالک اضعف الایمان  

یہ حدیث ، مسلم، ترمذی ، ابن ماجہ اور نسائ ، سب کتب نے روایت کی ہوئی ہے.

میرے محدودمطالعہ میں، ہر جگہ اسکا ترجمہ یوں ہی لکھا دیکھا ہے:

” نبی اکرم کا ارشاد کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے اگر اس پر قدرت ہوکہ اس کو ہاتھ سے بند کردے تو اسکو بند کردے – اگر اتنی مقدرت نہ ہو تو زبان سے اس پر انکار کردے – اگر اتنی بھی قدرت نہ ہو تو دل سے اسکو برا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے ” –

خاکسارکے خیال میں یہ درست ترجمہ نہیں ہے کیونکہ اس میں ” ہدف ” کی بجائے ” اسباب ” کوفوقیت دی گئی ہے  چنانچہ ، اسکے نتیجہ میں ایک غلط رویہ وجود میں آتا ہے –

اگر اسی ترجمہ کو لیا جائے تومنظر نامہ کچھ یوں بنے گا-

ایک جگہ محفل رقص وسرود برپا ہے ( اس محفل کو ایک منکر عمل باور کرایا جاتا ہے)-

اس موقع پر سب سے بہترین مسلمان وہ ہوگا جو ہاتھ کے استعمال سے اسکو روک دے ( بم ، کلاشنکوف ،  چاقو ،  ڈنڈہ ،  مکا  تھپڑ ، درجہ بہ درجہ ہاتھ  کا استعمال ہے ) –

دوسری پوزیشن اس مسلمان کو حاصل ہوگی جو زبان سے کام لے کراسکو بند کردے ( دھمکانے سے لے کر گالی گلوچ تک)-

جبکہ آخری درجہ کا مسلمان وہ ہوگا جواس پہ خاموش رہ جائے مگر اسے ایک برائی سمجھے-

اب دیکھیے کہ مسلم سیکولرز، اسی حدیث شریف کی تشریح کیسے کیا کرتے ہیں؟-

پہلی بات تو یہ کہ حدیث کےعربی متن میں ”  برائی کو بند کرنے ” کا نہیں  بلکہ اسکو اچھائی سے” چینج ” کرنے کا حکم ہے – (  فالیغیرہ ) – اور یہی ” ہدف ”  ہے –

نے ” بند کرنے ” کی  بجائے درست  ترجمہ ” تبدیل  کرنا ”  کردیا تو حدیث کی تشریح بدل گئی – اب ہاتھ ، زبان ، یا خاموشی والے ذرائع میں سے جوذریعہ اختیار کرنے سے ایک برائی ، اچھائی  میں تبدیل ہوگی  وہی ذریعہ افضل قرار پائے گا  نہ کہ حدیث کے متن والی ترتیب پر ہی اصرار ہوگا –

ہمارے ترجمہ کے مطابق ، منظر نامہ کچھ یوں بنے گا :

سب سے بہترین مسلمان وہ ہوگا جو برائی کو اچھائی میں بدل کردکھائے  چاہے ہاتھ کے استعمال سے ہو یا زبان سے یا خاموش حکمت عملی  سے- ( ہاتھ کے استعمال کا معنی بھی صرف ” ہاتھ  اٹھانا ” نہیں ہوتا بلکہ ”  ہیلپنگ  ہینڈ ” بھی صورتحال کو بدل دیا کرتا ہے اور اکثر بدلا کرتا ہے)-

تاہم ، اگر ہاتھ کے استعمال سے ” برائی” کے مزید بڑھ جانے کا خوف ہو تو پھر ہاتھ استعمال کرنے والے مسلمان کو شاباش نہیں، بلکہ ڈانٹ پڑنے کا اندیشہ ہے-

امید کرتا ہوں کہ احباب ، ہدف اور ذرائع کا فرق سمجھ چکے ہونگے- واپس اپنی حدیث شریف پہ جاتے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں بچے پیدا کرنے کی نصیحت ،  فقط ایک خاص ہدف کو حاصل کرنے کیلئے بتائ  گئی ہے-  ( اور وہی اصل مقصود ہے )-

حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں نے امت کی تعداد کو ” پرائم ایشو ” بنا دیا ہے حالانکہ یہ تو ” سیکنڈری  ایشو” بھی نہیں ہے – خود رسول اکرم نے کتنے ہی لوگوں کو بظاہر معمولی بات پر اپنی امت سے خارج قراردیا ہوا ہے – ( مثلا جو مسلمان خود پیٹ بھر کرسویا جبکہ اسکا پڑوسی بھوکا سویا ) – تعداد کا مسئلہ ہوتا  تو یوں لوگوں کو امت سے خارج کیا جاتا ؟-

آپ حضرات جانتے ہیں کہ دورنبوی میں کئی کئی شادیاں کرنے کا عام رواج تھا- روایت تو یہ بھی ہے کہ حضرت علی نے جب دوسری شادی کا ارادہ کیا تو حضور نے ایک طرح سے روک دیا تھا- کیوں بھئ ؟- اس سے تو امت مزید بڑھ جاتی پھر کیوں روکا؟ – معلوم ہوا کہ امت کی تعداد، بنیادی ایشو نہیں ہے-

قارئین کرام!

ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث شریف کے تناظر میں آج کے زمانے میں کم بچے پیدا کرنا ہی رسول کے لئے تفاخر کا سبب ہوگا-

کیوں ؟-

اس کیوں کا جواب ،ایک اوراسلامی قانون میں پوشیدہ  ہے یعنی ” مسلمان والدین کی اساسی ذمہ داری “-

اس بنیادی اسلامی قانون میں اولاد بارے ، والدین کی  تین ذمہ داریاں  بتائی گئی  ہیں- اچھا نام- اچھی تربیت – اچھا رشتہ ( اولاد کی تعداد بارے تو بات ہی نہیں کی گئی)-

اچھی تربیت کیا ہوتی ہے؟ آپ اسکا جو بھی مفہوم مراد لیں مگر خاکسار اس سے اکابر صحابہ کا کردار مراد لیتا ہے –

آجکل جدید اور مہنگی تربیت گاہیں  مارکیٹ میں آچکی ہیں مگرظاہر ہے کہ گھر کا ماحول ہی بچے کی بنیادی تربیت گاہ ہوتا ہے-

آج سے چودہ صدیاں پہلے توبچے  کی تربیت کیلئے خالص یہی ایک میڈیم میسر تھا- ( نہ اولاد کیلئے کہیں کالج یا ہاسٹل پائے جاتے تھے اور نہ والدین کوجاب کے سلسلے میں شہر سے باہررہنا پڑتا تھا) –  جس زمانے کی یہ حدیث شریف ہے ، اس وقت مدینہ میں اس امت کی ساری قابل فخر کمیونٹی موجود تھی – ایسے لوگوں کو اگر زیادہ بچے پیدا کرنے کا کہا گیا تو یہ طے تھا کہ تربیت یافتہ امت ہی پیدا کی جائے گی- ( اصل ہدف بہرحال اس حدیث کا یہی ہے کہ کثیر تعداد ایسے مسلمانوں کی پیدا کی جائے جسے بروز قیامت دوسرے انبیاء کی امتوں کے مقابل  فخر سے پیش کیا جاسکے )- لہذا ، اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے آج کی پیچیدہ زندگی میں ، زیادہ باریک تربیت کی ضرورت ہے اور اسکے لئے کم بچوں کا پیدا کرنا ہی اسباب یا ذرائع ہیں-  کم بچے ہونگے تو بہتر تربیت ممکن ہے-( اسباب ہی اختیار کئے جاتے ہیں ورنہ ” سکھائے کس نے اسماعیل  کو آداب فرزندی ” )-

شریعت کا مزاج ہی پلاننگ سے چلنے کا ہے – نبی یوسف نے متوقع قحط کے تناظر میں اگر سات سال تک خوراک کو ذخیرہ کرکے رکھا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدا کی  رزاقی پر انکا یقین کمزور ہوگیا تھا –  چنانچہ ، شریعت کا آج کا منشاء تو ہمارے خیال میں فیملی پلاننگ کرنا ہے نہ کہ اس سے گریز کرنا –

اب رہے وہ لوگ جو ” معیار ” کی  بجائے ” مقدار ”  پر یقین رکھتے ہیں اور انکے نزدیک ہمارے رسول صرف مسلمانوں کی تعداد پہ ہی فخر کریں گے تووہ احباب بھی اس حدیث شریف کو اپنے موقف کی دلیل نہیں بنا سکتے  کیونکہ صرف امت ہی بڑھانا ہوتواولاد کے علاوہ بھی کئی اسباب اختیار کئے جاسکتے ہیں –  مثلا” پورا ایک سال شب وروز کی محنت کے بعد صرف ایک مسلمان بچہ امت میں بڑھانے کی بجائے اگر تبلیغی جماعت کے ساتھ  ” سال لگانے ”  افریقہ چلے جائیں تو سال بھر میں درجن بھر امتی بڑھا سکتے ہیں – (بلکہ اس تعداد کو ڈبل شمار جائے کیونکہ دوسری امت سے مائنیس ہوجائیں گے اور ہماری امت میں پلس ہوجائیں گے )-

بات بہت طویل ہوگئی ہے-بس ہماری گذارشات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :

1 –  عورت اور مرد کی شادی کے ذریعہ ، دنیا کو”  بہترین ”  انسان مہیا کرنا اسلام کا منشاء ہے- زیادہ ہوں یا نہ ہوں مگربہترین ضرور ہوں-

2-  میاں بیوی  باہمی سوچ  وبچار اوررضامندی سے اپنی فیملی پلاننگ کریں – مستقبل بارے بہتر منصوبہ بندی کرنا ، شریعت کا مزاج ہے – (ہوگا مگر پھر بھی وہی جو اللہ چاہے گا )-

3- آجکل کی  پیچیدہ زندگی کے تناظرمیں ، زیادہ بچوں کی کفالت اور تربیت کرنا ایک مشکل کام ہے لہذا کم بچے پیدا کرنے کی پلاننگ کریں –  یہ شریعت سے متصادم نہیں بلکہ اسکے منشاء کے مطابق ہے-

4-  فرد کی طرح ، حکومت کو بھی اختیار ہے کہ بڑھتی آبادی کو کم کرنے کی پلاننگ کرے – مگر بچوں کی ایک خاص تعداد مقرر کرنا ، بنیادی انسان حق کی خلاف ورزی ہے- کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جاسکتی مگر اسکو قانون نہیں بنایا  جاسکتا -( البتہ حکومت چاہے تو دیگر ”  شرعی حیلے ” اختیار کرکے، یہی ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے جو مناسب فیس پر خود مولوی صاحبان مہیا کرسکتے ہیں)-

برادران کرام  !

اگر اپنے نبی کریم کیلئے کوئی قابل فخر امتی تیار کرنے ہیں تو بچے کم پیدا کرو مگر وہ ایسے ہوں کہ دوسری امتوں سے کردار میں ممتاز ہوں –  یہی اس حدیث شریف کی  فطری تشریح  ہے(کم ازکم مسلم سیکولرز کی حد تک) اور یہی منشائے شریعت ہے – ایسے بچے جو اس فانی دنیا میں غیروں کے مقابل پیش کرتے خود کو شرم آتی ہو، انکو آخرت میں بھی پیش کرنا کوئ خوشگوار تجربہ نہیں ہوگا –

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسا مسلمان بھی تو ہوگا جو آج کے زمانے میں زیادہ بچے بھی پیدا کرسکتا ہو اورانکو قابل  فخر تربیت بھی دے سکتا ہو تو میں کہوں گا کہ یہ ایک اچھا کیس ہے اورایسا شخص  بہت قابل ونادر آدمی  ہے مگر بہرحال یہ استثنائی  کیس ہے جبکہ حدیث شریف، عموم کیلئے ہواکرتی ہے-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply