مقدس مقامات اور مذہبی آزادی۔۔۔مہرساجدشاد

دنیا بھر میں انسانی حقوق میں اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی آزادی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں بابا گرونانک کی شخصیت ہندوستان میں ایک نمایاں حیثیت میں ابھری، انہوں نے جہاں ہندوؤں کی بت پرستی پر سوال اٹھا کر انہیں ایک خدا کی طرف راغب کیا وہیں اخلاقی عملی زندگی سے مسلمانوں کو انکا بھولا ہوا سبق یاد کروایا۔

وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں مقبول تھے، سفر مکہ ، بابا فرید کے معتقد ہونے اور بے شمار واقعات اور عادات کے باعث مسلمان انہیں مسلم ہی سمجھتے تھے اور ہندو انہیں ایک ہندو خاندان میں پیدا ہونے کے باعث ہندو سمجھتے تھے اسی لئے انکی وفات پر جھگڑا ہو گیا کہ آخری رسومات کیسے ادا کی جائیں، جھگڑے میں رات ہو گئی میت اندر کمرے میں تھی اگلے دن صبح وہاں پھولوں کا ڈھیر تھا اور میت غائب، آدھے پھول دفن کر کے قبر بنا دی گئی ، آدھے پھول جلا کر سمادھی بنا دی گئی آج یہ دونوں مقامات یہاں موجود ہیں۔

ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو پنجاب بھی تقسیم ہو گیا سکھ ہندوستان چلے گئے مقدس تاریخی مقامات یہاں رہ گئے، محکمہ اوقاف نے اپنے محدود وسائل اور روایتی نااہلی کی وجہ سے ان مقامات کو بہت نقصان پہنچایا۔ جس طرح کرتار پور دربار صاحب کی تعمیر و آرائش کی گئی ہے۔ ہر مذہبی تاریخی مقام خواہ وہ سکھ ،ہندو، عیسائی یا مسلم کسی بھی قوم سے متعلق ہو، اسی طرح احترام و خدمت کا حقدار ہے محکمہ اوقاف اور محکمہ آثار قدیمہ کی سوچ اور صلاحیتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

آج حکومت کے مستحسن اقدام کی بدولت دنیا بھر کی سِکھ جاتی خوش ہے اور یقیناً یہاں زیارت کیلئے آنا چاہتی ہے۔ یہ اقدام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن سویلین حکومتوں کو جن قوتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب کی بار وہی فیصلہ کر چکے تھے کہ یہ بارڈر کھولنا ہے چاہے سرحد پر کشیدگی ہو ، کشمیر لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت ہو ، بھلے مقبوضہ کشمیر میں سو دن سے زندگی مفلوج اور قتل عام جاری ہو اب یہ سب اعتراضات نہیں رہے، کیونکہ اب ہماری مرضی !

اب ہم نے کئی سال کا کام صرف دس مہینے میں جنگی بنیادوں پر کر کے جنگ جیت لی ہے۔ایک احسن کام کو غلط وقت پر نامناسب طریقے سے کرنے سے اس کے نتائج پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے،بدقسمتی سے اس کو اسٹریٹجک موو کہہ کر اسے متنازعہ بنا دیا گیا، تو مقرر شدہ حکومت نے اسے کپتان کی گُگلی کہہ کر کسر پوری کر دی، پھر زور و شور سے پروپیگنڈا کہ ہم خالصتان بنوا دیں گے ، افسوس ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔

ہمیں اپنے آئین اور قانون کے تحت اپنے عوام کو تمام حقوق دینے  ہیں، اقلیتیں ریاست کی ذمہ داری ہیں، ان کے جان و مال کی حفاظت اور انہیں برابر مواقع مہیا کرنا ریاست کا آئینی فرض ہے، ہمیں اپنے آئینی قانونی اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ  دنیا کے سامنے ہر وقت موثر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اسکے  لئے سفارتی محاذ پر سنجیدہ کام کی ضرورت ہے۔ مزید تسلی کیلئے بے بسی یاد فرما لیں کہ ہمارے مقرر شدہ وزیراعظم نے اعلان کردہ 20ڈالر کی فیس معافی کا اعلان کیا تو ذمہ داران نے اعلان واپس بھجوا دیا، دوسرا اعلان بغیر پاسپورٹ صرف شناختی کاغذات پر زیارت کیلئے آنے کی اجازت تھی،اسے بھارتی حکومت نے رد کر کے کم از کم اس معاملے میں ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا۔ چلو کوئی بات نہیں ،چھوٹی موٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ صرف کرتار پور بارڈر کھول کر اور زائرین کو یہاں تک محدود رکھ کر اپنا نقصان کیوں کیا گیا؟

پاکستان کو زائرین سے 20ڈالر فی کس ملیں گے جبکہ دنیا بھر سے سکھ یہاں آنے کیلئے انڈیا کا سفر کریں گے وہاں کے ہوٹلوں میں رہیں گے وہاں کے شہروں میں پھریں گے وہیں خریداری کریں گے رقوم خرچ کریں گے۔

کیا ہی اچھا ہوتا سکھوں کے دیگر مقدس مقامات حسن ابدال گردوارہ پنجہ صاحب، ننکانہ صاحب گردوارہ جنم استھان اور دیگر آٹھ گوردوارے، ایمن آباد گرودوارہ روڑی صاحب گرودوارہ کھوئی بھائی لالو صاحب اور ملحقہ تاریخی مقامات، لاہور شہر کے وسط میں تاریخی بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے کے وسط میں واقع سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیوجی کا شہیدی استھان گوردوارہ ،گوردوارہ ڈیرہ صاحب، گوردوارہ گورورام داس، گوردوارہ بے بے نانکی اورگوردوارہ شہیدگنجاور دیگر تین درجن گوردوارے، گوجرانوالہ پنجاب کے سابق حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا جنم استھان حویلی اور انکے گُرو کی یادگار خالصہ کالج اور تقریباً دس گردوارے، سیالکوٹ گوردوارہ ‘بابے دی بیر’ اور دیگر گوردوارے، پھر خیبر پختونخواہ سندھ اور گلگت بلتستان میں واقع گردواروں کی بھی تزین آرائش کر کے انہیں مذہبی سیاحتی مقامات میں بدل دیا جاتا، سکھ زائرین کو ایک ہفتہ دو ہفتے کے پیکج دئیے جاتے انہیں کئی شہروں میں لے جایا جاتا، بازاروں مارکیٹوں تک رسائی دی جاتی، ہوٹل انڈسٹری ریسٹورنٹ انڈسٹری ، ٹرانسپورٹ اور شاپنگ سے متعدد انڈسڑی فائدہ اٹھاتیں، اس سے ہمارے گنجان علاقوں میں سیاحت انڈسٹری کو فروغ ملتا اور لوگوں کے روابط سے عوامی سطح پر ہمارا تعارف پہنچتا۔

ہندوں کے بھی بہت سے نہائیت اہم مقدس اور تاریخی مقامات پنجاب خیبر پختونخوا  اور سندھ میں واقع ہیں ان کو بھی اسی طرح تیار کیا جاتا تو یہ مذہبی سیاحت کا دائرہ وسیع ہوتا ساتھ ہی مذہبی جنونی ہندوں کے یہاں آ کر ہمارے سلوک اور ہماری طرف سے سہولیات سے ایک پیغام وہاں عوام کو جاتا۔
ہندوستان میں بھی دنیا بھر کی طرح عوام کی بڑی تعداد معتدل سوچ اور رویہ رکھتی ہے وہ یقینا ًاس صورتحال سے اپنے معاشرہ میں رائے عامہ بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، اس کا ایک فائدہ یقیناً ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید آنے والے وقت میں یہ سب کچھ ممکن ہو جائے، فی الحال بابا گرونانک کے چاہنے والوں کو اس سہولت اور آسانی مہیا ہونے پر مبارکباد۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply