اک اور طرح کا کالم۔۔حسن نثار

ایک مہذب، متمول، منصفانہ مزاج معاشرہ میں بڑے پیمانہ پر عام شہریوں سے اک سادہ سا سوال پوچھا جاتا ہے کہ ذرا یہ تو بتائیں کہ وہ کون سی ایسی سرگرمی یا سرگرمیاں ہیں جو آپ کی زندگی کو بامعنی، بامقصد، خوشگوار اور مطمئن بناتی ہیں۔

آپ کے نزدیک”Meaning in life”کیا ہے؟اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں، مری خواہش ہے آپ غور کریں کہ اگر یہی سوال پاکستان کے عام شہریوں سے پوچھا جائے تو ان کاردعمل یا رسپانس کیا ہوگا؟ مجھے یقین ہے کہ بھاری ترین اکثریت کو تو سوال کی سمجھ ہی نہیں آئے گی اور جنہیں کچھ کچھ سمجھ آجائے گی، ان کو جواب کی سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ انہوں نے زندگی میں اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں ہوگا۔

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہےعمر یونہی تمام ہوتی ہےجنہیں زندگی میں روٹی کے طواف اور سالن کی تلاش سے ہی فرصت نہ ملے، جنہیں بجلی بلوں کے جھٹکے ہی نہ سنبھلنے دیتے ہوں، جن کے لئے گیس کا بل بھی نازیوں کے گیس چیمبرز جیسا ہو،ان کے لئے زندگی کیا؟ اس کے معنی کیا؟ مقصد کیا اور اس کا خوشگوار ہونا یا ناگوار ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

ایسے بدنصیب، بےامان معاشروں میں زندگی موت کا کنواں ہے جس میں ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل کے کرتب دکھائے جاتے ہیں، زندگی زہر بجھی تلوار کی دھار ہے جس پر اہل و عیال سمیت ننگے پائوں چلنا پڑتا ہے، زندگی منشی پریم چند کا افسانہ ’’کفن‘‘ ہے۔

ایسے ماحول میں کسی بات کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ میں آج ہی کسی اخبار(جنگ نہیں) میں مفتی نعیم کا یہ جملہ پڑھ کے لرز اٹھا ہوں کہ………’’ہم نبی اکرم ﷺ سے محبت کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔‘‘ وجہ صاف ظاہر کہ ان کی تعلیمات، ہدایات، احکامات کا تو سایہ تک بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا بلکہ حکام سے لے کر عوام تک سب کچھ الٹ اور ان کے برعکس اور اسی لئے ہر شے پر تہہ در تہہ نحوست چھائی ہوئی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس جزو وقتی ماتم کے بعد اصل موضوع کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ابتدائی سوال کے جواب میں Christen lippincott کہتی ہیں کہ ان کے نزدیک خوب صورت ترین ایکٹویٹی ہے، معاشرہ میں محبت اور گرمجوشی کو بڑھاوا دینا جس کا مطلب ہے ضرورت کے مطابق لوگوں کی مدد کرنا۔

میں بچوں کے ہسپتالوں کے لئے کمبل تیار کرنے کے علاوہ فارغ وقت میں پالتو جانوروں (Pets)کے لئے بھی مختلف قسم کے کمبل تیار کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ میں عمر رسیدہ لوگوں کے لئے شالیں بھی بناتی ہوں۔ مجھے اس کام میں بیحد سکون ملتا ہے۔

سری رام سری دھر کہتے ہیں یادوں کا خزانہ ہی میرے لئے اصل خزانہ ہے نہ کہ اثاثوں کا خزانہ۔ میں تو اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اتنی سیاحت کرو جتنی کرسکتے ہو۔ اتنے لوگوں سے ملو جتنوں سے مل سکتے ہو اور پھر ان یادوں کو مختلف طریقوں سے محفوظ کرلو۔

شخصیات اور مختلف مقامات کی اتنی تصویریں بنائو جتنی بناسکتے ہو۔ مجھے ان باتوں سے بہت سکھ ملتا ہے۔Charlotte dipaola کے نزدیک ناخواندہ لوگوں کو زیور تعلیم سے سجانا ہی زندگی کا حقیقی مقصد اور حسن و جمال ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب کوئی انسان آپ کی مدد سے پہلی بار لکھی ہوئی عبارت پڑھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آپ کے لئے جو پیغام ہوتا ہے، وہی دراصل حاصل زیست ہے اور آپ کو یہ جان کر روحانی خوشی ہوتی ہے کہ وہ مرد یا عورت جسے آپ نے پڑھنے لکھنے کے قابل بنایا، زندگی بھر محبت سے آپ کو یاد رکھے گا۔

Cindy Simon کا یہ خیال کس قدر خوبصورت اور قابل تحسین ہے یعنی لوگوں کو اس کام میں مدد دینا کہ وہ اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرسکیں اور جو چاہتے ہیں اسے پاسکیں، زندگی کی معراج اور انسانیت کا حسن ہے۔ یہ اک ایسا عمل ہے جو انسانی زندگی کو ناقابل یقین حد تک آسودہ اور بامعنی بناسکتا ہے۔

Jenna Filburn کی دنیا ہی نرالی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو ایک بہترین’’ٹیم‘‘ کے طور پر زندگی گزارنے کی تمیز سے آشنا کرنا کسی عبادت سے کم نہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر ہائی اسکول ٹینس کوچ ہیں اور یہ’’ہنر‘‘ میں نے اپنے شریک حیات سے سیکھا۔

کسی بھی کمیونٹی میں اگر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ مل جل کر اک ٹیم کی طرح رہنے سے زندگی کتنی سہل، مطمئن اور سریلی ہوجاتی ہے تو یہ اک قابل ذکر اچیومنٹ ہے اور شاید بحیثیت انسان ہماری ذمہ داری بھی ہے۔Annette Thomasکا یہ فہم زیست کس قدر پاکیزہ ہے کہ اللّٰہ کی ہر قسم کی مخلوق کا خیال رکھنا روحانی خوشی کا سرچشمہ ہے۔

انسان تو انسان، پرندوں اور جانوروں سے لے کر حشرات الارض تک کی بہتری اور فلاح و بہبود پر توجہ دینے سے مجھے راحت ملتی ہے اور میری زندگی کو نت نئے معنی ملتے ہیں مثلاً مکڑیوں کو غیر فطری ماحول سے نکال کر احتیاط کے ساتھ ان کے پسندیدہ ماحول میں پہنچانا، آوارہ لاوارث کتوں کی دیکھ بھال یعنی خوراک ،علاج کے لئے کچھ رقم اور وقت صرف کرنا، پانی سے باہر کسی بھولے بھٹکے کچھوے کو اس کی دنیا میں واپس لے جانا، جہاں ممکن ہو وہاں پودے، درخت لگانا، دوسروں کے مذہب اور ثقافت کا احترام کرنا کچھ ایسے کام ہیں جنہیں سرانجام دینے سے یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ میں ایک کارآمد زندگی بسر کررہی ہوں۔

Kristi Schmidt اعتراف کرتی ہیں’’افسوس مجھے زندگی کے 60 سال گزارنے کے بعد جینے کا مقصد سمجھ آیا اور وہ ہے خدا کی بےشمار مہربانیوں کو قدم قدم پر یاد رکھنا اور یاد رکھتے ہوئے اپنے سے بڑھ کر دوسروں کے آرام اور آسانیوں پر توجہ دینا کیونکہ اپنی ذات کے لئے آرام اور آسانی تو جانور بھی تلاش کرتا ہے۔ انسان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ دوسروں کا بھی سوچو۔

Marie Bray کی منطق انتہائی احسن ا ور اچھوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں……… ’’سب سے پہلے تو ہم کسی کی اولاد یعنی کسی کے بچے ہوتے ہیں، پھر بہن بھائیوں کے بہن یا بھائی، پھر ہم آہستہ آہستہ زندگی میں کچھ دوست، سہیلیاں بناتے ہیں، پھر اک خاص مرحلہ پر ہماری شادیاں ہوجاتی ہیں۔

جوڑے بنتے ہیں یعنی ہم کسی کے شریک حیات ہو کر شوہر یا بیوی کے رول میں بھی آجاتے ہیں اور پھر بالآخر وہ دن بھی آجاتا ہے جب ہم خود ’’والدین‘‘ کا روپ دھار لیتے ہیں جس کی انتہا یہ کہ ایک نہ ایک دن ہم بھی اپنے بوڑھے والدین کی مانند دادا ، دادی یا نانا ، نانی بن جاتے ہیں۔‘‘Marie Brayاپنی بات کو سمیٹتے ہوئے یہ آخری جملہ لکھتی ہیں جو سونے کے حروف سے لکھا جانا چاہئے۔

“Who we are to others defines us and gives us meaning in life”سبحان اللّٰہ…..سبحان اللّٰہ…..سبحان اللّٰہ قارئین! اب یہ”Meaning in life”والا سوال اپنے اردگرد کے عام شہریوں سے پوچھیں مثلاً کسی اسکول ٹیچر، کسی لیکچرر، کسی پٹواری، کسی ریڈر(عدالتی)، ڈاکٹر، کسی ویگن چنگ چی ڈرائیور، ریلوےکے ٹکٹ چیکر سے پوچھئے۔

اور تو اور کسی نام نہاد سیاسی، فکری، مذہبی، سماجی لیڈر سے پوچھئے کہ “Meaning in life” کا مطلب کیا ہے؟ اول تو انہیں سوال کی سمجھ نہیں آئے گی، آگئی تو جواب کی سمجھ نہیں آئے گی اور یہی اصل اوقات ہے۔

’’نیچے ہو پراڈو، کلائی پر ہو راڈو‘‘ یہ ہے اصل “Meaning in life”گورے تو بھاڑ جھونک رہے ہیں کہ ’’شاہیں بناتا نہیں آشیانہ‘‘ اور ہمارا’’شاہین اعظم‘‘ 50 لاکھ آشیانوں کا وعدہ کرکے پھنسا ہوا ہے اور اس سے پہلے اک آدمی ’’آشیانہ‘‘ ہی اجاڑ گیا اور آج ’’گیم چینجر‘‘ بنا پھرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply