آزادی مارچ کے نکلنے پر جنہیں گمان تھا جاتی عمرا کے راستوں کی دھول عزیمت کی کہکشاں بن جائے گی ان کی آنکھوں کے سمندر میں اترے مدوجزر اب سراپا سوال ہیں: ن لیگ کہاں ہے؟ اور میرے جیسا طالب علم سوچ رہا ہے : ن لیگ تھی ہی کہاں؟یہ تو شاہ معظم کا دربار تھا جس میں مغنی تھے ، قصیدہ گو تھے ، ملک الشعراء تھے اور خدام ادب داد سخن پانے کو جھولی پھیلائے کھڑے تھے۔جس عفیفہ کا اس دربار میں کوئی وجود نہیں تھا دل و مژگاں کی روبکار اس کے نام کیوں بھیجی جائے؟مسلم لیگ ن کی تنظیم کو اس کی قیادت نے کبھی معتبر ہونے ہی نہیں دیا۔ شاید وہ اس سے خوفزدہ تھے کہ ایک تنظیم قائم ہو گئی تو وہ گاہے خود سر بھی ہو سکتی ہے۔غالب کے الفاظ مستعار لوں تو ’’ تپش سے میری ، وقفِ کشمکش ، ہر تارِ بستر ہے‘‘۔دربار کو آزاد منش لوگ کم ہی خوش آتے ہیں۔ یہاں وہی لوگ معتبر ہوتے ہیں جو غزل قصیدہ کرنے میں مہارت رکھتے ہوں۔ بھری محفل میں یہاں اہل دربار نے غزل کہی: میاں صاحب میں آپ کا زیادہ وفادار ہوں، اور چند سال بعدمیاں صاحب نے اپنے پالتو جانورسے زیادہ اس وفادار کو وفاداری بدل کر دوسری صف میں کھڑا دیکھا۔ پارٹی اور اصول نہیں یہاں ذات کو محور بنایا گیا اور شخصی وفاداری ہی معیار ٹھہری چنانچہ ہر بار جب اقتدار کے موسم تمام ہوئے اور خزاں رت ان پر اتری ، یہ بے اماں دھوپ میں جان ایلیا کے تخیل کی تجسیم ہو گئے : کتنی وحشت ہے درمیان ہجوم جس کو دیکھو ، گیا ہوا ہے کہیں چنانچہ میاں صاحب ، جلاوطنی کے زمانے میں شکوے کرتے رہے ، یہ لوگ کہتے تھے قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھا کے دیکھا تو میرے ساتھ کوئی نہ تھا، میں اکیلا تھا۔ گماں تھا کہ جلاوطنی کے ان مہ و سال نے میاں صاحب کو بدل دیا ہے۔ اب وہ عملیت پسند سیاست دان نہیں جس کی نظر اپنے مفاد پر ہوتی ہے بلکہ اب وہ مثالیت پسند رہنما ہے جسے اپنے آدرش اپنے مفاد سے زیادہ عزیز ہیں۔ہمیں بتایا گیا کہ وقت نے میاں صاحب کو بدل دیا ہے ۔اب وہ ایک مدبر ہیں جس کے ہمراہ ایک عدد بیانیہ ہے۔اس عالم میں میاں صاحب وطن لوٹے اور ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو انہوں نے بیانیہ منڈیر پر رکھ چھوڑا اوران سارے لوگوں کو گلے لگا لیا وہ پرویز مشرف کے میمنہ میسرہ پر داد شجاعت دیا کرتے تھے۔ یہ ایک طویل فہرست ہے ۔پارٹی کے لیے عزیمت کا استعارہ بن جانے والا جاوید ہاشمی اجنبی ٹھہرا اور عافیتیں اوڑھنے والے معتبر ہو گئے۔سماج میں نچلی سطح تک غیر معمولی پزیرائی کے باوجود نواز شریف صاحب نے پارٹی ڈھانچے کو متحرک اور توانا کر کے ادارہ بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے طاقتور شخصیات کی کنیز بنائے رکھے جانے کی حوصلہ افزائی کی۔ نا مساعد حالات میں جب یہ شخصیات وفاداری بدل لیتی ہیں یا عافیتیں اوڑھ لیتی ہیں تو تنظیم بھی اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔اب جب شہباز شریف ہی مولانا کی تالیف قلب کے لیے بھی گھر سے نہ نکل سکیں تو ’’ ن لیگ‘‘ سے کیا گلہ؟ یہ المیہ صرف مسلم لیگ ن کے دامن سے نہیں ، ایک آدھ استثناء کے ساتھ ہر طرف اسی گریہ ِ بے اختیار کا عالم ہے۔پیپلز پارٹی جیسی جماعت کی قیادت اب وصیت نامے پر منتقل ہوتی ہے، اے این پی اب ولی باغ میں اسفند یار ولی کو میراث میں آئی ہے ، میاں افتخار حسین اولاد کی قربانی دے ڈالیں یا بلور خاندان کا صحن لاشوں سے بھر جائے قیادت ایمل ولی ہی کو ملے گی۔ق لیگ گجرات کے چودھریوں سے منسوب ہو چکی، عبد الصمد خان اچکزئی کی مسند محمود خان اچکزئی کے حجرے میں رکھی جاتی ہے اورتحریک انصاف عمران خان کے سوا پانی کا بلبلہ ہے۔عمران خان ایک زمانے بھی تنظیم سازی کی بات کرتے تھے اب اس کوہ کنی سے ان کا زہرہ بھی آب ہو چکا۔اب یہاں بھی لوگ چنے نہیں جاتے تعینات کیے جاتے ہیں۔یہی حال مذہبی سیاست کا ہے ، شاہ احمد نورانی مرحوم کی میراث انس نورانی کے حصے میں ، مفتی محمود مرحوم کی سیاسی وراثت مولانا فضل الرحمن کے پاس ، اسلام کے علماء کی جمعیت ہے لیکن اس کی شناخت اب ’س‘ اور ’ ف ‘ سے ہوتی ہے۔معلوم نہی یہ برصغیر کے موسموں کی تاثیر ہے کہ شخصیت پرستی ہماری افتاد طبع کا حصہ بن چکی اور ہم عوام کی بجائے رعایا بن کر رہنا پسند کرتے ہیں جو ہر صبح شاہی محل کے باہر ہاتھ باندھ کر شاہی خاندان کی بلندی اقبال کی دعائیں کرتی ہے یا اس میں کچھ اہتمام بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس بند و بست کے نام جمہوریت کی تہمت رکھی جاتی ہے وہ خاندانی آمریت کے سوا کچھ نہیں۔ وہی چند خاندان ہیں جو اقتدار کے ایوان میں جانے کے لیے صرف پرچم بدلتے ہیں۔ یہ پرچم اٹھا لیں تو وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بن جاتے ہیں اور وہ پرچم تھام لیں تو وہ تحریک انصاف اور ق لیگ بن جاتے ہیں۔اقتدار کے ہر غروب ہوتے سورج کے ساتھ بظاہر یہ روندے جاتے ہیں مگر شہر پناہ میں نئے فاتح کے دربار میں پہلی خلعت پھر انہی کو عطا ہوتی ہے۔۔ ان کا نظریات سے کیا واسطہ؟ ان کی منزل مقصود محض اقتدار کا حصول ہے۔چنانچہ آپ چاہیں تو نواز شریف کی کابینہ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں اس میں پرویز مشرف کی کابینہ کے کتنے نابغے براجمان تھے اور چاہے تو عمران خان کی کابینہ اٹھا کے دیکھ لیں قافلہ انقلاب میں کتنے ایسے ہیں جو نواز شریف اور آصف زرداری کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔سیاسی شخصیات کا طاقتور ہونا اور جمہوریت کا بطور ادارہ قدم جما لینا دو مختلف چیزیں ہیں۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے ۔اس کی سیاست کے اکثر پہلو ہمارے ہاں زیر بحث رہتے ہیں کیونکہ وہ دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن اگر میں آپ سے سوال کروں کہ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہان کا نام کیا ہے تو کیا آپ بتا سکیں گے؟ اپنے ہاں مگر جماعتیں شخصیات کی کنیز بن چکی ہیں۔ہمارے ہاں جمہوریت اور آمریت کی کشمکش کا جو بیانیہ پیش کیا جاتا ہے اس میں یہی بنیادی نقص ہے کہ یہاں میدان میں جمہوریت اور جمہوری اقدار تو کہیں ہیں ہی نہیں۔جس روز داخلی صفوں میں اہل سیاست جمہوری اقدار لے کر آئے اس روز منظر ہی اور ہو گا۔ لیکن وہ جانتے ہیں اس صورت میں سماج کا شعور اجتماعی ان کی اپنی فصیلوں کو روند دے گا۔ آتشِ سوزندہ عشق کے الائو اپنی جگہ ، سجودِ درِ بتاں کو مگرجمہوریت نہیں کہتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں