• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رابی پیرزادہ ، راگنی ایم ایم ایس اور “خاموش ٹھرکی۔۔۔علی اختر

رابی پیرزادہ ، راگنی ایم ایم ایس اور “خاموش ٹھرکی۔۔۔علی اختر

لفظ “ٹھرکی” ایک اصطلاح ہے ۔ جو کہ  عام زبان میں اس شخصیت کے لیے استعمال ہوتی ہے جسکے ذہن و دل پر محض سیکس اور جنس مخالف سے متعلق خیالات سوار ہوں ۔ جس طرح دنیا سورج کے گرد اور چاند زمین کے   اطراف محو ِگردش ہے بالکل اسی مانند انکی سوچ کی گردش کا محور بھی محض سیکس اور عورت ہوتی ہے ۔ اب ہم ایک قدم آگے بڑھیں تو اس اصطلاح کو مزید دو اقسام میں توڑ سکتے ہیں ۔ پہلی والی قسم تو عام یا کامن ٹھرکیوں کی ہے ۔ یہ بالکل بے ضرر سی مخلوق ہے ۔ پائے جانے کے مراکز میں مالز ، گرلز کالج کے داخلی دروازے کے سامنے کی سڑک ، شادی ہالز وغیرہ ہیں ۔ اسکے علاوہ بھی یہ جہاں ماحول و حالات سازگار ہوں پائے جاتے ہیں ۔ یہ منافق بالکل بھی نہیں ہوتے یعنی ان سے ملتے ہی لوگ فوری اندازہ لگا لیتے ہیں کے یہ لوگ ٹھرکی ہیں اور اس بات سے ان کو زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا کہ  یہ پہچان لیے گئے ہیں بلکہ بار بار  خود ہی بتاتے رہتے ہیں جیسے انتہائی  سنجیدہ گفتگو کے دوران یہ اچانک افففففف کہہ کر خاموش ہو جائیں گے ،پھر کچھ دیر بعد حواس بحال ہونے پر کہیں گے کہ “بچی چیک کر یار” ۔ ٹھرکیوں کی یہ قسم اس فعل یعنی تاڑم تاڑی سے شازو نادر ہی آگے بڑہتی ہے ۔

اس کے بعد ٹھرکیوں کی دوسری قسم آتی ہے ۔ میں انہیں “سچا عاشق ٹھرکی ” کہتا ہوں ۔ انہیں ہر لڑکی جو کہ  ذرا بھی لفٹ کرا دے یا غلطی سے بات بھی کر لے سے سچا پیار ہو جاتا ہے ۔ ایسا زندگی میں کئی  بار ہوتا ہے اور یہ سلسلہ بچپن سے پچپن تک جاری وساری رہتا ہے ۔انکی کہانی اکثر بچپن سے ہی اپنی سچی محبت کے لیے پاکٹ منی سے گفٹ میں پانچ روپے والی جوبلی چاکلیٹ لانے سے شروع ہوتی ہے ۔ عید پر چوڑیوں اور مہندی گفٹ کرنے کے بعد خون سے لکھے خط ، بلیڈ سے ہاتھ پر نام لکھنے پر  سٹوری کا کلائمیکس ہوتا ہے اور بلا آخر محبوب کی بیوفائی   ، کہیں اور منگنی اور پھر آخر میں ڈولی اٹھنے پر فنائل پی کر خودکشی کی کوشش پر یہ کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے ۔ پہلے محبوب کی بازیابی کے تمام ذرائع معدوم ہوتے ہی انہیں کسی اور قسمت کی ماری بد نصیب سے سچی محبت ہو جاتی ہے اور اکثر پہلی کہانی زمان و مکاں کی تبدیلی کے ساتھ دہرائی جاتی ہے ۔ ٹھرکیوں کی یہ دوسری قسم بھی قدرے بے ضرر ہے اور صرف خود کو ہی ضرر پہنچاتی ہے تو ہم اس قسم کے یعنی “سچے عاشق ٹھرکیوں” کی قسم سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے تیسری اور آخری قسم کی جانب آتے ہیں ۔

یہ قسم بے ضرر ہر گز نہیں اور نہ ہی انہیں آسانی سے پہچانا جاتا ہے ۔ انہیں پہچان لینا بھی ایک فن ہے۔ میں انہیں “خاموش ٹھرکی” کہتا ہوں جو اوپر سے تو اکثر شرافت، دانشوری یا ملائیت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں لیکن اندر سے پورے ہوتے ہیں۔ ناک پر موٹی عینک سجائے ۔ صاف ستھرا لباس زیب تن کیے ۔ مہذب انداز گفتگو کے مالک ،یہ ٹھرکی ناصرف معاشرے  میں پھیلی بے راہ روی سے خود کو بیزار و پریشان ظاہر کرتے ہیں بلکہ گاہے بہ گاہے  آپ کو افسردگی سے نوجوانوں بلکہ نوجوان لڑکیوں اور ساتھ ہی ادھیڑ عمر خواتین (آنٹیوں) کی جنسی جذبات میں بہک جانے اور پھر آخر کار عبرت انگیز انجام کی داستانیں سناتے ہیں ۔

جیسے کہ   ان میں سے ایک شدید “خاموش ٹھرکی” کو میں نے اس وقت پہچانا جب محترم نے مجھے نواب شاہ کی ان چار میڈیکل  سٹوڈنٹ لڑکیوں کی داستان سنائی جنہوں نے ایک خوبرو “دودھ والے” کو اس وقت اغوا کر لیا جب وہ “رات کو بارہ بجے ” دودھ کی سپلائی کے لیے ہوسٹل کے کمرے میں تشریف لایا ۔ یہی نہیں ان لڑکیوں نے “چھ فٹ کے نو جوان” کو ناصرف ریپ کیا بلکہ انجیکشن دے کر زبردستی “قابل استعمال” بنانے کی پے در پے کوششوں کے نتیجے میں جان سے ہی مار دیا اور لاش روڈ پر پھینک دی ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کے کہانی میں کئی  تکنیکی فالٹ تھے ہی لیکن ان لڑکیوں کا انجام تو بالکل ہی ہضم کرنے کے قابل نہ تھا جس میں اعترافی بیان کے بعد چاروں لڑکیوں کے باپوں نے بیک وقت پولیس تھانے میں کانسٹیبل کی بندوق چھین کر اپنی بیٹیوں کو خود اپنے ہاتھ سے مار ڈالا تھا ۔ خیر سننے میں کوئی  حرج ہے کیا ؟ نہیں نا ۔ تو سن لیا ۔

ایک اور محترم سے پہلی بار ملاقات ہوئی  ۔ کچھ رسمی باتوں کے بعد فرماتے ہیں کہ  نئی  ہارر مووی آئی ہے ۔ انڈین ہے “راگنی ایم ایم ایس ” ایک بار ضرور دیکھیے گا ۔ میں پہلی ملاقات میں ہی حضرت کو پہچان چکا تھا تو مزید کھولنے کی غرض سے دریافت کیا کہ  “جناب ! ایسا کیا ہے اس فلم میں ؟” ۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ  میرا یہ سوال تو جیسے کسی سیماب مضطرب کے سامنے بندھے بند کو توڑ ڈالے گا ۔ خیر ، پھر جو بات شروع ہوئی  تو وہ بات نہ تھی فلم کی ہیروئن “سنی لیونی ” کی زندگی کے تمام تر ظاہر و پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتا ایک ریسرچ آرٹیکل تھا ۔ یہ “سیر حاصل گفتگو” جو کہ  محترم نے “سنی لیونی” کے کینیڈا میں گزارے وقت و حالات زندگی سے شروع کی پہلے “سائلنٹ فلمز” و بعد ازاں بالی وڈ میں انٹری پر اختتام پذیر ہوئی  ۔ وہ تو میری بے یقین سی شکل دیکھ کر اسی وقت گوگل سے اس بیچاری کا کچھا چٹھا کھولنے پر تیار تھے کہ  میں نے ہی یہ کہہ کر منع کر دیا کہ  میں خود تنہائی  میں ریسرچ کر لوں گا ۔ ہاں جاتے جاتے جناب نے بہت افسوس کیا کہ  دیکھیے سر یہ فلم انڈسٹری کہاں جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ  ان  خاموش ٹھرکیوں ” کو پہچاننا آسان نہیں لیکن بعض دفعہ  حالات و واقعات ایسا رنگ لےلیتے ہیں کہ یہ بہت بڑی تعداد یعنی بلک کوانٹٹی میں اپنی پہچان آپ کرا دیتے ہیں یعنی کیموفلاج سے باہر آجاتے ہیں ۔ آج کل رابی پیرزادہ نامی ایک دوشیزہ کی وائرل وڈیو پر ہونے والی پُر مغز گفتگو و سیر حاصل تبصروں اور تجزیوں میں آپ ان خاموش ٹھرکیوں کو آپ اپنا پتا دیتے ہوئے بخوبی دیکھیں گے ۔ یہ آپ کو رابی پیرزادہ کا تعارف کرائیں گے ۔ اسکے حالات زندگی ، والد ین وغیرہ کی معلومات بہم پہنچائیں گے ۔ آپ نہ بھی چاہیں تو اسکی لیک وڈیو دیکھنے پر مجبور کریں گے ۔ وڈیو کیسے لیک ہوئی ،ہاتھ میں کیا اوزار تھا وغیرہ وغیرہ سب بتا دینے کے بعد کہیں گے کہ ۔۔ ” ہائے یہ دنیا کس طرف جا رہی ہے۔۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply