• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرتار پور راہداری ’’تاریخ‘‘ بن گئی ۔۔نصرت جاوید

کرتار پور راہداری ’’تاریخ‘‘ بن گئی ۔۔نصرت جاوید

ریڈ کلف کی وجہ سے 1947میں پنجاب جس انداز میں تقسیم ہوا اس کی بدولت گزشتہ ستر برسوں سے ہمارے ضلع نارروال کے کرتارپور کی طرف دیکھتے ہوئے راوی کے اس پار بسے بھارتی سکھ ’’ہوئے درشن دیدار‘‘ کی دُعا مانگا کرتے تھے۔ یہ دُعا کئی اعتبار سے صدیوں تک بھٹکے یہودیوں کی اس فریاد کی مانند تھی جو اپنی عبادت کا اختتام’’ اگلے برس یروشلم میں ‘‘ کی خواہش کے اظہار کے ساتھ کیا کرتے تھے۔سکھوں کو ان کی طرح مگر صدیوں تک انتظار کرنا نہیں پڑا۔ گزرے ہفتے کے دن پاکستان کے وزیر عظم عمران خان صاحب نے ان کے لئے کرتارپور آنے کے لئے ویزا فری کوریڈور کا افتتاح کردیا۔اپنے سرکو رومال سے ڈھانپ کر ان کی اجتماعی دُعائے شکرانہ میں بھی شریک ہوگئے۔ ’’تاریخ‘‘ بن گئی۔ پاکستان کی کشادہ دلی بھی دُنیا کے سامنے ثابت ہوگئی۔۔۔۔

اس کشادہ دلی کا ’’خیرمقدم‘‘ اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ نے ہفتے ہی کے دن بھارت کے صوبے یوپی میں ’’بابری مسجد‘‘ کو مبینہ طورپر ’’رام کی جائے پیدائش‘‘ پر ’’قبضہ‘‘ ٹھہراتے ہوئے اسے منہدم کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کیا۔بھارت کا ’’سیکولر ازم‘‘ اس فیصلے سے عیاں ہوگیا۔ ہم اپنا سینہ پھلاتے ہوئے اس ’’بے نقابی‘‘ پرشاداں ہوتے رہے۔کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کے عین ایک روز بعد مگر ہمارے پیغمبرحضرت محمد ﷺ کی ولادت کا دن تھا۔ہمارے لئے یہ عید کا دن ہوا کرتا ہے اور برصغیر کے مسلمانوں میں عید میلادالنبیﷺ منانے میں کشمیری 500سالوں سے اپنی عقیدت کو انتہائی جذباتی انداز میں دُنیا کے سامنے لاتے رہے ہیں۔ہمارے نبی محمدﷺ کی ولادتِ باسعادت کے مہینے ’ ربیع الاول‘ کا آغاز ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر میں تقریبات کا آغاز ہوجاتا ہے۔سری نگر کے قدیمی شہر کے تقریباََ مرکز میں واقع ’’خواجہ نقشبند‘‘ کے مزار پر تین دن کا عرس ہوتا ہے۔ 3ربیع الاول کو نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد گڑگڑاتی دُعائوں سے عرس کا اختتام ہوتا ہے۔وقتِ عصر کو کشمیری زبان میں ’’دیگر‘‘ پکاراجاتا ہے۔ 2نومبر کو ’’خواجہ نقشبند کی دیگر‘‘تھی۔ 400برسوں سے ہرسال یہ ’’دیگر‘‘ منعقد ہوتی ہے جس میں پورے کشمیر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔اب کے برس محتاط ترین اندازوں کے مطابق 500سے زیادہ افراد شریک نہ ہوسکے۔’’خواجہ نقشبند‘‘ کی درگاہ تک رسائی ناممکن بنادی گئی تھی۔قابض انتظامیہ نے صاف الفا ظ میں صحافیوں کے روبرو اعتراف کیا کہ ان کے پاس آئی ’’ٹھوس اطلاعات‘‘ کے مطابق ہزاروں کشمیری ’’دیگر‘‘ کی نماز ادا کرنے کے بعد بھارتی تسلط کے خلاف مظاہروں کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔’’ممکنہ تخریب کاری‘‘ کے تدارک کی خاطر400سال پرانی روایت کو روکنا ضروری ہوا۔عیدمیلادالنبیﷺ کے دن ہزاروں کا ہجوم حضرت بل کی درگار کے باہر جمع ہوتا ہے۔تمام رات کی دُعائوں اور مناجاتوں کے اختتام پر ہمارے نبیؐ کے موئے مبارک کی زیارت ہوتی ہے۔اوسطاََ 80ہزار افراد جن میں کثیر تعداد عورتوں پر مشتمل ہوتی ہے ہر سال موئے مبارک کے ’’دیدار‘‘ کو تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ گزرے اتوار کے دن مگر چند سو افراد ہی جمع ہو پائے۔ مقامی انتظامیہ نے کمال ڈھٹائی سے دعویٰ کیا کہ ’’وقت سے قبل ہوئی شدید برفباری‘‘ نے درگاہ حضرت بل تک پہنچنا ناممکن بنادیا۔اسے جب یاد دلایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی بار ’’وقت سے پہلے شدید برف باری‘‘ بھی ہوتی رہی ہے تو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’ٹھوس اطلاعات‘‘ کے مطابق خدشہ تھا کہ حضرت بل کی درگاہ میں موجود افراد موئے مبارک کی زیارت کے بعد سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد ان کے دلوں میں اُبلتے غصے کو بابری مسجد والے فیصلے نے شدید تربنادیا ہے۔احتجاج کو روکنے کے لئے درگاہ حضرت بل تک پہنچنے والے راستوں کو خاردار تاروں کے جال سے روکنا لہذا ضروری تصور ہوا۔یکم ربیع الاول سے بارہ ربیع الاول تک جو اقدامات لئے گئے ہیں وہ محض کشمیریوں کی ’’سیاسی شناخت‘‘ کے خاتمے کا جابرانہ اقدامات کے ذریعے ’’اثبات‘‘ کی کاوشیں نہیں تھیں۔ خواجہ نقشبند اور درگاہ حضرت بل تک رسائی کو ناممکن بنادینا درحقیقت کشمیر کی ’’ثقافتی شناخت‘‘ مٹانے کی وحشیانہ کوششیں ہیں۔ کرتارپور کوریڈور کے افتتاح سے خود کو دُنیا کے روبرو ’’روشن خیال‘‘ اور ’’کھلے دل‘‘ والا ثابت کرنے کے گماں میں ہم پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کشمیر کی ’’صوفیانہ شناخت‘‘ پر ہوئے اس سنگین حملے سے قطعاََ بے خبر رہی۔

NDTVکی نیدی رازدان کا شکریہ۔ وہ کشمیر کے ایک مشہور ’’پنڈت‘‘ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ چند ٹویٹ لکھ کر وہ بھی مگر 12ربیع الاول کے دن حضرت بل کی درگاہ سے معدوم ہوئی رونق کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرنے کو مجبور ہوئی۔ ہندوانتہاپسندوں کی انٹرنیٹ پر چھائی ’’سپاہِ ٹرول‘‘ نے اسے غدار پکارتے ہوئے گالیوں سے نوازنا شروع کردیا۔ ہمارے ہاں ’’کشمیر کاز‘‘ کے بے تحاشہ ’’مامے‘‘ ہوا کرتے ہیں۔ان میں سے کسی ایک کو بھی ’’خواجہ کی دیگر‘‘ یاد نہیں آئی۔حضرت بل کی تقریب بھی انہیں یاد نہ رہی۔’’خواجہ کی دیگر‘‘ اور موئے مبارک کی زیارت گزشتہ کی برسوں سے مگر روایتی عرس اور تہوار ہی نہیں رہے۔ معاملہ فقط کشمیر کی مخصوص ثقافتی شناخت تک ہی محدود نہیں ہے۔قابض افواج کے ہاتھوں کئی دہائیوں سے ’’لاپتہ‘‘ ہوئے بیٹوں کی مائوں اور ان کی وجہ سے ’’نیم بیوہ (Half Widow)‘‘ ہوئی عورتوں کے لئے خواجہ نقشبند اور حضرت بل کی درگاہیں وقتی طورپر سہی مگر بے تحاشہ نفسیاتی قوت اور روحانی سکون فراہم کرتی ہیں۔ان عورتوں کا دُکھ ہمارے میڈیا کے ذریعے کماحقہ بیان نہیں ہوا ہے۔چند روز قبل اس کالم میں امریکہ کی ایک صحافی محقق -Judith Matloff-کا ذکر ہوا تھا۔ اس نے جاں گسل تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی ہے۔اس کا عنوان ہے The war is in the Mountains۔’’جنگ پہاڑوں ہی میں ہوا کرتی ہے‘‘اس عنوان کا آسان اُردو ترجمہ ہوسکتا ہے۔اس محقق کا دعویٰ ہے کہ دُنیا بھر میں فقط دس فی صد افراد پہاڑوں میں رہتے ہیں۔اس وقت مگر دنیا میں خانہ جنگی یا جدوجہد آزادی کی وجہ سے 27مقامات ’’خطرناک ترین‘‘ تصور ہوتے ہیں۔ ان 27میں سے 23جنگیں پہاڑی علاقوں میں ہورہی ہیں۔یہ جاننے کے لئے کہ جنگیں فقط پہاڑوں ہی میں کیوں ہوتی ہیں۔ Judith Matloffنے البانیہ ،میکسیکو،کولمبیا،نیپال اور چیچنیا کے کئی دورے کئے ۔ وہاں کئی ماہ گزارے۔اپنی تحقیق کی خاطر وہ مقبوضہ کشمیر میںبھی کئی دن موجود رہی۔بھارتی حکومت سے ویزا لینے کے لئے اس نے جواز گھڑا کہ وہ ’’ترقی پذیر‘‘ بھارت میں شعبہ طب کے بارے میں Dataاکٹھاکرنا چاہ رہی ہے۔سری نگر میں اپنے قیام کے دوران مطلوبہ Dataکے حصول کے لئے اس نے فقط ایک سرکاری ہسپتال پر فوکس مرکوز رکھا۔ مقبوضہ کشمیر میں ’’نفسیاتی علاج‘‘ کی روایت نہیں تھی۔مذکورہ ہسپتال میں ’’مریض‘‘ معدوم ہوا کرتے تھے۔ 2000کا آغاز ہوتے ہی مگر اس ہسپتال میں مریضوں کا سیلاب اُمڈنا شروع ہوگیا۔ آج سے چار برس قبل جب وہ اس ہسپتال گئی تو روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں وہاں سری نگر ہی نہیں دور دراز کے قصبوں سے بھی مریض لائے جاتے تھے۔ ان میں سے اکثریت عورتوں پرمشتمل تھی۔ مریضوں کی اکثریت کے سامنے ان کے کسی عزیز کو رات گئے قابض افواج نے بستر سے اٹھایا اور وہ اب تک لاپتہ ہے۔ ’’طبیبوں‘‘ کے پاس ان مریضوں کو دینے کے لئے صرف نیند کی گولیاںتھیں یا Anti Depressantادویات۔ان سے مگر افاقہ نہ ہوتا۔ جن ’’طبیبوں‘‘ سے اس محقق نے گفتگو کی انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ وہ اپنے مریضوں کو ’’جدید نفسیاتی علاج‘‘ سے بحال کرنے کے بجائے درگاہوں پر جانے کے مشورے دیتے ہیں تاکہ انہیں ’’روحانی سکون‘‘ میسر ہوسکے ۔’’خواجہ نقشبند کی دیگر‘‘ اور موئے مبارک کی زیارت سے ہزاروں کشمیریوں کو اس برس کے ربیع الاول میں محروم کرتے ہوئے قابض افواج نے مطلوبہ ’’روحانی سکون‘‘ چھیننے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں۔کشمیریوں کی سیاسی شناخت مٹانے کے بعد اب کشمیر کی ثقافتی شناخت ہی نہیں بلکہ انہیں تھوڑا سکون پہنچانے والے روحانی تجربات سے محروم کرنے کے عمل کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔میں فیضؔ کی طرح ’’رسمِ دُعا‘‘ فراموش کردینے کے باوجود فقط آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے کی التجاہی کرسکتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوائے وقت

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply